از:ودود ساجد
فروری کومتحدہ عرب امارات (یو اے ای)کی راجدھانی ابوظبی کے’ ابو مریخا‘ علاقہ میں جب وزیر اعظم نریندر مودی نوتعمیر شدہ ہمالیائی ہندومندر کا افتتاح کررہے تھے توعرب سرزمین پر یقیناً وہ ایک تاریخ رقم کر رہے تھے۔ لیکن اسی وقت یہاں ہندوستان میں بھی ’ ایک تاریخ‘ لکھی جارہی تھی۔ وزیر اعظم نے اپنی تقریر میں متحدہ عرب امارات کے صدر شیخ محمد بن زائد النہیان کا شکریہ اداکرتے ہوئے کہا کہ ’’یو اے ای نے آج انسانی تاریخ میں ایک سنہرا باب رقم کیا ہے۔‘‘ یہ کتنا دلچسپ لمحہ تھا جب اس موقع پروزیر اعظم نریندرمودی کے ساتھ ‘ یو اے ای کے وزیر برائے رواداری (ٹالرینس منسٹر) شیخ نہیان بن مبارک النہیان بھی موجود تھے۔ وزیر اعظم نے یواے ای کے صدر شیخ نہیان کے تئیں اظہارتشکر کے طور پر افتتاحی تقریب میں موجود لوگوں سے کھڑے ہوکرتالیاں بجانے کو بھی کہا۔ بی اے پی ایس مندریا سوامی ناراین مندر کی تعمیر کیلئے شیخ نہیان نے 27ایکڑ انتہائی بیش قیمت زمین اپنی طرف سے تحفہ میں دی ہے۔
یہ موضوع بڑا مشکل اور بہت ٹیڑھا ہے۔ یہ دو ملکوں کے درمیان تعلقات کا موضوع ہے۔ یہ موضوع دو مختلف مذاہب اور مختلف ثقافتوں کے پیروکاروں کے درمیان رواداری کا بھی ہے۔ یہ موضوع صرف مندر کا ہی نہیں بلکہ مسجد کا بھی ہے۔ یہ موضوع ہندئوں اور مسلمانوں کا بھی ہے اور یہ موضوع رعایا کے ساتھ حکومت کے سلوک کا بھی ہے۔ یہ دراصل قومی سطح کے عمل اور بین الاقوامی سطح کے قول کے درمیان ہمالیائی تضاد کا موضوع ہے۔ وزیر اعظم نے ’شاندار‘ مندر کے افتتاح کے موقع پر ایک ’شاندار‘ خطاب بھی کیا۔ ہرچند کہ ان کے خطاب کا روئے سخن وہاں موجودہندوستان کے ہی غیر مقیم شہریوں کی طرف تھا تاہم یہ خطاب ایک دوست ملک کی سرزمین پر ہورہا تھا۔ لہٰذا اس کا تجزیہ کرتے وقت سفارتی آداب اور دو ملکوں کے درمیان سفارتی اور اقتصادی رشتوں کی حساسیت کو بھی ملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہے۔
وزیر اعظم کا خطاب بڑا دلچسپ تھا۔ انہوں نے کچھ عربی کے کلمات بھی اپنے انداز میں ادا کئے۔ ان کی اس کوشش کی ستائش کی جانی چاہئے۔ ابوظبی میں مندر کے افتتاح کی یہ تقریب ایودھیا میں رام مندر کے افتتاح کی تقریب کے محض 24دن بعد ہورہی تھی۔ بی جے پی اور ہندوستان کے ہندو طبقات کیلئے ’رام مندر‘ کی تعمیر اس صدی کاسب سے بڑا تاریخی واقعہ ہے۔ وزیر اعظم نے اپنے خطاب میں کہا کہ’’ ایودھیا کی خوشی یہاں ابوظبی میں ملنے والی خوشی کے سبب دوبالا ہوگئی ہے‘ یہ میری خوش قسمتی ہے کہ پہلےمیں ایودھیا میں عظیم الشان رام مندر کے افتتاح کاگواہ بنا اور اب اس مندر کی افتتاحی تقریب کا گواہ بن رہا ہوں‘ یواے ای نے ‘جوبرج خلیفہ اورشیخ زائد جامع مسجدوغیرہ کیلئے مشہور ہے ‘ اب اپنی شناخت میں ایک اورثقافتی باب کا اضافہ کرلیا ہے‘ ہم تنوع میں منافرت نہیں دیکھتے‘ ہم تنوع کو اپنی خصوصیت سمجھتے ہیں‘ مجھے یقین ہے کہ اس مندر میں بڑی تعداد میں عقیدت مند آئیں گے اور اس کے سبب عوام کا عوام سے رابطہ بڑھے گا۔‘‘
وزیر اعظم نےایک بڑا دلچسپ نکتہ بتاتے ہوئے کہاکہ ’’ جب میں 2018میں متحدہ عرب امارات کے دورہ پر آیااورصدر شیخ نہیان سے ملا تو میں نے انہیں مندر کے دو نمونے دکھائے تھے۔ ایک نمونہ ویدک طرز تعمیر پر مبنی تھاجس میں ہندو مذہبی علامات تھیں اوردوسرا نمونہ ہندو مذہبی علامات سے خالی اور سادہ طرز تعمیر پر مبنی تھا۔ لیکن شیخ نہیان کا نقطہ نظر بالکل واضح تھا: انہوں نے مجھ سے کہا کہ ’’ –ابوظبی میں مندر پوری شان وشوکت سے بننا چاہئے— ‘‘ شیخ نہیان چاہتے تھے کہ مندر نہ صرف تعمیر ہو بلکہ مندر جیسا لگے بھی۔‘‘ اس تقریب میں یواے ای کے وزیربرائے رواداری نہیان بن مبارک النہیان نے وزیر اعظم کو ایک دوست ملک کا عظیم لیڈرقراردیتے ہوئے ان کےسیاسی نعرے ’سب کا ساتھ سب کاوکاس‘ کا خصوصی طور پر ذکر کیا اور کہا کہ نریندر مودی کے سبب ہندوستان سے ہمارے قدیم رشتوں میں اور مضبوطی آئی۔ اس تقریب میں وہ تمام رسومات بھی انجام دی گئیں جو ایک ہندو مندر کے افتتاح کے موقع پر انجام دی جاتی ہیں۔ متعدد اخبارات نے لکھا ہے کہ ’ابوظبی میں سوامی ناراین مندر کے افتتاح کی تقریب نے ایودھیا میںرام مندر کے افتتاح کی تقریب جیسا نظارہ پیش کیا۔‘ انڈین ایکسپریس نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ ایسا لگ رہا تھا کہ ابوظبی میں بھی ایک ایودھیا نمودار ہوگئی ہے۔ اس موقع پر دنیا بھر کے ممالک میں سوامی ناراین طبقہ کے ذریعہ قائم 1200 مندروں میں ایک ساتھ ’گلوبل آرتی‘ بھی ہوئی جس میں وزیر اعظم نے بھی حصہ لیا۔
اس مندر کی طرز تعمیر میں دونوں ملکوں کی ثقافتوں کے چندعناصر کابھی خیال رکھا گیا ہے۔ اس میں سات چھوٹے گنبد بھی بنائے گئے ہیں جو متحدہ عرب امارات کی ان سات ریاستوں سے عبارت ہیں جن کو ملا کر ایک ملک بنایا گیا ہے۔اس کے داخلی دروازہ پر 8مورتیاں بھی نصب کی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ ہندوستان کےشمال ‘جنوب‘ مشرق اور مغرب کے چاروں بڑے ’بھگوانوں‘ کے مجسمے بھی نصب کئے گئے ہیں۔ واضح رہے کہ یہ مندرابو ظبی میں شیخ زائد جامع مسجد سے محض پچاس کلو میٹر کے فاصلہ پر واقع ہے۔ اس تقریب سے چند روز قبل انڈین ایکسپریس کو دئے گئے انٹرویو میں ہندوستان میں متحدہ عرب امارات کے سفیر عبدالناصر الشالی نے مندر کے افتتاح کو ایک خصوصی موقع بتاتے ہوئے اسے دونوں ملکوں کے باہمی رشتوں کی مضبوطی کا ضامن قرار دیا تھا۔ یہاں ایک وضاحت ضروری ہے کہ متحدہ عرب امارات میں ابوظبی کا مندر پہلا نہیں ہے‘ دوبئی میں دو مندر پہلے سے قائم ہیں۔پہلا 1958میں اور دوسرا 2022 میں تعمیرہواتھا۔ 1997میں سوامی ناراین طبقہ کے پیشوامہنت سوامی مہاراج نے ابوظبی کے مندر کا خاکہ پیش کیا تھا۔ اگست 2015 میں یو اے ای حکومت نے اعلان کیا کہ مندر کیلئے صدر کی طرف سے جگہ کا عطیہ دیا جائے گا۔ 2017میں وزیر اعظم مودی کے ہی ہاتھوں اس کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔ 2019 میں اس مندر کے قیام اور تعمیری سرگرمیوں کو قانونی پروانہ مل گیا۔یہ مندر 108فٹ اونچا ‘ 262فٹ لمبااور 180فٹ چوڑاہے۔ اس کی تعمیر میں مستری اور مزدور تو لگے ہی ساتھ ہی متحدہ عرب امارات‘ افریقہ‘ برطانیہ ‘ امریکہ‘ ہندوستان اورخلیجی ممالک کے 200 رضاکاروں نے بھی 6لاکھ 90ہزار گھنٹے وقف کئے۔ اس پر کل سات سو کروڑ روپیہ کا صرفہ آیا ہے۔
ہم نے اس مندر کے افتتاح کی مذکورہ تفصیل کو اس لئے ضروری سمجھا کہ اس سے ہمارے ملک اور ہمارے وزیر اعظم کا ’وقار‘ وابستہ ہے۔ جو خواب سوامی ناراین طبقہ نے 1997میں دیکھا تھا وہ 18سال بعد 2015میں اسی وقت زمین پر اترا جب ہمارے وزیر اعظم نے متحدہ عرب امارات کے صدر سے پہلی ملاقات کی۔لیکن خود خلیج کا میڈیا ہمارے وزیر اعظم کے تعلق سے ایک اور پہلو پر بھی رپورٹیں نشر اور شائع کرتا رہا ہے۔ مثال کے طورپر اپریل2023 میں ’الجزیرہ‘ کی ویب سائٹ نے سارہ اطہرکی ایک رپورٹ شائع کی۔اس کا عنوان یہ تھا: تباہی کی سیاست: ہندوستان کی مساجدکومودی کیوں منہدم کرنا چاہتے ہیں؟۔ ہمیں اس عنوان کے تعلق سے تردد ہے۔ اس لئے کہ وزیر اعظم نے کبھی اپنے منہ سےکسی ایک بھی مسجد کے تعلق سے ایسی کوئی بات نہیں کہی۔ لیکن اس رپورٹ کی دیگر تفصیلات ہمارے ملک اور وزیر اعظم کی خلیجی ممالک میں پھیل جانے والی ’نیک نامی‘ کو داغ دار بناتی ہیں۔ اس رپورٹ میں یوپی‘ دہلی اور دوسرے کئی مقامات کی متعدد تاریخی مساجدکو بلڈوزر سے منہدم کرنے کا ذکر ہے۔ اس میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کئی مسجدوں کے مقدمات مختلف عدالتوں میں زیر سماعت تھے لیکن ’تباہ کن عجلت‘ کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں منہدم کردیا گیا۔ اس رپورٹ میں اجمالاً بابری مسجد کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کا بھی ذکر ہے۔
مسجدوں پر آنے والی افتاد کی تفصیلات سے پورا ملک واقف ہے۔ لیکن تشویش یہ ہے کہ ان تفصیلات کا ذکر بین الاقوامی سطح پربھی ہورہا ہے‘ اور ایسے وقت میں ہورہا ہے جب ہمارے وزیر اعظم متحدہ عرب امارات کی سرزمین پر ’تنوع میں کوئی نفرت نہیں‘ کے عنصر کو فخریہ بیان کر رہے ہیں۔ اتراکھنڈ کے ہلدوانی اور دہلی کے مہرولی میں منہدم کی جانے والی مسجدوں کا واقعہ تو بالکل تازہ ہے۔ ہلدوانی کا مقدمہ عدالت میں زیر سماعت تھا جبکہ مہرولی کی 600سالہ پرانی مسجد کے تعلق سے عدالت نے پولیس اور انتظامیہ سے سخت سوالات کئے ہیں۔ بدایوں کی 800سال پرانی شمسی جامع مسجدکا بھی بین الاقوامی میڈیا میں ذکر ہورہا ہےجس کے بارے میں دعوی ہے کہ دسویں صدی میں یہاں ’لارڈشوا‘ کا مندر تھا۔ بین الاقوامی میڈیا میں بلڈوزر سے زمین دوز کردئے جانے والے سینکڑوں مکانات اور دوکانوں کا بھی ذکر ہورہا ہے۔ ایسے میں ڈر لگتا ہے کہ ہمارے ملک اور وزیراعظم کی بین الاقوامی سطح پر جو شبیہ بنی ہے اسے کہیں زک نہ پہنچ جائے۔ ہم وزیر اعظم کے تعلق سےسارہ اطہر کی ہیڈنگ کی تائید نہیں کرسکتے کیونکہ وزیر اعظم نے ایسی کوئی بات کہی نہیں لیکن وزیر اعظم نے شرپسندوں اور اپنے اقتدار والی ریاستوں کے وزرائے اعلی سے یہ بھی تو نہیں کہا کہ مسجدوں کا انہدام ہماری پالیسی میں نہیں ہے۔ حیرت ہے کہ متحدہ عرب امارات میںرواداری کی وزارت قائم ہے جہاں رواداری کو کوئی خطرہ ہی نہیں۔ جبکہ یہاں ہر وزیر رواداری کا حلف لیتا ہے مگر رواداری کا جو حشر ہوا ہے اس پر خودرواداری بھی شرمندہ ہوگی۔
شیخ نہیان سے زیادہ بڑاروادار کون ہوگا کہ انہوں نے ایسے وقت میں ابوظبی میں ایک شاندار مندر کے افتتاح کی راہ ہموار کردی جب ابو ظبی سے دو ہزارایک سو ایک کلو میٹر کے فاصلہ پر واقع غزہ میں اسرائیل نے 1200 میں سے ایک ہزار مسجدوں کو بمباری میں تباہ وبرباد کرڈالا‘ 100سے زیادہ ائمہ وخطباء کو بھی حملوں میں شہید کردیا اور درجنوں قبرستانوں پربمباری کرکے شہیدوں کے اجسام کو ریزہ ریزہ کردیا۔ اقوام متحدہ کے مطابق غزہ میں 85فیصد آبادی اجڑ گئی ہے اور 60فیصد انفرااسٹرکچر تباہ ہوگیا ہے۔ اس سے بڑی رواداری کیا ہوگی کہ اسرائیل سے مراسم کی استواری کے تعلق سے جو موقف متحدہ عرب امارات نے پچھلے سال نومبر میں واضح کیا تھا وہ اس پر رواں سال کے فروری میں بھی قائم ہے۔ غزہ میں 35ہزار فلسطینی شہید‘ 80ہزار زخمی اور 20لاکھ بے گھر ہوگئے ہیں۔ اقوام متحدہ میں متحدہ عرب امارات کی سفیر ’لانا نصیبہ‘ فرماتی ہیں کہ اسرائیل سے تعلقات اور تعاون کے سبب ہی ہم غزہ میں ایک موبائل ہسپتال چلا پانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ یو اے ای کو اسرائیل کی مسلسل جنگ اور خاص طورپر رفح پر حملوں کے منصوبوں کے خوفناک نتائج کا اندازہ نہ ہو‘ اسے خوب اندازہ ہے‘ اسی لئے سفیر محترمہ فرماتی ہیں کہ رفح پر بمباری کے ناقابل قبول نتائج ہوں گے مگر اس کے باوجود اسرائیل سے مراسم جاری رکھنے کے خیال کا اعادہ بھی کرتی ہیں۔ غزہ پر بمباری کے باوجود اسرائیل سے مراسم کا ذکر چلا ہے تو یہ ذکر بھی دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ اسرائیل کو خام تیل کی سب سے بڑی سپلائی 70فیصد مسلم آبادی والے قزاقستان اور 93فیصد مسلم آبادی والے آذر بائیجان سے ہوتی ہے۔
