پچھلے دنوں صوبائی کمشنر وی کے بدھوری نے ایک اعلی سطحی اجلاس کی صدارت کی ۔ اجلاس واٹر ٹرانسپورٹ نیویگیش کے حوالےسے بلایا گیا تھا ۔کہا جاتا ہے کہ سرینگر کی سڑکوں پر ٹریفک کے بڑھتے دباؤ کو کم کرنے کے لئے دریائے جہلم میں آبی ٹرانسپورٹ چلانے کے منصوبے پر غور وخوض کیا گیا ۔ کہا جاتا ہے کہ اس منصوبے کا اس سے پہلے بھی کئی بار زیر غور لایا گیا ۔تاہم کوئی حتمی فیصلہ نہ لیا جاسکا۔موجودہ انتظامیہ نے ایک بار پھر اس منصوبے کو عملانے کے امکانات کا جائزہ لیا ۔کہا جاتا ہے کہ میٹنگ کے شرکاء اس بات پر قریب قریب متفق ہیں کہ واٹر ٹرانسپورٹ سے عوام کو سہولت میسر آئے گی۔ میٹنگ میں یہ اہم بات بھی سامنے آئی کہ واٹر نیویگیش سے سیاحت کو فروغ ملے گا ۔سیاحتی سیکٹر کو فروغ دینے کا یہ واقعی اہم ذریعہ بن سکتا ہے ۔ یاد رہےکہ اجلاس میں واٹرویز اتھارٹی آف انڈیا کے کوارڈینیٹر بھی موجود تھے ۔ اس سے مقامی انتظامی اہلکاروں کو بڑا حوصلہ ملا۔ کہا جاتا ہے کہ واٹر ٹرانسپورٹ منصوبے کے حوالےسے حتمی فیصلہ بہت جلد لیا جائے گا۔
دریائے جہلم میں واٹر جدید طریقے سے ٹرانسپورٹ چلانا ایک اہم قدم ہوگا ۔یہ کشمیر کی ایک پرانی روایت رہی ہے ۔ایک زمانے میں یہاں نقل وحمل کا واحد ذریعہ دریائے جہلم میں چلنے والی کشتیاں تھیں۔ بلکہ مختلف علاقوں سے مال لانے لے جانے کا ذریعہ بھی دریائے جہلم میں چلنے والا ٹرانسپورٹ تھا ۔یہاں تک کہ بارھمولہ سےقاضی گنڈ تک راشن گھاٹ دریا کے کنارے جگہ جگہ قائم تھے ۔عوام کو ضرورت کی چیزیں ان ہی گھاٹوں سے مہیا کی جاتی تھی ۔اس کی واحد وجہ یہی تھی کہ دریائی ٹرانسپورٹ سے اشیاء گھاٹوں تک پہنچانا ممکن تھا۔ نقل و حمل کا کوئی دوسرا قابل بھروسہ متبادل موجود نہ تھا۔ نزدیک کے فیصلے ٹانگوں اور ریڑھوں پر طے کئے جاتے تھے ۔لیکن ٹرانسپورٹ کا زیادہ تر کام کشتیوں وغیرہ سے ہی لیا جاتا تھا۔ اب اگر سرکار اس بھولی بسری یاد کو تازہ کرنا چاہتی ہے بہت مبارک کام ہے ۔آبی ٹرانسپورٹ کا نظام رائج کرنا بہتر قدم ہے ۔تاہم یہ اندازہ لگانا ضروری ہے کہ یہ نظام کب تک بحال رہے گا۔ ندی نالوں میں پانی کم ہونے اور خشک سالی کی وجہ سے جہلم کے سوکھ جانے کے وادی آبی ٹرانسپورٹ کی کامیابی کے بہت کم امکانات نظر آتے ہیں ۔
کشمیر میں رواں سال کے دوران کوئی بارش نہیں ہوئی ۔دوردراز کے پہاڑی علاقوں میں بس ایک دوبار بارش ہوئی۔ باقی علاقوں میں سرے سے بارش نہیں ہوئی۔ اس وجہ سے آبای وسائل آہستہ آہستہ ختم ہورہے ہیں ۔ندی نالوں کے ساتھ ساتھ دریائے جہلم میں بھی پانی کی سطح کم ہوگی ہے۔ بلکہ کئ جگہوں پر پانی بالکل ہی سوکھ چکا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ آبی ٹرانسپورٹ چلائے جانے پر خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے ۔ایسے خدشات ظاہر کرنے کی واضح وجوہات ہیں ۔ان وجوہات کو پس پشت ڈالنا صحیح سوچ نہیں ہے ۔ بلکہان پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے ۔جب ہی ھی آبی ٹرانسپورٹ کو لے کر آگے بڑھنے کی کوشش ہونی چاہیے ۔بعد میں یہ قدم ناکام ہوجائے تو بڑی بدنامی ہوگی۔ حکومت بلا سوچے سمجھے کوئی قدم نہیں اٹھاتی ہے ۔آبی ٹرانسپورٹ چلانا آسان ہے لیکن اس کو آگے تک بحال رکھنا ضروری ہے ۔اسی لئے شروع کرنے سے پہلے اس کو دیرپا بنانے کے لئے راستہ تلاش کرنا ہم سب کا مشترکہ کام ہے۔
دریائے جہلم میں واٹر جدید طریقے سے ٹرانسپورٹ چلانا ایک اہم قدم ہوگا ۔یہ کشمیر کی ایک پرانی روایت رہی ہے ۔ایک زمانے میں یہاں نقل وحمل کا واحد ذریعہ دریائے جہلم میں چلنے والی کشتیاں تھیں۔ بلکہ مختلف علاقوں سے مال لانے لے جانے کا ذریعہ بھی دریائے جہلم میں چلنے والا ٹرانسپورٹ تھا ۔یہاں تک کہ بارھمولہ سےقاضی گنڈ تک راشن گھاٹ دریا کے کنارے جگہ جگہ قائم تھے ۔عوام کو ضرورت کی چیزیں ان ہی گھاٹوں سے مہیا کی جاتی تھی ۔اس کی واحد وجہ یہی تھی کہ دریائی ٹرانسپورٹ سے اشیاء گھاٹوں تک پہنچانا ممکن تھا۔ نقل و حمل کا کوئی دوسرا قابل بھروسہ متبادل موجود نہ تھا۔ نزدیک کے فیصلے ٹانگوں اور ریڑھوں پر طے کئے جاتے تھے ۔لیکن ٹرانسپورٹ کا زیادہ تر کام کشتیوں وغیرہ سے ہی لیا جاتا تھا۔ اب اگر سرکار اس بھولی بسری یاد کو تازہ کرنا چاہتی ہے بہت مبارک کام ہے ۔آبی ٹرانسپورٹ کا نظام رائج کرنا بہتر قدم ہے ۔تاہم یہ اندازہ لگانا ضروری ہے کہ یہ نظام کب تک بحال رہے گا۔ ندی نالوں میں پانی کم ہونے اور خشک سالی کی وجہ سے جہلم کے سوکھ جانے کے وادی آبی ٹرانسپورٹ کی کامیابی کے بہت کم امکانات نظر آتے ہیں ۔
کشمیر میں رواں سال کے دوران کوئی بارش نہیں ہوئی ۔دوردراز کے پہاڑی علاقوں میں بس ایک دوبار بارش ہوئی۔ باقی علاقوں میں سرے سے بارش نہیں ہوئی۔ اس وجہ سے آبای وسائل آہستہ آہستہ ختم ہورہے ہیں ۔ندی نالوں کے ساتھ ساتھ دریائے جہلم میں بھی پانی کی سطح کم ہوگی ہے۔ بلکہ کئ جگہوں پر پانی بالکل ہی سوکھ چکا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ آبی ٹرانسپورٹ چلائے جانے پر خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے ۔ایسے خدشات ظاہر کرنے کی واضح وجوہات ہیں ۔ان وجوہات کو پس پشت ڈالنا صحیح سوچ نہیں ہے ۔ بلکہان پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے ۔جب ہی ھی آبی ٹرانسپورٹ کو لے کر آگے بڑھنے کی کوشش ہونی چاہیے ۔بعد میں یہ قدم ناکام ہوجائے تو بڑی بدنامی ہوگی۔ حکومت بلا سوچے سمجھے کوئی قدم نہیں اٹھاتی ہے ۔آبی ٹرانسپورٹ چلانا آسان ہے لیکن اس کو آگے تک بحال رکھنا ضروری ہے ۔اسی لئے شروع کرنے سے پہلے اس کو دیرپا بنانے کے لئے راستہ تلاش کرنا ہم سب کا مشترکہ کام ہے۔