از:جہاں زیب بٹ
ایل جی سنہا نے اپنے اختیارات کا استعمال کر تے ہو ئے دو یو نیورسٹیوں کے چانسلر وں کی معیاد میں
تو سیع کا حکمنامہ صادر کیا ہے تاہم ان اہم فیصلہ جات میں عمر عبداللہ کو بائی پاس کردیا گیا ہے جس کو
جموں کشمیر یوٹی کے دو بڑے دفاتر میں فاصلے سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔
ایل جی دفتر سے جاری کئے گئے ایک حکمنامے کے
ذریعے شیر کشمیر زرعی یو نیورسٹی کے چانسلر ڈاکٹر نزیر احمد گنائی صاحب کی معیاد عہدہ میں دو سال کا اضافہ کر دیا گیا ہے ۔ایسے ہی ایک اور حکمنامے کو جاری کردیا گیا جس کی رو سے ایل جی سنہا نے جموں
یو نیورسٹی کے چا نسلر پروفیسر امیش رائے کی معیاد عہدہ میں تین سال کی تو سیع کردی ہے۔گوکہ ایل جی نے اختیارات سے کو ئی تجاوز نہیں کیا ہے تاہم” دی ہندو” اخبار کی ایک رپورٹ کے مطابق چیف منسٹر عمر عبداللہ جو یو نیورسٹی کے پرو چا نسلر ہیں سے کو ئی مشورہ نہیں کیا گیا ہے اور نہ ہی ان کو یہ فیصلہ جات لیتے وقت اعتماد میں لیا گیا ہے جس بناء پر قیاس آرائیوں کا ایک اور سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔قومی اخبارات میں شائع رپورٹوں میں چیف منسٹرعمرعبداللہ سے مشاورت اور انکی رضامندی کا خیال رکھے بغیر ہی دو اہم یونیورسٹیوں کے چانسلر وں کے عہدوں کی معیاد میں توسیع کو ایل جی سنہا اور سی ایم عمر عبداللہ کے درمیان خاموش ان بن کا عکاس قرار دیا جارہا ہے۔قانونی ماہرین کے مطابق چیف منسٹر یونیورسٹی کا پرو چانسلر ہے اور اس کو اہم عہدوں کی تو سیع کے فیصلوں میں نظر انداذ کر نے کا مطلب یہ ہے کہ راج بھون اور سی ایم دفتر کے درمیان کہیں نہ کہیں خلیج کا عنصر موجود ہے۔اخباری رپورٹوں میں دعویٰ کیا جارہا ہے کہ بہت ممکن ہے کہ عمر عبداللہ سرکار کو پروفیسر نذیر احمد گنائی کی بطور چانسلر توسیع پر تحفظات ہو تے جس کی وجہ جنرل ایڈمنسٹریٹو ڈیپارٹمنٹ میں ان کے خلاف رکی پڑی "شکایات ” ہیں۔
گزشتہ ماہ کشمیر یونیورسٹی نے اسسٹنٹ پروفیسروں کے انٹرویو ملتوی کئے کیوں کہ منتخب سرکار کا اعتراض تھا کہ وی سی کو اس کا اختیار نہیں کہ وہ امیدواروں کا از خود انٹرویو منعقد کرے جب اس کے عہدے کی معیاد کچھ ماہ ہی باقی رہ گئی ہے ۔تاہم اس سلسلے میں اب تازہ نو ٹس جاری ہو نے کا مطلب یہ لیا جارہا ہے کہ یو نیورسٹی کے اعلی عہدوں کی تقرری اور توسیع کا اختیار کلی طور پر ایل جی سنہا کو حاصل ہے اور یہ ان کی مرضی پر منحصر ہے کہ آیا وہ منتخب سرکار سے مشورہ کرنا ضروری سمجھتے ہیں یا نہیں۔ ایل جی سنہا آئین کا مقرر کیا ہوا عہدیدار ہے اور قانون کے مطابق اپنے اختیارات کا استعمال کرتا ہے ۔وہ آزادانہ طور پر فیصلے لیتا ہے اور اپنا فرض نبھا نے کی کوشش کر تا ہے لیکن مسلہ یہ ہے کہ اسمبلی بردار جموں کشمیر یو ٹی میں ایک منتخب سرکار بن گئی ہے جس نے الیکشن کے دوران اختیارات کو ملحوظ نظر رکھے بغیر بڑے بڑے وعدے کئے ۔اقتدار سنبھالنے کے بعد حقیقت چہرہ دکھارہی ہے تو وہ عاجز آرہی ہے ۔چنانچہ ایل جی سنہا اپنے اختیارات کو استعمال کر تے ہو ئے آئی پی ایس آفیسروں کو تبدیل کرے ،ایذوکیٹ جنرل کی تقرری یا تنسیخ کرے یا یونیورسٹی چانسلر وں کی معیاد میں توسیع کا حکمنامہ صادر کرے تو منتخب سرکار کا سکون اڑ جا تا ہے اور وہ بے بسی کے احساس میں مبتلا ہو جاتی ہے۔انتخابی وعدوں کے تناظر میں عمر عبداللہ کی مجبوریاں تو قابل فہم ہیں لیکن زمینی حقیقت کا کیا کیا جا ئے۔ان کے سامنے بہرحال سر تسلیم خم کر نا پڑے گا ۔عمر عبداللہ صاحب وہ زمانہ بھولنے پر مجبور ہیں جب وہ ملک کی سب سے طاقتور ریاست کے چیف منسٹر تھے ۔آج وہ یو ٹی کے حکمران ہیں اورجب وہ الیکشن میں کود پڑے تو انھوں نے یو ٹی والے سی ایم کی حثیت قبول کر لی جس پر فی الحال کے طور پر گزارہ کرنا ضروری ہے۔وہ شوق سے سٹیٹ ہڈ کی لڑائی لڑیں کہ وہ عوام کا اہم ترین مطالبہ ہے لیکن وہ موجودہ حثیت میں عوام کے لیے جتنا کچھ کر سکیں اور ان کو جو تھوڑا بہت راحت پہنچا سکیں اس کو لوگ تحفہ سمجھ لیں گے۔دستیاب موقعہ کو حیلہ بہانہ سے ضایع کیا جا ئے تو عوام مایوس ہو گی جس کا مضر اثر کسی اور پر نہیں بلکہ بھاری منڈیٹ کی حامل این سی کی ساکھ پر ہی پڑے گا۔
