سرینگر اور اس کے مضافات میں غیر ذمہ دارانہ ڈرائیونگ کے خلاف بڑے پیمانے پر کاروائی جاری ہے ۔ اس حوالے سے کہا جاتا ہے کہ سنیچر کو شروع کی گئی اس کاروائی کے تحت کئی لاکھ روپے بطور جرمانہ وصول کئے گئے ۔ اس کے علاوہ دو ہزار کے آس پاس موٹر سائیکل اور دوسری گاڑیاں ضبط کی گئی ۔ لاپرواہ ڈرائیونگ کرنے والوں کے خلاف اس طرح کی کاروائی جاری رہنے کا اندازہ ہے ۔ جاری کاروائی مہم اس وقت شروع کی گئی جب سرینگر کے ٹینگہ پورہ علاقے میں ایک دلدوز حادثہ پیش آیا ۔ حادثے میں دو نوجوان موقعے پر ہی ہلاک جبکہ ایک شدید زخمی ہوگیا ۔ زخمی نوجوان دہلی کے ہسپتال میں زیر علاج ہے جہاں اس کی حالت نازک بتائی جاتی ہے ۔حادثے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ دہلی پبلک اسکول میں زیر تعلیم دو طالب علموں کے درمیان روڈ ریس کے دوران ایک گاڑی حادثے کا شکار ہوئے جس میں سوار دو طالب علم ہلاک اور ایک شدید زخمی ہوگیا۔ اس حادثے کی پاداش میں لوگوں نے بڑے پیمانے پر واویلا کرنے کے علاوہ اس بات پر سخت افسوس کا اظہار کیا کہ ٹریفک پولیس کی طرف سے ایسے حادثات کو روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی جارہی ہے ۔ اس کے بعد ٹریفک حکام نے کمر کس لیا اور بڑے پیمانے پر اہلکار سڑکوں پر چیکنگ کے لئے نکل آئے ۔ٹریفک حکام کی طرف سے کی جارہی اس کاروائی کے دوران ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف سخت کاروائی کی گئی جو اب تک جاری ہے ۔ ٹریفک حکام نے تسلیم کیا ہے کہ شہر میں بڑے پیمانے پر ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کی جارہی ہے ۔ خاص طور سے کم سن طلبہ گھر سے گاڑیاں لے کر سڑکوں پر نکل آتے ہیں ۔ ایسے کم سن ڈرائیور جوانی کے جوش میں بے ہنگم ڈرائیونگ کرتے ہوئے حادثوں کا شکار ہوتے ہیں ۔ اس حوالے سے سخت مایوسی کا اظہار کیا گیا کہ والدین اس معاملے سخت غیر ذمہ داری کا ثبوت دے رہے ہیں اور لاڈلی اولاد کو ایسی حرکات سے روکنے میں ناکام ہورہے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ آئے دن کے حادثات میں زیادہ تر کم سن نوجوان مارے جارہے ہیں ۔
ٹریفک حادثات میں اضافے کی وجہ چاہے کچھ بھی ہو تاہم اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ ٹریفک نظام سے جڑے اہلکار ذمہ داری سے اپنا کام نہیں کررہے ہیں ۔ اس بات پر بہت پہلے سے مایوسی کا اظہار کیا جارہاہے کہ ٹریفک اہلکار ڈیوٹی دیتے ہوئے قانون نافذ کرنے کے بجائے اپنی جیب بھرنے کا کام کرتے ہیں ۔ چوراہوں پر کھلے عام رشوت وصول کرنے کی شروعات ٹریفک اہلکاروں نے سکھایا ۔ ایسے اہلکاروں کا کہنا ہے کہ یہ ایسا کاروبار ہے جس میں ان کے کئی اعلیٰ عہدیدار ملوث ہیں ۔ اس طرح کا ناجائز کاروبار فروغ پائے تو حادثات کا پیش آنا اور لوگوں کا ان حادثات میں جان گنوانا کوئی انوکھی بات نہیں ۔ بلکہ قانون نافذ کرنے والے حکام ہی قانون کو تہس نہس کرنے بیٹھ جائیں تو لاقانونیت یقینی ہے ۔ اس طرح کے راج میں کسی کی بھی جان محفوظ نہیں رہتی ہے ۔ ٹریفک قوانین اسی غرض سے بنائے گئے ہیں تاکہ عام شہریوں کے جان و مال کی حفاظت ممکن بنائی جاسکے ۔ بدقسمتی یہ ہے کہ اس حوالے سے سخت بے حسی کا مظاہرہ کیا جارہاہے ۔ یہ بڑے دکھ کی بات ہے کہ نوجوانوں کے ہلاک ہونے کے بعد ٹریفک حکام بیدار ہوگیا اور قانون کی نفاذ کے لئے حرکت میں آگئے ۔ اس سے پہلے ان کا کہیں نام و نشان بھی نہیں تھا ۔ یہاں یہ روایت پائی جاتی ہے کہ حکام لوگوں کا خون بہائے جانے کے بعد ہی ہوش میں آتے ہیں ۔ اس وقت تک سب لوگ غفلت کی نیند سوئے ہوتے ہیں ۔ خراٹے لینے والے ٹریفک اہلکار اس معاملے میں انتہائی بے حسی کا ثبوت دے رہے ہیں ۔ پچھلے کچھ عرصے سے سرینگر میں ایک کے بعد ایک لگاتار حادثات پیش آرہے ہیں ۔ ان حادثات میں نوجوان بڑی بے دردی سے مارے جاتے ہیں ۔ کئی لوگوں کا کہنا ہے کہ ملی ٹنسی اتنی جان لیوا ثابت نہیں ہوئی جتنی ٹریفک خلاف ورزیاں اور اس وجہ سے ہونے والے حادثت نوجوانوں کی موت کا باعث بن رہے ہیں ۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ایسے ہر حادثے پر تبصرے میں ٹریفک حکام کی لاپرواہی کا رونا رویا جاتا ہے ۔ تاہم ٹریفک حکام آج تک کسی طرح کی سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے نظر نہیں آئے ۔ آج بھی اسی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے ہلاکتوں اور لاشوں کو لے کر کاروبار کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ عوامی حلقے اس پر سخت مایوسی کا اظہار کررہے ہیں ۔