از:مدثر احمد قاسمی
جس طرح چلچلاتی دھوپ اور شدت کی گرمی میں انسان یہ چاہتا ہے کہ اسے کوئی سایہ نصیب ہوجائے اور ہوا کے جھونکے ٹھنڈک پہنچا جائیں، بالکل اسی طرح انسان اپنی حقیقی زندگی میں بھی حالات کی بنیاد پر کبھی چلچلاتی دھوپ اور شدت کی گرمی جیسی پریشانی محسوس کرتا ہے۔ ایسے وقت میں اسے ضرورت ہوتی ہے شجر سایہ دار کی اور ایسی ٹھنڈی ہوا کی جو اس کے جسم و جان کو سکون پہنچا جائے۔ حقیقی زندگی کی تپش میں انسان کو ٹھنڈک پہنچانے والی چیزیں وہ مختلف لوگ ہیں جو بچوں کے لئے ماں باپ کی شکل میں ؛ ماں باپ کے لئے بچوں کی شکل میں ؛ شوہر کے لئے بیوی کی شکل میں ؛ بیوی کے لئے شوہر کی شکل میں ؛ شاگر د کے لئے استاد کی شکل میں ؛ استاد کے لئے شاگرد کی شکل میں ؛ بھائی کے لئے بہن کی شکل میں ؛ بہن کے لئے بھائی کی شکل میں اور کبھی کسی کے لئے مخلص رشتے دار اور دوست کی شکل میں ظاہر ہوتے ہیں ۔
انسان کی یہی وہ بنیادی ضرورت ہے جس کی وجہ سے اسلام نے مذکورہ اور دیگر رشتوں کی اہمیت کو بہت ہی صاف طریقے سے سمجھا دیا ہے۔مثال کے طور پر کلام پاک کی سورہ النساء کی آیت نمبر ۳۶؍ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اور تم اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو اور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں (سے) اور نزدیکی ہمسائے اور اجنبی پڑوسی اور ہم مجلس اور مسافر (سے)، اور جن کے تم مالک ہو چکے ہو، (ان سے نیکی کیا کرو)، بیشک اللہ اس شخص کو پسند نہیں کرتا جو تکبرّ کرنے والا (مغرور) اور فخر کرنے والا (خود بین) ہو۔‘‘
اسی طرح رشتوں کی اہمیت کے تعلق سے یہ حدیث مبارکہ بڑی رہنمائی کرتی ہے کہ: ’’حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حضورؐ اکرم جب مدینہ تشریف لائے اور میں حاضر ہوا تو آپؐ کے وہ مبارک کلمات جو سب سے پہلے میرے کانوں میں پڑے وہ یہ تھے کہ لوگو! ایک دوسرے کو کثرت سے سلام کیا کرو، اللہ تعالیٰ کی رضاجوئی کیلئے لوگوں کو کھانا کھلایا کرو اور صلہ رحمی کیا کرو اور رات کے ان لمحات میں (نوافل) نماز ادا کیا کرو جب عام لوگ نیند کا لطف لے رہے ہوں ۔ یاد رکھو اِن اُمور پر عمل کر کے تم حفاظت اور سلامتی کے ساتھ بغیر کسی رکاوٹ کے جنت میں پہنچ جاؤ گے۔‘‘ (ترمذی)
اب ہمیں یہاں ایک خاص نکتے کو سمجھنا ہے اور وہ نکتہ یہ ہے کہ اسلام نے مختلف تعلقات کو احسن ڈھنگ سے نبھانے کی جو تاکید کی ہے، اس کا ایک اہم فائدہ یہ بھی ہے کہ یہ تعلقات اور شتے ہمار ے مشکل وقت پر کام آتے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ جب ہم عام حالات میں بے لوث ہوکر تعلقات کو نبھائیں گے تو یہی تعلقات زندگی کی تپش میں ہمارے لئے سایہ اور ہوا ثابت ہوں گے۔ اگر معاملہ اس کے برعکس ہے یعنی عام حالات میں ہم اپنی دنیا میں مست و مگن رہتے ہیں اور اپنے ارد گرد بسنے والے لوگوں کی زندگی میں پیدا ہونے والے اتار چڑھاؤ سے بے خبر رہتے ہیں تو یاد رکھئے، جب ہمیں ان لوگوں کے سہارے کی ضرورت ہوگی تو ہم تنہا کھڑے نظر آئیں گے اور زندگی کی تپش سے جھلس کر دوسروں کے لئےنشان عبرت بن جائیں گے کہ اپنے خول میں بند رہنے کا انجام کیا ہوتا ہے۔
موضوع کی مناسبت سے یہاں اس امر کا ذکر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم میں سے ہر ایک کی زندگی میں کچھ لوگ ایسے ضرور ہوں جو مشکل حالات میں ہمیں صحیح مشورہ دیں اور حالات کے بھنور سے نکلنے میں ہماری مخلصانہ مدد کریں ۔ یاد رکھئے! اگر ہم نے اپنی زندگی میں کچھ لوگوں سے ایسے تعلقات استوار نہیں کئے ہیں جو ہمارے لئے مخلص ہوں تو مشکل حالات میں بہت ممکن ہے کہ ہم ایسے لوگوں کی ریشہ دوانیوں کے شکار ہوجائیں جو ہمارے لئے مخلص نہیں ہیں ۔ ان معاشرتی باریکیوں کو یاد رکھنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔
موضوع کے تعلق سے تو یہ بات عام فہم ہے کہ انسان اپنی زندگی کے سارے معاملات ہر کسی کو نہیں بتاتا ، اور بتانا بھی نہیں چاہئے؛ کیونکہ وہ بات جو ہر کسی کو بتانے کی نہیں ہے اور اسے سب کو بتادیا تو نقصان پہنچنے کا قوی اندیشہ ہے۔ اس لئے اس باب کا حرف آخر یہی ہے کہ ہم زندگی کی گرم شاہراہ پر سایہ اور ہوا کے ساتھ آگے بڑھنے کے لئے کچھ ایسے لوگوں کا انتخاب ضرور کرلیں جو ہر حال میں تعلقات، رشتے داری اور دوستی کا حق ادا کریں ۔
اس حوالے سے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ کا یہ قول ہمارے لئے مشعل راہ ہے:’’اپنے بھائیوں (دوستوں ) کو تھامے رکھو! اس لئے کہ وہ دنیا میں کم ہی ملتے ہیں اور آخرت میں بھی کم ہی ہوں گے۔‘‘ (تفسیر طبری)