تحریر:جی ایم بٹ
اٹل بہاری واجپائی آزاد ہندوستان کے ایسے آخری سیاسی رہنما نظر آتے ہیں جنہیں اپنے پارٹی کارکنوں کے علاوہ عام لوگوں کی حمایت حاصل تھی ۔بلکہ ان کی پارٹی سے اختلاف رکھنے والے لوگ بھی اٹل جی سے یک گونہ محبت رکھتے تھے ۔اٹل جی کی یہ حالت تھی کہ کشمیر کے ساتھ بہت زیادہ لگاو رکھتے تھے۔ شاید ہی ملک کسی دوسرے حصے کے ساتھ انہوں نے اس طرح کی وابستگی کا اظہار کیا ہو۔کشمیر سے ان کی محبت مغل بادشاہوں جیسی نہ تھی جو یہاں کے باغات،پہاڑوں اور آبشاروں کو پسند تو کرتے تھے لیکن لوگوں کی پسند کو سخت ناپسند کرتے تھے۔اسی طرح اٹل جی کی کشمیر سے محبت ان کے پیشرو پنڈت نہرو جیسی بھی نہ تھی ۔نہرو کشمیر کو اپنی سرزمین مانتے تھے۔یہاں کے قدرتی حسن اور خوبصورتی کے ضرو دلدادہ تھے ۔لیکن عوامی خواہشات کی قدر کرنے کو ہر گز تیار نہ تھے ۔اس معاملے میں وہ دوست اور دشمن کی تمیز بھی کھو چکے تھے۔ اس کے بجائے اٹل جی کشمیر کی زمین سے زیادہ یہاں کے عوام کو پسند کرتے تھے۔ یہاں کے عوام کی خاطر انہوں نے ذاتی نظریے اور پارٹی پالیسی کو ایک طرف چھوڑ کر آگے بڑھنے کی کوشش کی ۔ یہ کوئی یک طرفہ محبت نہ تھی جس کا انہوں نے کھل کر اظہار کیا ۔بلکہ یہاں کے عوام بھی ان کو چاہتے اور ان کا بے حد احترام کرتے تھے ۔پیش گوئیاں کی جاتی تھیں کہ اٹل جی کشمیر میں الیکشن لڑے تو ان کی عوامی حمایت دیکھ کر کوئی مقامی سیاست دان ان کے مقابلے میں آنے کی جرات نہیں کرے گا ۔کسی نے اس حوالےسے اٹل جی سے پوچھا تو انہوں نے مسکرا کر اسے ٹال دیا ۔ اٹل جی کی موت پر پورے ملک میں سوگ منایا گیا ۔بلکہ عالمی سطح پر ان کی موت کو بڑا نقصان قرار دیا گیا ۔تاہم کشمیر کے عوام اس وجہ سے غم زدہ تھے کہ انہوں نے ایک سرپرست اور غم خوار کھودیا ۔کوئی اسے اتفاق کرے یا نہ کرے۔ لیکن یہ حقیقت عیاں ہے کہ اٹل جی کی موت سے لے کر آج تک کشمیر میں ایک غیر یقینی صورتحال پائی جاتی ہے ۔کشمیر کے حوالےسے ان کی اپنی سوچ اور اپنی ایک مضبوط پالیسی تھی ۔انہوں نے کشمیر کےلئے ایک فلسفہ وضع کیا ۔کشمیریت، انسانیت اور جمہوریت کا نعرہ دے کر انہوں نے کشمیر کے حوالےسے ایک ٹھوس پالیسی اپنانے کی ضمانت دی۔ان کی اس پالیسی پر آج بھی عمل کیا جائے تو نہ صرف کشمیر بلکہ پورے ملک میں ایک نئی فضا بن سکتی ہے ۔
واجپائی نے اس وقت کشمیر پالیسی ترتیب دی جب کشمیر میں طویل عرصے سے سیاسی فضا کافی مکدر ہوچکی تھی ۔قتل وغارت اور ماورائے عدالت ہلاکتوں کا سلسلہ جاری تھا۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں عام تھی اور اس وجہ سے لوگ خوف وہراس کا شکار تھے۔ ان کی سیاسی بصیرت نے پورے ماحول کو بدل دیا۔ مفاہمت کرنے کی ایک نئی پالیسی کو اختیار کرتے ہوئے انہوں نےاپنے حریفوں سے سمجھوتا کرتے ہوئے کشمیر میں ایسی جمہوری حکومت بنانے میں مدد کی جس کو بڑے پیمانے پر عوام کی حمایت حاصل تھی ۔ کئی حلقوں نے ان کی اس پالیسی پر انگلی اٹھائی ۔لیکن اٹل جی ڈٹے رہے اور یہاں کے عوام کے دل جیت لئے۔آج بھی دیکھا جائے تو واجپائی کی کشمیر پالیسی یہاں کے سیاسی حلقوں میں مقبول ترین پالیسی ہے۔ بیشتر سیاسی لیڈر اس پالیسی کو اپنانے پر زور دے رہے ہیں ۔اٹل جی کی یہ پالیسی ان کے موت کے ساتھ ہی اختتام کو پہنچ گئی۔ کشمیر ایک بار پھر اسی جگہ پہنچ گیا جہاں اٹل جی نے اس کو سنبھالنے اور راہ راست پر لانے کی کوشش کی تھی ۔ ان کی اختیار کردہ پالیسی کو قدم قدم پر ناکام بنانے کی کوشش کی گئی ۔ایسا نہ کیا گیا ہوتا تو آج نہ صرف کشمیر بلکہ پورے برصغیر کی صورتحال مختلف ہوتی جو صرف اور صرف واجپائی کے نام مختص ہوتی ۔ لیکن کئی قوتوں نے ایسا ہونے نہیں دیا ۔ وقت کی ستم ظریفی دیکھئے کہ ان میں سے آج سیاسی اسٹیج پر کوئی ایک بھی موجود نہیں جو اٹل جی کی پالیسیوں میں رکاٹ ڈالتے رہتے تھے ۔وہ نہیں چاہتے تھے کہ اٹل جی ایک تاریخ ساز کردار بن جائے ۔لیکن اٹل جی کا نام آج بھی زندہ ہے اور کوئی ان کی تنقید کرنے کی جرات نہیں کرسکتا ۔ان کی موت سے دیرپا کشمیر پالیسی کے ساتھ ایک مضبوط جمہوری نظام کا خاتمہ ہوگیا جو دوبارہ قائم ہونا ممکن نظر نہیں آتا ۔اس دوران اس بات پر بحث کی جاسکتی ہے کہ دہلی اور باقی ملک میں اٹل جی کو یاد کرنے اور ان کے نظریات کی تعظیم کرنے والے کہاں تک موجود ہیں ۔تاہم ایک حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ کشمیر میں ان کا نام کافی عقیدت سے لیا جاتا ہے ۔یہاں تک کہ کسی مقامی سیاست دان کو ایسی وقعت حاصل نہیں جو اٹل جی کو حاصل ہے۔ لوگ اور سیاست دان خواہش کرتے ہیں کہ اٹل جی دوبارہ زندہ ہوکر کشمیریت ۔انسانیت اور جمہوریت کا نعرہ دے اور عوام کو مایوسی سے نکالے۔یہ صرف اٹل جی تھے جنہوں نے انتہائی مایوسی کے عالم میں کشمیر کے عوام اور سیاسی حلقوں کو حوصلہ بخشا تھا۔
