جہاں زیب بٹ
ممبر پارلیمنٹ آغا روح اللہ کی طرف سے ریزرویشن تنازعے پر اپنی ہی پارٹی کے چیف منسٹرعمر عبداللہ کی رہا ئش گاہ کے سامنے دھرنا دینے کی کاروائی پر جہاں کافی چہ میگوئیاں ہو ئیں اور حیرانگی کا اظہار کیا گیا وہیں سیاسی تجزیہ نگار اس قدم کو مختلف زاویہ نگاہ سے دیکھ کر الگ الگ تبصرے کر نے میں مصروف ہیں۔
سیاسی دنیا کا یہ انو کھا واقعہ مانا جارہا ہے کہ برسر اقتدار پارٹی کا ممبر پارلیمنٹ چاردیواری میں اپنے چیف منسٹر کو ریزرویشن پالیسی میں معقولیت لا نے پر آمادہ کر نے کے بجا ئے طلبہ کو اکٹھا کر کے اسکی
رہا ئش گاہ پر مجتمع کرے اور سڑک پر بیٹھ کر صدا ئے احتجاج بلند کرے۔ویسے تو بیک وقت حکومت اور اپوزیشن کا رول ادا کر نے کا رواج دنیا میں کہیں نہیں ہے تاہم کشمیر میں اس کی داغ بیل میڈیم محبوبہ مفتی صاحبہ نے ڈال دی ہے جو 2002کے بعد بننے والی پی ڈی پی کانگریس مخلوط سرکار کے دوران کچھ اس طرح بیان بازی کیا کرتی تھی کہ انسان دنگ رہ جا تا تھا کہ وہ حکومتی چار دیواری میں مسائل اٹھا نے اور حل کر وانے کے بجا ئے باہر شور کیوں مچاتی ہے جو اپوزیشن کا کام ہے۔آج آغا روح اللہ صاحب کی بابت بھی یہی سوال اٹھا یا جارہا ہےکہ ان کے سڑک پر آنے کا محرک کیا ہے؟
یہ بڑی عجیب بات لگتی ہے کہ حکمران جماعت کے ایک قد آور لیڈر نے احتجاج منظم کیاجس میں اپوزیشن پی ڈی پی کے ممبر اسمبلی پلوامہ وحید الرحمان پرہ ،التجا مفتی اور انجینیر رشید کے بھائی شیخ خورشید بھی شامل ہو ئے۔یعنی عجب سیاسی سنگم کا منظر دیکھنے کو ملا جو سیاسی حلقوں کے لیے دلچسپ بحث کا موجب بن گیا ہے۔
آغا روح اللہ کا اپوزیشن لیڈروں کو احتجاج میں شامل کر نے کی کاروائی عمر عبداللہ کے نزدیک قابل برداشت ہے یا نہیں اس حوالے سے اوپری سطح پر سکوت اور احتیاط قایم ہے ۔لہذا فی الحال سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے۔عمر عبداللہ نے احتجاج کا حق اعلانیہ طور تسلیم کیا جبکہ آغا روح اللہ نے تو دو ٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ ان کا این سی تو ڑنے کا قطعاً کو ئی ارادہ نہیں ہے بلکہ انھوں نے برملا دعویٰ کیا کہ وہ این سی کو تو ڑنے والوں کے خلاف جنگ لڑیں گے۔بایں ہمہ آغا صاحب کے دھرنے سے این سی کے اندر کہیں نہ کہیں تناؤ کا ماحول پیدا ہو ہی گیا ۔ایم ایل اے حضرت بل سلمان ساگر نے احتجاج کو خالص ڈرامہ قرار دیتے ہو ئے دعویٰ کیا کہ آغا صاحب نے این سی کے برترین حلیفوں اور دشمنوں کو مجتمع کیا اور پلیٹ فارم فراہم کیا جبکہ ریزرویشن کے حامی ممبر اسمبلی جاوید بیگ نے دھرنا کلچر کی مذمت کر تے ہو ئے دعویٰ کیا کہ عمر عبداللہ کو اپنی بنیاد مضبوط بنا نے کا موقعہ فراہم کر نے کے بجا ئے آغا روح اللہ نے انکی رہا ئش گاہ کا گھیراؤ کرکے سی ایم کے لیے مشکلات کھڑی کردیں کیو ں کہ اس کے ردعمل میں کل کو جموں کے ایس سی اور ایس ٹی بھی سی ایم ہا وس کا گھیراؤ کر سکتے ہیں۔اس کا مطلب یہ ہے کہ آغا روح اللہ کے احتجاج پر این سی میں مکمل سکوت نہیں ہے بلکہ کہیں نہ کہیں یہ خیال پنپ رہا ہے کہ آغا روح اللہ نے احتجاج بلاکر سکڑی ہو ئی اپوزیشن کو جگہ فراہم کی جو این سی کو زک پہنچا نے کے مترادف ہے۔تاہم بعض تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ آغا روح اللہ نے خود ہی ریزرویشن تنازعے میں کود کر اپوزیشن کو کل پرسوں یہ مدعا اٹھا نے اور اس سے سیاسی فا ئدہ اٹھا نے کا موقعہ چھین لیا۔غالبا اسی چیز کو بھانپتے ہو ئے” اپنی پارٹی” کے سربراہ الطاف بخاری صاحب نے آغا روح اللہ پر ڈرامہ بازی کا الزام عائید کر تے ہو ئے کہا ہے کہ لوگ اتنے ذہین ہیں کہ وہ حقیقی کوششوں اور سیاسی تماشوں میں فرق کرسکتے ہیں ۔
آغا روح اللہ کے احتجاج سے عمر عبداللہ کے ناراض
ہو نے کے امکان کو بعض حلقے مسترد کر تے ہیں ۔ان کی دلیل یہ ہے کہ ریزرویشن کا موجودہ ڈھانچہ بھاجپا کی دین ہے جس نے نت نئی ذاتوں اور قبیلوں کو خصوصی زمرے میں لالا کر اوپن میرٹ کو ٹا 30 فیصد ہندسے پر سکڑادیا ۔ آغا روح اللہ کا یہ کہنا کہ موجودہ عوامی حکومت سے پہلے وائس را ئے نظام قایم تھا اور لوگوں کی مرضی کے خلاف قدم اٹھا ئے گئے صاف ظاہر کررہا ہے کہ آغا صاحب کا نشانہ کیا ہے اور کون ہے؟ لہذا ریزرویشن مسلے کو بھاجپا کے تناظر میں دیکھیں تو آغا روح اللہ کا احتجاج اپنی سرکار کے بجا ئے بھا جپا کی لاگو کردہ ریزرویشن کے خلاف تھا ۔اگر مذکورہ خیا ل صحیح ہو تو پھر آغا روح اللہ کا دھرنا سو چ سمجھ کر منظم کیا گیا تاکہ عوام کو یہ پیغام ملے کہ این سی گزشتہ حکومتوں کی غلطیوں کو درست کر نے کی راہ پر گامزن ہے۔
آغا روح اللہ صاحب نے دعویٰ کیا کہ ان کا دھرنا خالصتاً انصاف طلبی کے لئے ہے ۔دھر نے کے پیچھے کو ئی سیاست ان کے پیش نظر ہے اور نہ وہ کسی اور خیمے سے وابستہ سیاسی کردار کو سیاسی
فائدہ اٹھانے کا موقعہ دینا چا ہتے ہیں ۔ان کے مطابق ریزرویشن میں معقولیت لانے کی مانگ 70 فیصد آبادی پر محیط ہے, اس کی خواہشات سے جڑ ی ہےاور اتنی بڑی آبادی کے ساتھ ہو رہی نا انصافی ایک گھمبیر مسلہ ہے جس کی خلاف منظم کئے گئے احتجاج میں کو ئی بھی اور کسی بھی خیمے کا سیاسی لیڈر شامل ہو سکتا ہے اور اس میں کو ئی قباحت نہیں ہے۔آغا صاحب کی دلیل یہ ہے کہ سیاسی اختلافات اپنی جگہ لیکن ریزرویشن اور جموں کشمیر کی خصوصی پوزیشن سمیت کچھ اہم قومی اشوز ہیں جن پر سب کو اکٹھا ہو نے اور یک جٹ ہو کر چلنے کی ضرورت ہے۔ اس بیانیہ سے یہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ اپوزیشن کو اپنی حکومت قایم ہو نے کے بعد پہلے عوامی احتجاج میں شامل کر کے آغا روح اللہ نے اس کے لئے اور اشوز پر این سی کا ہاتھ بٹانے کی ایک طرح سے ضمانت لی ہے اور اس کے لیے وقت ضرورت مدد اور حمایت سے بھاگنے کا راستہ مسدود کیا ہے۔
قطع نظر اس سے کہ اپنے ہی ممبر پارلیمنٹ کے احتجاج سے این سی میں پیدا شدہ تناؤ کی کیفیت آنے والے دنوں میں کو نسا رخ اختیار کر ے گی سیاسی تجزیہ نگاروں کی مذکورہ آراء کو ملاکر یہی اخذ ہو تا ہے کہ آغا روح اللہ نے غیر معقول ریزرویشن کے خلاف طلبہ احتجاج کی قیادت کر کے این سی کو کو ئی نقصان نہیں پہنچایا ہے بلکہ انھوں نے ایک تیر سے کئی شکار کئے ہیں ۔ان کا دھرنا ہر لحاظ سے پارٹی کے لئے فا ئیدہ بخش ہے۔انھو ں نے طلبہ کے ساتھ وعدہ پورا کر کے اپنی معتر امیج قایم رکھی جس کی بابت کچھ حلقوں کا دعویٰ ہے کہ اس سے حالیہ اسمبلی الیکشن میں این سی کو کافی فا ئیدہ ملا۔اب اگر احتجاج سے ان کا اعتبار بڑھ گیا یا بڑھ جا ئے تو بھی فا ئیدہ این سی کو ہی ہے۔دوم آغا نے احتجاج منظم کر کے ایک گرم اشوع مخالفین کے ہاتھ میں جانے نہیں دیا ۔سوم اپوزیشن اہم مدعوں پر این سی کی ناکامی کا ڈھول بجا نے کے بجا ئے قومی لڑائی یا مشترکہ کاز کے نام پر این سی کی مدد و حمایت کی بہت حد تک اخلاقی طور پر پابند ہو گئی ۔
