از:جی ایم بٹ
کوئی غیر مسجد کی طرف بری نگاہ سے دیکھے تو مسلمان چیخ اٹھتے ہیں ۔ اسلامی اعتقاد کے مطابق مسجد اللہ کا گھر ہے ۔ اس کی تعظیم کرنا ضروری ہے ۔ اللہ نے مسجدوں کی تعمیر کا حکم دیا ہے اور اپنے موحد بندوں کی یہ صفت بیان کی ہے کہ مسجدیں تعمیر کرتے ہیں ۔ مسجد مسلمان بستیوں کی علامت اور شناخت ہے ۔ مسلمان بستیوں کے اظہار کا ذریعہ مسجد ہے ۔ جس بستی میں مسجد ہوگی یقینی طور وہاں مسلمان آباد ہونگے ۔ مسجدوں کی تعظیم اتنی نہیں کہ ان کے بلند مینار کھڑا کئے جائیں اور وہاں پنج وقتہ نماز کا اہتمام ہو ۔ بلکہ مسجد مسلمانوں کی عظمت اور ان کی فکر کی عکاسی کرتی ہے ۔ بدقسمتی یہ ہے کہ اسلامی فکر کو مسلمانوں کے مختلف فرقوں کی شناخت بنایا گیا ۔ حنفی مسجدیں الگ ہیں ۔ اہلحدیث مساجد کی الگ فکر ہے ۔ بریلویوں کی اپنی الگ مسجدیں ہیں ۔ ہر فرقے اور ہر مسلک کی اپنی الگ مسجد ہے ۔ اس طرح سے اسلام بھی محفوظ سمجھا جاتا ہے اور یہی مسجد کا اصل کاروبار بنادیا گیا ہے ۔ پہلے مسجدیں مسلمانوں کے اتحاد کا نمونہ ہوتی تھیں ۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنے زمانے میں مسجد تعمیر کی ۔ مکہ سے مدینہ آتے وقت انہوں نے سب سے پہلے مسجد تعمیر کی ۔ یہاں تک کہ مدینہ میں جب ان کی حاکمیت قائم ہوئی تو مسجد نبوی کی تعمیر شروع کی گئی ۔ یہیں آپ ؐ کے لئے حجرے تعمیر ہوئے جہاں ان کی ازواج مطہرات قیام کرتی تھیں ۔ اس طرح سے مسجد نبوی اسلامی سرگرمیوں اور صحابہ کے لئے اطمینان کا باعث بن گئی ۔ مسلمان کسی صدمے ، تشویش یا کسی مسئلے سے دوچار ہوتے تو فوراََ مسجد نبوی تشریف لاکر اپنے دل کی حالت سناتے ۔ یہاں انہیں تسلی میسر آتی تو گھر چلے جاتے ۔ اپنے گھر والوں کو دلاسہ دیتے اور نبیؐ سے ملی تسکین سے انہیں باخبر کراتے ۔ یہاں صورتحال یہ ہے کہ مسجدیں تمام پریشانیوں کا مرکز بن گئی ہیں ۔ تمام مسائل یہاں جنم لیتے ۔ تمام فتنے یہاں سے ہی سرنکالتے اور تمام جھگڑے یہیں سے شروع ہوجاتے ہیں ۔ محلوں کو تقسیم کرنے کا پلان یہیں پر بنتا ہے ۔ یہاں تک کہ گھروں میں تنازعے یہیں سے طے ہوتے ہیں ۔ مسلم سوسائٹی کو تقسیم کرنے کا کام یہیں پر ہوتا ہے ۔ مسجد نبوی تو اتحاد کی علامت تھی ۔ سوسائٹی کو خوبرو بنانے کا مرکز تھا ۔ وہاں صحابہ کے رشتے طے پاتے تھے ۔ اخوت کے پیمانے باندھے جاتے تھے ۔ مسلمانوں کو سیسہ پلائی دیوار بنانے میں اسی مسجد نے سب سے اہم رول ادا کیا ۔ جب مسجد نبوی کے مقابلے میں الگ سے ایک مسجد بنانے کی کوشش کی گئی ۔ بلکہ مسجد تعمیر بھی ہوئی ۔ تو اس کو جلانے اک حکم دیا گیا ۔ اس مسجد سے خطرہ تھا مسلمانوں کے خلاف سازشی اڈہ بننے کا ۔ اتحاد پارہ پارہ ہونے کا ۔ آج ہر مسجد فتنوں کا مرکز ہے ۔ مسلمانوں کے اتحاد میں دراڑیں ڈالنے کا ۔ ہم اس پر پریشان نہیں ۔ اس پر روتے نہیں ۔ ہاں دوسرے مسجد سے چھیڑ چھاڑ کریں تو اس پر واویلا کرتے ہیں ۔
مسجدوں کو جب پامال کیا گیا ۔ فتنوں کے مرکز میں بدل دیا گیا ۔ تو اللہ نے ہم سے مسجدیں چھین لیں ۔ ہم نے اتحاد امت کے خلاف کام کیا تو اللہ نے ہمارے خلاف کام کیا ۔ مسجد تو مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لئے ہوتی ہے ۔ ابتدائی دو ر میں مسجد کمیونٹی ہال کے طور کام کرتی تھی ۔ سوسائٹی کی فلاح بہبود کے کام یہیں انجام دئے جاتے تھے ۔ مسلمانوں کے مسائل یہاں حل کئے جاتے تھے ۔ مسلمانوں کی غربت دور کرنے کے پروگرام یہاں بنتے تھے ۔ مسلمانوں کے لئے وظیفے یہاں مقرر ہوتے تھے ۔ سماج سدھار کے کام یہاں تشکیل پاتے تھے ۔ درس و تدریس کا کام یہاں انجام دیا جاتا تھا ۔ تنازعات کے فیصلے یہاں سنائے جاتے تھے ۔ مسلمانوں کو آگے بڑھانے کے اقدامات پر صلاح مشورہ یہاں ہوتا تھا ۔ تجارتی قافلے یہاں سے ہی روانہ ہوتے تھے ۔ جنگوں کے کاروان یہاں منظم ہوتے تھے ۔ تعمیر و ترقی کے نقشے یہاں بنائے جاتے تھے ۔ بدقسمتی یہ ہے کہ آج توڑ پھوڑ کے سارے منصوبے مسجدوں میں ہی بنتے ہیں ۔ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے نعرے یہیں لگ جاتے ہیں ۔ ایک دوسرے کے خلاف کفر اور شرک کے فتوے ان ہی مسجدوں سے لگ جاتے ہیں ۔ ایک دوسرے کو کمزور کرنے کے سارے پروگرام یہاں پر ہی تشکیل پاتے ہیں ۔ کتنی بدقسمتی کی بات ہے کہ ایسا کرنے والے عام لوگ نہیں ہیں ۔ بلکہ بڑے بڑے علما اور خطیب ہیں ۔ خود کو مفتی اور مولانا کہنے والے لوگ یہ کام انجام دیتے ہیں ۔ ایک دوسرے کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دینے والے کوئی غریب اور بے چارے قسم کے لوگ نہیں ۔ بلکہ وہ ہیں جو خود کو اسلام کا فلسفہ سمجھنے والے مانتے ہیں ۔ مسجدوں کو ااس کاز کے لئے استعمال کرنے والے وہ لوگ ہیں جو اسلام کا گہرا علم ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں ۔ اسلام کے ابتدائی سو سالوں میں کبھی ایسا نہیں دیکھا گیا کہ ایک دوسرے کے دشمنوں کو بھی کافر یا دائرہ اسلام قرار دیا گیا ۔ حضرت علی نے حضرت عائشہ کو اسلام سے خارج نہیں کہا ۔ حضرت عائشہ یا اس کے ساتھیوں نے علی کو اسلام کا دشمن نہیں بتایا ۔ حسین نے یزید کو اپنے نانا کے دین کا دشمن نہیں کہا ۔ یزید نے حسین کے خلاف کفر کے فتوے جاری نہیں کئے ۔ حسینی صف میں شامل علما نے کسی یزیدی کے خلاف کافر ہونے کی تہمت نہیں لگائی ۔ یزید کے حامی علما نے حسین کے خلاف دین دشمنی کے فتوے جاری نہیں کئے ۔ آج دو ٹکے کے امام بڑے بڑے اسلام پسندوں کے خلاف کفر اور خارجی ہونے کا الزام لگاتے ہیں ۔ دین کے شیدائیوں کو خارجی قرار دیتے ہیں ۔ جتنے بھی نام نہاد علما ہیں سب ایک دوسرے کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دیتے ہیں ۔ ایسے فتوے مسجدوں کے لائوڈ اسپیکروں سے سنائے جاتے ہیں ۔ مسجد کے ممبر و محراب اس کے گواہ بنائے جاتے ہیں ۔ یہ کام اس سے کہیں زیادہ اذیت اک باعث ہے کہ مسجد کی چار دیواری کو ذک پہنچائی جائے ۔
