از: جہاں زیب بٹ
بالی ووڈ فلم دنگل سے شہرت کی بلندیوں تک پہنچنے کے بعد جس طرح قومی ایوارڈ یافتہ کشمیری ایکٹرس زا ئرہ وسیم نے بالی ووڈ کی دنیا کو لات ماری ٹھیک اسی طرح ر یشی سکینہ نے مذہب کے ساتھ
رشتہ ڈھیلا پڑ نے کا خوف کھا تے ہو ئے آخر کار موسیقی کی دنیا سے واپسی کا اعلان کر دیا۔
20 سالہ ریشی سکینہ لوک سنگیت سے ہمآہنگ انوکھی موسیقی سے آن واحد میں انٹر نیٹ پر مشہور ہو گئی اور ان کی فین فالوئینگ میں ہر آن اضافہ ہو تا گیا ۔ریشی سکینہ کے بارے بتایا جا تا ہے کہ وہ بانڈی پورہ کے ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوئی۔ان کا باپ بھی ایک شاعر ہے ۔انھوں نے میٹرک کا امتحان پاس
کر نے کے بعد اس وقت تعلیم چھوڑدی جب ان کی ماں کا انتقال ہو گیا اور گھریلو کام کاج سنبھالنے والا کوئی نہ تھا ۔چنانچہ یہ گھریلو ذمہ داری کا شاخسانہ ہے کہ سکینہ کو اسکول چھو ڑنا پڑا ۔گھر کی ذمہ داری کا بوجھ کندھوں پر پڑنے کے ساتھ ہی ذریعہ معاش کی فکر دامن گیر ہوگئی اور سکینہ مارشل آرٹ کھلاڑی سے سوشل میڈیا موسیقارہ بن گئی۔سکینہ موسیقی کے آلات کا استعمال سیکھنے کے لیے استاد کی تلاش میں تھی جو مقامی طور پر دستیاب نہ ہو سکا ۔تاہم انھوں نے ہمت نہ ہاری اور خود انحصاری سے کام لیتے ہو ئے موسیقی کے آلات بجانے کا گر سیکھ لیا۔اس کا خواب تھا کہ وہ موسیقی کی دنیا کی ملکہ بنے اور وہ دن آئے جب وہ ریڈیو اور ٹی وی پر موسیقی کے فن کا مظاہرہ کر سکے۔اس خواب کی دھن میں ا س نے سوشل میڈیا پر اپنا ” ہاے ہا ے ویسیے یارن ہے تڑپاونس” گیت کا ویڈیو ڈال دیا جو مقبول اور زبان زد عام ہو گیا ۔اس مشہورگیت نے اس کو راتوں رات سوشل میڈیا کی مشہور شخصیت بنادیا ۔صرف دس دن میں یو ٹیوب پر اس کے بیس لاکھ فین پیدا ہوگیے جس سے حوصلہ پاکر سکینہ نےمقامی کلچرل سے ہم آہنگ موسیقی جاری رکھی اور اونچا نام کمایا ۔ اس دوران جہاں ایک طبقہ نے ان کو پیار دیا، حمایت کی اورشاباشی دی وہیں سوشل میڈیا پر بعض حلقوں کی جانب سے انکی تذلیل کر نے کا سلسلہ شروع ہو ا۔ان کے خلاف غلیظ زبان استعمال ہو نے لگی ۔روایت پسند معاشرے میں اس طرح کا رکاوٹ متوقع تھی ۔تاہم تمام تر تذلیل کے باوجود سکینہ کے اندر موسیقی کا شوق بجھ نہ سکا ۔اس محکم جذبے کو دیکھ کر کئی حلقوں نے کہا کہ
ر یشی سکینہ نے سماجی چلینج کو شکست دی اور نئے میوزک ولولہ سے نہ صرف یو ٹیوب پر تمام ریکارڑ توڑ دیے بلکہ اب شادی بیاہ کی تقاریب کو زینت بخشنے کے لیے ریشی سکینہ کو بلا نے کی دوڑ لگ گئی تھی اور وہ مصروف ترین مو سیقارہ بنتی جارہی تھی ۔
تاہم ریشی سکینہ کے مداح اس وقت ہکا بکا رہ گیا جب انھوں نے موسیقی کے پیشے کو خیر آباد کہا ۔اس سلسلے میں سوشل میڈیا پر برقعہ پوش سکینہ کے ساتھ ایک مقامی مولوی نظر آیا جو یہ اعلان کررہا تھا کہ سکینہ نے “توبہ ” کرلی اور سوشل میڈیا زندگی سے کنارہ کشی اختیار کر نے کا فیصلہ کیا ۔ایک اور مولوی کہہ رہا تھا کہ اس نے سکینہ کی “غیر اسلامی حرکت” کے خلاف آواز اٹھائی تھی اور اس کانتیجہ یہ نکلا کہ ریشی سکینہ نے واپس مڑ کیا ۔ریشی سکینہ کو کشمیر کے روایت پسند معاشرے میں رہتے ہو یے سماجی رسوائی کا خوف لاحق ہو ا یا ان کی سوچ میں کو ئی حقیقی تبدیلی رونماہو ئی اس پر بحث کی ضرورت نہیں ہے ۔وہ بحیثیت خاتون آزاد ہے اور ایک مسلم گھرانے میں پیدا ہو نے کے بعد غلط صحیح کی تمیز سے آشنا ہو گی ۔لیکن اس کے توبہ اعلان کی وسیع تشہیر ، مبارکبادیاں اور مولویوں کا جشن سے یہ تاثر ملتا ہے کہ کو ئی جہاد اکبر ہوا ہےاور اسلام کو ایک بہت بڑی فتح ملی ہے ۔ ریشی سکینہ صنف نازک ہے ۔کلمہ گو ہے اور باقی انسانوں کی طرح فجور وتقوی کا الہام رکھتی ہے۔اس پر دباؤ ڈالنے ،اس کو دائرہ اسلام سے اندر باہر
کر نے،اس کو سماجی رسوائی سے دوچار کرنے یا ا س کے توبہ اعلان بر مذہبی پیشوائی کے محلات بنا نے کا حق کسی مولوی کو حاصل نہیں ہے ۔موسیقی کے حلال ہو نے پر اتفاق ہے نہ ہی حرام ہو نے پر ۔رقص پر اعتراض کی گنجائش ضرور ہے کہ اس کا تعلق عورت کی عزت و عظمت کے ساتھ ہے ۔موسیقی سے واپسی کے پیچھےریشی سکینہ کاا محرک جو بھی ہو اب خدا رااس کو ا پنے حال پر چھو ڑاجا یے اس کو کھلونا نہ بنایا جایے بلکہ اس کو عزت دی جا نی جا ہیے۔ریشی سکینہ کا توبہ اس کاذاتی معاملہ ہے جس کا تعلق رب کے ساتھ ہے ۔انسانوں کو اس کے ساتھ کیا لینا دینا؟ توبہ کو ئی رسم نبھانی تھو ڑی ہے۔دل میں ندامت آئی رب راضی۔ریشی سکینہ کو بر سر عام تو بہ کا اعلان کروایا جا ئے تو بہت سے سوالات اٹھیں گے۔