تحریر:مجاہد ندوی
فرعون کون تھا؟ فرعون وہ تھا جس نے بنی اسرائیل پر ظلم کیا تھا۔ جس نے بیشمار نومولود بچوں کو قتل کیا تھا، جس نے بڑائی ، تکبر اور گھمنڈکیا تھا، اور جس نے صرف کفر وشرک ہی نہیں کیا تھا بلکہ خود سب سے بڑا رب ہونے کا دعویٰ بھی کیا تھا۔ ایسے نافرمان ومتکبر فرعون کے پاس جب اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑ اور حضرت ہارون ؑ کو اسلام کی دعوت دینے کے لئے بھیجا ،تو ان کو تلقین کی: ’’سو تم دونوں اس سے نرم (انداز میں ) گفتگو کرنا شاید وہ نصیحت قبول کر لے یا (میرے غضب سے) ڈرنے لگے۔‘‘ (سورہ طٰہٰ : ۴۴)
زبان میں نرمی، الفاظ میں حلاوت، لہجے کی چاشنی، آواز میں لطافت انسان کی تعلیم وتربیت ، اس کے اخلاق اور اس کے مافی الضمیر کا آئینہ ہوتے ہیں ۔ انہی کے ذریعہ ایک انسان کی شخصیت کا پرتو نکھرتا ہے، سنورتا ہے اور دوسروں کے لئے ترغیب کا باعث بنتا ہے۔کسی کہنے والےنے انسان کے انداز کلام کے متعلق کیا ہی پیاری بات کہی ہے:” انسان کا طرز کلام وہ چیز ہے جس کی وجہ سے وہ لوگوں کے دل میں اترجاتا ہے یا پھر لوگوں کے دل سے اترجاتا ہے۔ “ نرم کلامی انسان کی شخصیت کا زیور ہے۔ اسلام میں ہمیں نرم خوئی اور نر م گوئی کی تعلیمات جا بجا ملتی ہیں ۔ اسلام اپنے ہر ماننے والے کو،بقول اقبالؔ ”نرم دم گفتگو، گرم دم جستجو “دیکھنا چاہتا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ عزوجل نے حضرت محمدﷺ کے اردگرد صحابہ کرامؓ کے جمع ہونے اور آپﷺ سے ان کی بے انتہا محبت کا راز بیان کرتےہوئے ارشاد فرمایا: ’’یہ اللہ کی ہی رحمت تھی جس کی بنا پر آپؐ نے ان لوگوں سے نرمی کا برتاؤ کیا۔ اگرآپؐ سخت مزاج اور سخت دل والے ہوتے تو یہ آپؐ کے پاس سے ہٹ کر تتر بتر ہوجاتے۔‘‘ (آل عمران: ۱۵۹) معلوم ہوا کہ آپﷺ کی نرم مزاجی نے صحابہ کرامؓ کے دلوں میں محبت کا ، تعلق کا، الفت کا وہ طوفان برپا کیا کہ تاریخ اس کی مثال دینے سے قاصر رہی۔
حضرت خبیبؓ تختۂ دار پر ہیں ،جان جانے کا مرحلہ سامنے ہے، اور ایسے حالات میں ایک مشرک مکہ پوچھتا ہے: خبیب، اب توتم بھی پسند کرتے ہوں گے کہ محمدﷺ تمہاری جگہ آجائیں اورتم چھوٹ جاؤ۔ حضرت خبیبؓ نے فرمایا: اللہ خوب جانتا ہے، میں تو یہ بھی پسند نہیں کرتا کہ میری جان بچ جانے کےلئے نبی کریمﷺ کے پیر میں ایک کانٹا بھی چبھے۔
اللہ عزوجل نے اپنے حبیبﷺ کے لئے صحابہ کرام ؓکے دل میں یہ جو محبت برپاکی تھی اس کی ایک وجہ وہ نرم مزاجی تھی جوآپﷺ کی شخصیت کا اٹوٹ حصہ تھی۔ اس پر آپ ﷺ نے خود بھی تاحیات عمل کیا اور دوسروں کو بھی اس کی تلقین کی۔ آپﷺ نے قطعی طور پر اس بات کو برداشت نہیں کیا کہ نرم مزاجی اور نرم کلامی کو کسی حال میں چھوڑا جائے۔ پھر چاہے خود سامنے والا آپﷺ سے بدکلامی کرنے پر اتر آیا ہو۔ بخاری اور مسلم شریف میں اک حدیث میں یہ مشہور واقعہ وارد ہوا ہے۔یہود میں سے بعض لوگ آپﷺ سے ملاقات کے لئے آئے اور (السلام علیکم کے بدلے)کہا: السّام علیکم ۔ (سام کے معنی موت کے ہوتے ہیں )۔ حضرت عائشہؓ نے (یہ سن کر غصہ میں )کہا: موت تم پر ہی ہو۔ اور اللہ تمہارے ساتھ ایسا کرے، ایسا کرے۔ آپﷺ نے حضرت عائشہ ؓ کو ایسا نہ کہنے کی تاکید کی ۔ یہود کے اس واقعہ سے جو سبق اہل اسلام کو دیا گیا ہے، یہ دراصل نرم کلامی کےمتعلق اسلامی تعلیمات کا نچوڑہے۔ اس لئے کہ دنیا بھر میں اسلام نے جو فتح کے علم نصب کئے ہیں اس میں اس طرز کلام کا بہت بڑا عمل دخل ہے جو دلوں میں اترجانے والا تھا۔ ایسا کلام جو دلوں کو جیت لینے والاتھاجس نے دنیا کے سامنےبارہا یہ ثابت کیا کہ”جو دلوں کو فتح کرلے وہی فاتح ِ زمانہ “ اور یہ سب کمال تھا ان قرآنی تعلیمات کا جس میں نہایت وضاحت کے ساتھ نرم گفتگو کے احکامات جاری کردئیے گئے تھے۔ مثلاً اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا: ’’اور لوگوں سے بھلی بات کہنا۔‘‘ (البقرۃ: ۸۳)دراصل نرم کلامی اور دعوت و تبلیغ ایک دوسرے کےلئے لازم وملزوم ہیں ۔
دعوت وتبلیغ کا کیا ہی بہترین اسلوب ہے جو سورۃ الشعراء میں بیان ہوا ہے ۔ حضرت موسی ؑ فرعون کے دربار میں جاتے ہیں ۔ لیکن فرعون ہے کہ کسی صورت حق کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہے۔ وہ راست طور پر اللہ عزوجل کے متعلق پوچھتا ہے کہ جہانوں کا پروردگار آخر ہے کیا؟ حضر ت موسیٰؑ اس سے کہتے ہیں کہ وہ آسمانوں اور زمین کا اور ان دونوں کے درمیان کا سب کا پروردگار ہے اگر تم یقین کرو۔ اب فرعون کو اتنی عقل تو تھی نہیں کہ وہ کوئی اور دلیل دیتا یا کوئی ڈھنگ کی بات کرتا ۔ تو وہ غصہ میں بپھر کر حضرت موسیٰؑ کی شخصیت پر حملے کرنے لگا۔ اس نےاپنے آس پاس کے لوگوں سے کہا: ارے سنتے بھی ہو۔یہ جملہ حضرت موسیٰ ؑ کی باتوں کا مذاق اڑانے کی نیت سے اس نے کہا۔ لیکن ، سبحان اللہ، قرآن ہمیں بتلاتا ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ اس کی بات پر ناراض ہونے اور اپنی شخصیت کا دفاع کرنے کے بجائے کو جواب دیتے ہیں : (اللہ) تمہارا بھی پروردگار ہے اور تمہارے گزرے ہوئے باپ دادا کابھی۔
فرعون حضرت موسیٰ ؑ کی اس نرمی، اس متانت اور اس سنجیدگی پرمزید آگ بگولہ ہوگیا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ حضرت موسیٰؑ پر ذاتی حملے بھی کیوں بے اثر ثابت ہورہے ہیں ۔ لہٰذا اس حملے میں مزید شدت لاتے ہوئے اس نے کہا: جو رسول تم میں بھیجا گیا ہے وہ تو بالکل ہی دیوانہ لگتا ہے۔ اس کا یہ جملہ اس بات کا اشارہ دیتا ہے کہ اس کا غصہ اپنی انتہا کو پہنچ چکاتھا اور کھسیانی بلی کی طرح وہ کھمبے نوچ رہا تھا اور اس مرتبہ اس نے حضرت موسی ؑ کی مبارک شخصیت پر تنقید کی انتہاء کردی اور ان کے لئے لفظ مجنوں استعمال کرڈالا۔ لیکن حضرت موسیٰؑ بغیر غصہ ہوئے، بغیر بدزبانی کئے اور بغیر اپنی ذات اور شخصیت کا دفاع کئے دعوتی مشن پر لگے رہے۔ خود کو مجنوں اور دیوانہ کہے جانے کا بھی کوئی جواب آپؑنے نہیں دیا، بلکہ قرآن کہتا ہے اس کے جواب میں آپؑ نے ارشاد فرمایا: (اللہ ) مشرق ومغرب اور ان دونوں کے درمیان جو کچھ ہے اس کا رب ہے اگر تم عقل رکھتے ہو۔ حضرت موسیٰؑ کا طریقۂ کار ایک نہایت واضح مثال ہے کہ کس طرح حق کے پرستاروں کو اپنی ذات کو بھلا کر دین کے دفاع کیلئے نہایت سنجیدگی کے ساتھ خوش کلامی کی عادت اپنانےکی ضرورت ہے۔
اس لئے کہ بدکلامی اور سخت انداز گفتگو کا آج تک کسی کو فائدہ نہیں ہوا ، البتہ بیشمار انسانوں نے اس کی وجہ سے نقصان ضرور اٹھا یا ہے۔ جبکہ اس کے مقابلے میں نرم خوئی اور نرم گفتاری انسان کے لئے ہر صورتحال میں نہایت ہی فائدہ مند ہوتی ہیں ۔ یہ الفاظ کا ہی جادو ہے جو انسانوں کے دلوں سے نفرت کو مٹاکر محبت کے بیج بو سکتا ہے۔ اس نکتہ کو اللہ عزوجل نے قرآن مجید میں نہایت ہی پیارے انداز میں بیان فرمایا ہے: ’’(بری بات کا) جواب ایسا دو جو بہت اچھا ہو تو تم دیکھوگے کہ جس کے اور تمہارے درمیان دشمنی تھی اب گویا وہ جگری دوست ہے۔‘‘ ( فصلت: ۳۴)
یہ کیا ہی پیارا قرآنی نسخہ ہے جو آج مسلمانوں کے لئے پھیلائے جارہے ہر زہر کا تریاق ثابت ہوسکتا ہے۔ یہ نسخہ ہے نرم کلامی کا، جو نہایت آسان اور سہل راستہ ہے انسانی دلوں میں پھیلائے جارہے نفرت کے زہر کو ختم کرنے کا۔ بس ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم یہ سمجھ جائیں کہ یہی نرم کلامی ہے جو ہماری آپسی رنجشوں کو ، ہمارے اختلافات کو ختم کرسکتی ہے۔ یہی نرم کلامی ہے جو ہمیں سارے عالم کی اقوام کے قلوب تک رسائی دلوا سکتی ہے۔