منگل کو جموں کشمیر میں انتظامیہ کے دو اعلی سطحی اجلاس ہوئے۔ ایک اجلاس وزیر اعلی کی صدارت میں جموں کے سیکریٹریٹ میں ہوا ۔ یہ جنرل ایڈمنسٹریٹیو محکمے کا۱جلاس تھا ۔اس محکمےکو عرف عام میں جی اے ڈی کہتے ہیں جو کہ اپنی نوعیت کا بڑا اہم محکمہ مانا جاتا ہے ۔اجلاس میں کئی اہم امور پر غور وخوض ہوا ۔ اجلاس میں مبینہ طور انتظامیہ کے اندر موجود جمود کو توڑنے اور نئی روح ڈالنے کے لئے تجاویز طلب کی گئی۔ اس کے علاوہ ریکریوٹمنٹ کا کام انجام دینے والے مختلف اداروں کے کام کاج کا جائزہ لیا گیا ۔ اس موقعے پر کہا جاتا ہے کہ ملازمتوں میں توسیع دینے، سبکدوش ملازموں کو دوبارہ سرکاری محکموں میں بھرتی کرنے اور ایسی ہی دوسری غیر ضروری تقرریوں پر پابندی لگانے کے احکامات دئے گئے ۔ یہ ایسے امور ہیں جو مفلوج نظام میں تیزی اور تبدیلی لانے کے لحاظ سے بہت ہی اہم سمجھے جاتے ہیں ۔ جی اے ڈی کے اجلاس میں لئے گئے ان فیصلوں کےحوالےسے کہا جاتا ہے کہ دوررس نتائج کے حامل ہونگے ۔اس دوران یہ خبر بھی سامنے آئی کہ لیفٹننٹ گورنر کی صدارت میں ایک اجلاس راج بھون میں ہوا ۔ محکمہ داخلہ کی اس میٹنگ میں پولیس، ہوم گاڈز اور اسی طرح کے دوسرے محکموں کے کام کاج کا جائزہ لیا گیا ۔ خبررساں ایجنسیوں کے مطابق اس اعلی سطحی اجلاس میں ہوم سیکرٹری اور پرنسپل سیکرٹری کے علاوہ امن عامہ سے جڑے دوسرے کئی اعلی حکام نے شرکت کی ۔ ایل جی کی صدارت میں ہوئی اس میٹنگ میں بھی کئی اہم فیصلے لئے گئے ۔ اس طرح سے ایک ہی سرکار نے دو الگ الگ سطحوں پر ہونے اجلاسوں میں کئی اہم امور سے متعلق فیصلے لئے۔ سیاسی اور عوامی حلقوں میں اس طرح کی سرگرمیوں کو مختلف زاویوں سے تولا اور ناپا جاتا ہے ۔ ضروری نہیں کہ ایسی آرا صحیح سوچ کی عکاسی کرتی ہوں ۔بلکہ اس حوالےسے لگائے جانے والے اندازے غلط بھی ہوسکتے ہیں ۔سیکریٹریٹ اور راج بھون میں اعلی سطحی اجلاس ایک ایسے موقعے پر منعقد کئے گئے جب وزیر اعلی پہلے ہی تنقید کی زد زد میں ہے۔ لیفٹنٹ گورنر نے پچھلے دنوں دو سرکاری اہلکاروں کو ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث قرار دیتے ہوئے انہیں سرکاری نوکری سے برطرف کر دیا ۔ وزیر اعلی کو اس معاملے سے دور رکھا گیا ۔ وزیر اعلی اپنے کئی کارکنوں کے ہم راہ عمرہ کی غرض سے ملک سے باہر تھا ۔ اس دوران مذکورہ ملازموں کو سرکاری ملازمت سے نکالا گیا ۔ وزیر اعلی کو مبینہ طور اس کاروائی کی ہوا لگنے نہیں دی گئ ۔ اس پر اپوزیشن اور دوسرے کئی حلقوں نے انہیں آڑے لیا ۔ اب ایل جی نے محکمہ داخلہ کے آفیسروں کی میٹنگ بلاکر وہاں کئی آفیسروں سے صلاح مشورہ کیا ۔ وزیر اعلی کو اس میٹنگ سے دور رکھا گیا ۔ یہ صحیح ہے کہ سیکورٹی سے متعلق امور ایل جی کی دسترس میں آتے ہیں ۔ ضروری نہیں کہ وزیر اعلی کو ان امور سے متعلق طے پانے والے مشوروں میں شامل رکھاجائے ۔تاہم خیرسگالی کی بات کی جائے تو وزیر اعلی کو ایل جی کےساتھ میٹنگ میں موجود ہونا چاہئے ۔ بلکہ وزیر اعلی کی طرف سے بلائی گئی میٹنگ میں ایل جی کی شمولیت ایک خوشگوار پیش رفت مانی جاتی ۔ دونوں کی الگ الگ میٹنگوں سے کوئی بہتر سگنل نہیں دیا گیا ۔ اس طرح کے اقدامات سے مایوسی ہوجاتی ہے ۔