جمعرات کو پہلے ایک عورت اور پھر ایک معمر شخص نے دریا میں چھلانگ لگادی ۔ عورت کو بچایا گیا ۔ لیکن معمر شخص کا ابھی تک پتہ نہیں ہے ۔ اس کی لاش تلاش کرنے کے لئے بڑے پیمانے پر تلاش جاری ہے ۔ اس حوالے سے معلوم ہوا ہے کہ نیوی کے ماروس کمانڈوز اور دریائی پولیس کی خدمات حاصل کی گئی ہیں تالہ لاش کو ڈھونڈ نکالا جاسکے سرکاری طور کہا گیا کہ نذیر احمد نامی ایک شخص نے صفا کدل کے پاس دریائے جہلم میں چھلانگ لگائی ۔ یہ خبر پھیلتے ہی دریا کے وسیع علاقے میں غوظہ خوروں نے تلاش شروع کی ۔ لیکن جمعہ شام تک لاش حاصل کرنا ممکن نہ ہوسکا ۔ اسی دوران ہندوارہ سے خبر ملی کہ ایک شخص نے کلہاڑی مارکر اپنی بیوی کی جان لی ۔ میاں بیوی کے درمیان تو تو میں میں سے لڑائی شروع ہوئی ۔ اس پر خاونڈ نے کلہاڑی اٹھاکر اپنی بیوی کے سر پر ماری جس سے وہ موقعے پر ہی ہلاک ہوئی ۔ اس واقعے سے پورے علاقے میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ۔ اس ہلاکت پر علاقے کے لوگوں نے سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ قاتل کو سخت سے سخت سزا دی جائے ۔ ہندوارہ واقع سے پہلے سرینگر کے عید گاہ میں ایک دوشیزہ کی ہلاکت کا واقع پیش آیا جس میں ایک شادہ شدہ عورت کی لاش اس کے کمرے میں لٹکتی پائی گئی ۔ لڑکی کے میکے والوں کا الزام ہے کہ اسے پھانسی دے کر ہلاک کیا گیا ہے جب کہ اس کے خاوند نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس میں ملوث نہیں ہے ۔ پولیس نے دونوں واقعات کا نوٹس لیتے ہوئے قانونی کاروائی شروع کی ۔ پولیس کا کہنا ہے کہ جس کسی کو بھی ملوث پایا گیا اسے کسی طور بخشا نہیں جائے گا ۔
کشمیر میں پچھلے کچھ عرصے سے خود کشی اور ہلاکتوں کے واقعات میں اچانک اضافہ ہورہاہے ۔ اس طرح کے واقعات یہاں بہت کم پیش آتے تھے ۔ کشمیر سے پہلے ایسے حادثات عام تھے ۔ تاہم کشمیر میں اس طرح کی وارداتیں نہ ہونے کے برابر ہوتی تھیں ۔ لیکن کچھ عرصے سے ایسے واقعات اب یہاں معمول بن رہے ہیں ۔ کئی حلقوں کی طرف سے ایسے واقعات پیش آنے پر سخت افسوس کا اظہار کیا جارہا ہے ۔ اس کے باوجود ایسے واقعات برابر پیش آرہے ہیں اور کسی طور رکنے کا نام نہیں لے رہے ہیں ۔ یہ عجیب بات ہے کہ لوگوں کے اندر برداشت کا مادہ سرے سے نہیں پایا جاتا ہے ۔ باپ بیٹے یا دو بھائیوں خاص طور سے میاں بیوی کے درمیان کسی معمالے پر اختلاف ہوجائے تو دونوں طرف سے انتہائی اقدامات اٹھائے جارہے ہیں ۔ یہ بات تعجب خیز ہے کہ کوئی اپنی گھریلو مجبوریوں کا احساس نہیں کرتا اور ایک دوسرے کی جان لینے تک پہنچ جاتے ہیں ۔ بھائی اپنے بھائی کو قتل کرتا ہے اور خاوند اپنی بیوی کی جان لیتا ہے ۔ یہ سوچے بغیر کہ اس وجہ سے کیسے مسائل پیدا ہونگے کوئی بھی اپنے غصے پر قابو پانے کے لئے تیار نہیں ہوتا ہے ۔ خود کشی یا کسی مخالف کو قتل کرنے جیسے اقدامات کوئی آسان کام نہیں ہے ۔ ایسے جان لیوا حادثات سے پورا کنبہ شدید مسکلات کا شکار ہوجاتا ہے ۔ اپنی بیوی یا بھائی یا کسی دوسرے کو قتل کرنے والے کو معلوم ہوتا ہے کہ اس کی باقی ساری زندگی جیل اور عدالتوں میں گزر جائے گی ۔ اس کا احساس کئے بغیر سخت اقدام کرکے معمولی مسئلے کو قتل کی حد تک پہنچا جاتا ہے ۔ اس طرح کے حادثات کی وجہ سے لوگوں میں سخت تشویش پائی جاتی ہے ۔ ایسے واقعات برداشت کرنا کسی بھی معاشرے کے لئے سخت ترین معاملہ ہوتا ہے ۔ اس سے پورا معاشرہ بگڑ جاتا ہے اور بہت سے لوگوں کے اندر سخت خوف پیدا ہوجاتا ہے ۔ خاص طور سے بچے اس وجہ سے سخت متاثر ہوتے ہیں ۔ اس کے ابوجود لوگ ایک دوسرے پر چڑدوڑتے ہیں اور خون بہائے بغیر چین سے نہیں بیٹھتے ۔ ایسے واقعات کا بار بار پیش آنا انتہائی مایوس کن بات ہے ۔ کشمیر میں ملی ٹنسی کے دوران ہوئی ہلاکتوں سے پہلے ہی بہت خون بہایا گیا ہے ۔ لوگوں کے لئے اس طرح کی ہلاکتوں سے جو تحریک پیدا ہونی چاہئے وہ یہاں نظر نہیں آتی ۔ بلکہ اب لوگ اسے زندگی کا حصہ مان کر ایسے واقعات کو پس پشت ڈالتے ہیں ۔ اس طرح کے واقعات سے نمٹنے کے لئے صرف پولیس کاروائی کافی سمجھی جاتی ہے ۔ یہ صحیح ہے کہ ایک عام آدمی ایسے واقعات کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کرسکتا ہے ۔ بلکہ قانون کا اطلاق قانونی اداروں کا ہی کام ہے ۔ عام شہری کسی کو قاتل قرار دے کر سزا دے سکتا ہے نہ کسی کو معاف کرسکتا ہے ۔ تاہم اس حوالے سے جس طرح کا سلوک کیا جانا چاہئے نہیں کیا جاتا ہے ۔ ایسے معاملات انتہا کی حد کو پہنچنے سے پہلے ان کو روکنے کی جو کوششیں ہونی چاہئے نہیں ہوتی ہیں ۔ لوگ ایک دوسرے کا غم بانٹتے ہیں نہ ایسے معاملات میں ایک دوسرے کو نصیحت کرتے ہیں ۔ خاص طور سے گھریلو جھگڑوں کو سلجھانے کے لئے کوئی کوشش نہیں ہوتی ہے ۔ ماضی میں محلے اور بستی کے معزز شہری گھریلو تنازؑے حل کرنے میں مدد دیتے تھے ۔ لیکن اب ایسا نہیں ہوتا ہے یہاں تک کہ ایسے معاملات کو لے کر قتل وغارت ہوتی ہے ۔ یہ بڑی بدقسمتی کی بات ہے کہ ہمارے معاشرے میں بزرگ شہریوں کا کوئی رول رہاہے نہ ان کا رعب پایا جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ معشارتی زندگی تہس نہس ہورہی ہے اور آئے دن دلدوز واقعات پیش آتے رہتے ہیں ۔