از: محمد انیس
گزشتہ سال ٢٠ اپریل کو پٹیالہ میں ہندو فرقہ پرستوں اور سکھوں کے مابین فرقہ وارانہ تصادم ہوا تھا۔ اس فساد میں پولیس نے بروقت کارروائی کی تھی اور دونوں فرقے کے مشتبہ افراد کو گرفتار کیا ۔ کسی نے یکطرفہ کارروائی کی شکایت نہیں کی۔ مزید یہ کہ حکومت نے تادیبی کاروائی کرتے ہوئے پولیس کے اعلیٰ حکام کو بھی وہاں سے ہٹادیا تھا۔
دوسری طرف گذشتہ دنوں ہریانہ کے نوح اور میوات میں ہندو مسلم فساد ہوا تو پولس نے یکطرفہ کارروائی کرتے ہوئے صرف مسلمانوں کو گرفتار کیا۔ ان کے گھروں کو بلڈوزر کیا اور ان پر ظلم و ستم ڈھائے ‘یہانتک کہ انہیں گھر بار چھوڑنا پڑا ۔
پٹیالہ اور میوات میں یہ فرق کیوں ھے کہ ایک جگہ تو پولیس غیر جانبدار رہی لیکن دوسری جگہ پوری طرح سے جانبدار۔ جواب ھے نمبر گیم۔ یہ صرف تعداد کا کھیل ھے ۔ پنجاب میں سکھ آبادی کا ارتکاز ہے ۔ ریاست میں سکھوں کی آبادی ٪58 ھے جبکہ ہندو محض ٪38 ھے ۔ ایڈمنسٹریشن میں بھی سکھوں کی زبردست شراکت داری ہے ۔ پنجاب پولیس میں سکھوں کا اتنا زیادہ غلبہ ھے کہ پولیس بھرتی میں ہندوفرقے کے لوگ بہت کم درخواست کرتے ہیں۔ پنجاب کی ٪90 پولیس فورس سکھوں پر مشتمل ھے ۔ ان وجوہ سے فرقہ وارانہ فسادات میں معاملہ کبھی یکطرفہ نہیں ہوتا ۔
میلیٹنسی سے قبل ٹھیک یہی پوزیشن جموں کشمیر کی تھی۔ ریاستی حکومت مسلمانوں کی تھی اور ایڈمنسٹریشن بھی مسلمانوں کے ہاتھوں میں تھا ۔ مرکز صرف ایسی حکومت چاہتا تھا جو اس کو چیلنج نہ کرے ۔ مقامی انتظامیہ یا پولس فورس سے مرکز کا کوئی لینا دینا نہیں تھا ۔ اس وجہ سے وہاں فرقہ وارانہ فسادات بہت کم ہوتے تھے۔ کبھی کوئی ناخوشگوار واقعہ ہوتا بھی ، تو تمام مجرمین گرفتار ہوتے تھے ۔ کسی مخصوص کمیونٹی پر یکطرفہ کارروائی جیسے معاملے نہیں ہوتے ۔ لیکن میلیٹنسی کے بعد وہاں حالات یکسر بدل گئے۔ ایڈمنسٹریشن پر فوج کا قبضہ ہوگیا ۔ تب سے پورا خطہ میوات بنا ہوا ہے ۔ اب صرف میلیٹنسی ختم ہونے کے بعد ہی سابقہ پوزیشن واپس آسکتی ھے، ورنہ موجودہ حالت بدستور قائم رہیگی ۔
ان دو ریاستوں کو چھوڑکر بقیہ ہندوستان کے فسادات میں پولیس عام طور پر یکطرفہ کارروائی کرتی ہے۔کہیں کم کہیں زیادہ۔ یہ کوئی ایسا معاملہ نہیں ہے کہ اقلیتوں کے احتجاج اور مظاہروں سے مسئلہ ختم ہوجائے گا۔ ایسے معاملوں میں صرف قانونی طور پر بعض صورتیں باقی رہتی ہیں جن کا سہارا لیکر ہم عدالت میں اپنا دفاع کرسکتے ہیں۔
نقسم ہندوستان میں ہندوستانی مسلمانوں کے لئے یہ مستقل اور مشکل صورتحال ھے۔ موجودہ حالات میں اس میں نمایاں تبدیلی یا بہتری کے امکانات بہت کم ہیں۔ یہ دلخراش صورتحال جس نے ہندوستان کے مسلمانوں کو مستقل طور پر بیک فٹ پر ڈال دیا ہے ، اس کا بنیادی سبب اگر ایک عنوان کے تحت کہا جائے تو وہ یہ ہوگا– "مذہب کے نام پر ملک کا بٹوارہ” ۔ 1947ء میں جب مسلم لیگ نے تقسیم تقسیم کا کھیل کھیلا اور اس کھیل میں مسلمان اپنے آپ کو کئی ٹکڑوں میں تقسیم کرلئے ، تبھی سے یہاں یہ غیر متوازن صورتحال پیدا ہوگئی ۔ لیکن عجیب بات ہے کہ آج بھی ہمارے بیشتر احباب تقسیم کے ترانے گاتے نظر آتے ہیں۔ مسلم قومیت کے نشے میں چور انہوں نے اصل قاتل کو نظرانداز کررکھا ہے ۔
حکمت عملی بدلنے کی ضرورت ______
تقسیم کےبعد ملک میں مسلم اقلیت کے تعلق سے انسانی حقوق کی پامالی کے جو معاملے ہوتے ہیں، ان میں ہندوستان اکیلا نہیں ہے ‘بلکہ ذرا سےفرق کےساتھ بیشتر ممالک میں یہی صورت حال ہے۔ مغرب میں جمہوری اور سیکولر ادارے مضبوط ہیں، اس لئے وہاں حالات اس حد تک خراب نہیں ہیں اگرچہ استثنائی طور پر وہاں بھی وقتاً فوقتاً نسلی امتیاز کے معاملے رونما ہوتے ہیں۔ اقلیتوں کے تعلق سے مسلم ممالک کے ریکارڈ بھی ایسے حسین نہیں ہیں کہ وہاں کی مثالیں پیش کی جائیں۔ جب اشتعال انگیزی ہوتی ھے تو پاکستان میں بھی متعدد چرچوں کو نذرآتش کردیا جاتا ھے ۔ پاکستان، افغانستان، ایران کہیں بھی غیر مسلم اقلیتوں کے حقوق اسلامی معیار پر نہیں ہیں۔ ایسے میں ہندوستان میں بھی حالات کے درست ہونے کے امکانات بہت کم ہیں۔ لہذا یہاں اقلیتوں کو ہی آگے بڑھ کر اپنا طرزعمل بدلنا ہوگا ۔ یہاں ہمیں اپنے عددی تناسب کو ملحوظ رکھ کر ایسا طرزعمل اختیار کرنا ہوگا جو ہمارے لئے نتیجہ خیز ہو اور ہمارے مخالفین ہمارے اقدام سے فائدہ نہ اٹھاپائیں۔ جو احباب ہر معاملے میں جہاد’ تلوار اور بدر کا حوالہ دیکر چیختے چلاتے ہیں انہیں جاننا چاہئے کہ یہاں 313 بمقابلہ 1000 جیسے آمنے سامنے والا معرکہ نہیں ہے جس میں کوئی حتمی فتح یا شکست کا امکان ہو ۔ یہاں سب کچھ انڈائریکٹ ھے۔ یہاں اقلیتوں کی احتجاجی اور ہنگامہ خیز سیاست اکثریت کیلئے مہمیز کا کام کرتی ہے ۔ یہاں بی جے پی/آر ایس ایس کی اپنی کوششیں کم ‘ اقلیتوں کے جلوس ، مظاہرے اور عسکری تحریکیں ان کو زیادہ غذا فراہم کرتی ہیں۔ ہمیں اپنے اقدام اور اس کے منفی اثرات کو سمجھنا ہوگا۔ جو اقدام مطلوب نتیجہ پیدا نہ کرے، ان اقدام کو چھوڑنا ہوگا۔ ملک چاہے ہندوستان ہو، پاکستان یا بنگلادیش ہو ،’ کسی اقلیت کی ہنگامہ خیز سیاست اور اس کے للکارنے والا انداز صرف اکثریت کو متحد کرتےہیں اقلیت کو نہیں۔ ______