از:بلال احمد پرے
منشیات (Drugs) ہر اس اشیاء پر اطلاق کرتی ہے جس میں کسی بھی طرح کا نشہ پایا جائے خواہ یہ ٹھوس یا مائع کی حالت میں ہو ۔ موجودہ دور میں نشہ آور چیزوں کی اقسام کافی بڑھ چکی ہے ۔ اب مختلف کیمیائی اشیاء (Chemicals) کو بھی نشہ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے ۔ الغرض منشیات سے مراد تمام وہ چیزیں ہے جن سے عقل میں فتور اور فہم و شعور کی صلاحیت بُری طرح سے متاثر ہو جاتی ہے ۔
اس وقت منشیات کی وباء سنگین مسائل میں سے سرفہرست ہے – اس کے سدباب کے لئے مختلف قسم کی تدابیر کو اپنانے پر زور دیا جا رہا ہے – اس حرام کاروبار کی وجہ سے جو اخلاقی، معاشی، جسمانی، معاشرتی اور سماجی خرابیاں پیدا ہوئی ہے ۔ اس سے ہمارے سماج کا ہر شہری بخوبی واقف ہے ۔ اسی سدّباب کی ایک کڑی کے طور پر ستمبر ۲۰۲۲ء میں لیفٹینٹ گورنر کی سرپرستی میں جموں و کشمیر انتظامیہ نے منشیات سے پاک ایک نئی مہم کا آغاز کیا تھا ۔ جس میں منشیات اور منشیات فروشوں کے خلاف سخت کاروائی (زیرو ٹالرنس) کی پالیسی اپنانے پر زور دیا تھا ۔
اس مہم کے تحت جموں و کشمیر کے سب سے زیادہ متاثرہ اضلاع میں منشیات سے پاک بنانے کے لیے "جن آندولن” شروع کیا گیا ۔ تاکہ معاشرے کو اس بربادی میں پڑ جانے سے قبل بچانے کے مؤثر اقدامات اٹھائے جائیں ۔ حالانکہ انسداد منشیات کے ماہرین کا ماننا ہے کہ منشیات کے خلاف جنگ صرف اسمگلروں اور منشیات فروشوں کا مقابلہ کرنے تک محدود نہیں رہی ۔ بلکہ یہ ایک جامع معرکہ بن چکی ہے جس کا مقصد نئی نسل کو اس زہر سے محفوظ رکھنا ہے ۔
اس حوالے سے جرائم پیشہ گروہ اور نیٹ ورک اپنے اہداف حاصل کرنے کے لیے تمام وسائل کا فائدہ اٹھا رہے ہیں ۔ اسمگلروں کی جانب سے منشیات کو فروغ دینے کے لئے جدید ٹیکنالوجی کے سبھی موجود ذرائع نقل و حمل کا استعمال کیا جا رہا ہے ۔
اس مہم کے صرف دو سال گزرنے کے بعد جموں و کشمیر پولیس نے اپنی تیز تر کاروائیوں سے منشیات کے بڑے بڑے اسمگلروں کی ناک میں دم کر دیا ہے ۔ اس طرح غیر قانونی کاروبار کا یہ گراف بہت ہی نچلی سطح تک آچکا ہے ۔ منشیات کے کاروبار میں بدنام بہت سے علاقوں میں منشیات فروشوں کو سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا گیا ہے ۔ اس کے ساتھ ان کی غیر قانونی طور پر بنائی گئی تعمیرات کو بھی سربمہر کر دیا گیا ہے ۔ جبکہ کروڑوں روپے مالیت کی منشیات کو بھی ضبط کر دیا گیا ہے ۔ مزید اس غیر قانونی کاروبار سے حاصل شدہ ان کی پراپرٹی کو بھی پولیس نے ضبط کر دیا ہے ۔ اس طرح کی کاروائیوں سے منشیات فروشوں کے عزائم کو خاک میں ملا دیا گیا ہے ۔
آئے روز مؤقر اخبارات میں شائع شدہ رپورٹس کے مطابق جموں و کشمیر پولیس نے دو سال میں صرف وادی کشمیر کے اندر 2200 ایف آئی آر درج کئے ہیں جس میں سے امسال کے 900 ایف آئی آر درج ہیں ۔ جب کہ منشیات میں ملوث 3200 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے ۔ رپورٹس کے مطابق اس کے علاوہ غیر قانونی طور پر منشیات سے حاصل رقومات پر بنائی گئی 150 تجاوزات ضبط کی گئی ہیں ۔ جس کی مالی قیمت تقریباً 40 کروڑ روپیے ہیں ۔ اس اقدام میں زیادہ تر سرینگر، بارہمولہ، اننت ناگ اور شوپیان اضلاع سرفہرست رہے ہیں ۔ مزید جموں و کشمیر پولیس نے دیگر محکمہ جات کے ساتھ مل کر مختلف مقامات سے 8000 کنال اراضی پر مشتمل خشخاش کی کاشت کو برباد کیا ہے ۔ علاوہ ازیں جموں و کشمیر پولیس نارکوٹکس ٹریڈ پر اپنی کڑی نگاہ بنائے ہوئی رکھی ہے ۔
جموں و کشمیر پولیس کی کارروائی کا ایک اور سنہرا باب اس وقت سامنے آیا جب حال ہی میں وزارت داخلہ کی جانب سے پارلیمنٹ میں نئی رپورٹ پیش کر دی ۔ اس رپورٹ کے مطابق جموں و کشمیر یوٹی ہیروئن کی ضبطی میں پورے ملک کے اندر سرفہرست ہے ۔ جس میں پچھلے تین سالوں میں 270 کلو نشہ آور ادویات کی ضبطی عمل میں لائی گئی ہے ۔ جو پوری ایک نسل کے خاتمہ کے لیے کافی مانی جاتی ہے ۔ جموں و کشمیر پولیس نے اپنا فرض نبھاتے ہوئے اتنی مقدار میں منشیات ضبط کیں، لیکن سوچنے کی بات ہے کہ منشیات اسمگلروں نے کتنی مقدار اپنے ٹارگٹ تک پہنچا دی ہوگی؟ اور اس سے کس قدر ذہین نوجوانوں کو اس زہر کا شکار بنایا گیا ہو ۔
سب سے بڑا المیہ یہی ہے کہ منشیات میں گرفتار کیے گیے افراد نام نہاد مسلمان ہیں ۔ جن کے لئے شراب پینا، فکی، چرس، گانجہ، ہیروئین، آفین یا دیگر ایسی ممنوعہ اشیاء کی خرید و فروخت قطعاً جائز نہیں ۔ اس کی کاشت، اس کا استعمال اور کاروبار کرنا بھی حرام قرار دے دیا گیا ہے ۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ” شراب کی قلیل و کثیر (مقدار) حرام کر دی گئی ہے اور ہر مشروب جس سے نشہ آئے حرام ہے ۔” (النسائي، رقم: 5193)
اسی طرح ہندو (ریگ ویدا؛ 10.5.6) اور سکھ مذاہب کے اندر بھی اس کی ممانعت موجود ہے (سکھ خالصا)۔
حال ہی میں وزیر مملکت برائے داخلہ کی طرف سے سنہ 2018ء سے 2022ء تک منشیات کے اعداد و شمار پیش کر دئے گئے ہیں ۔ جس کے مطابق سنہ 2018ء میں منشیات کے 938 کیس درج ہوئے ہیں ۔ جب کہ سنہ 2019ء میں 1173 کیس، سنہ 2020ء میں 1222 کیس، سنہ 2021ء میں 1681 کیس اور سنہ 2022ء میں 1837 کیس درج ہوئے ہیں ۔ اسی طرح دوسری قسم کی نشہ آور ادویات کے اعداد و شمار بھی پیش کر دئے گئے ہیں ۔ جس میں کوڈین کے 33000 بوتلیں، 831 کلو ہشش، 6722 کلو فکی اور 54227 عدد دیگر نشہ آور ادویات کی گولیاں ضبط کی گئی ہے ۔
منشیات فروشوں کے خلاف سخت گیر رویہ اپنانے پر جموں و کشمیر پولیس کے اس اقدام کی ہر طرف سراہنا کی جا رہی ہے ۔ اور عوام الناس مزید محکمہ پولیس سے اس طرح کی توقعات رکھتی ہیں ۔ تاکہ راحت کی سانس محسوس ہو سکیں ۔ منشیات کی اسمگلنگ کی کوششیں روکنے کے حوالے سے پولیس کی صلاحیت میں روز بہ روز اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے ۔ اس وقت جموں و کشمیر انتظامیہ، پولیس، فوج اور دیگر سیکورٹی ایجنسیوں کے ساتھ مل کر دشمنوں کے مذموم عزائم کو ناکام بنانے کے لیے مضبوط دیوار بن کر کھڑی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ منشیات کے خلاف جنگ (War on Drugs) ہر طرف جاری ہے ۔
خلاصہ کلام یہی ہے کہ منشیات کی دلدل ہمارے سماجی و اقتصادی ڈھانچے کے لیے ایک زبردست خطرہ ہے ۔ اور یہ ضروری ہے کہ اس لعنت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے ہم اپنی پوری قوت کے ساتھ آگے آکر پولیس کی مدد کریں ۔ ساتھ ہی جموں و کشمیر پولیس و دیگر محکمہ جات کو دیانت دارانہ رویہ اختیار کر کے اسی طرح کی کاروائیاں مستقل طور پر کرنی چاہئے ۔ ہمیں بھی چاہیے کہ سماج کے تئیں ایک فکر مند شہری کے طور پر اپنا منفرد کردار ادا کریں ۔ تب جا کر ہم منشیات کی وباء سے بچ سکتے ہیں ۔
