تحریر:ڈاکٹر جی ایم بٹ
محرم کا مہینہ اسلام سے پہلے بھی محترم تھا اور کربلا میں شہادت حسین کا سانحہ پیش آنے سے پہلے بھی اس کو مقدس سمجھا جاتا تھا ۔ لیکن 10 محرم کو شہادت حسین کا واقعہ پیش آنے کے بعد اس کی اہمیت میں کافی اضافہ ہوگیا ۔ بلکہ اب یہ مہینہ اسی مناسبت سے جانا جاتا ہے ۔ کشمیر میں محرم کے مہینے کا احترام تمام حلقوں میں کیا جاتا ہے ۔ کچھ ہی سالوں سے یہاں اس میں تفریق کیا جانے لگا ۔ کچھ کٹھ ملائوں کی دیدہ دلیری ، کم علمی اور مالی آمدنی کی وجہ سے ایک ایسا ماحول بنایاگیا جہاں شہادت حسین سے زیادہ یزیدی نظام کی خوبیاں بیان کی جانے لگیں ۔ یہاں تک کہ حسینیت کے بجائے یزیدیت کو جنت و جہنم کا معیار سمجھا جانے لگا ۔ ایسا بلا وجہ نہیں ۔ بلکہ حسین کے پرستاروں نے جب فکر حسین کو ترک کیا تو قدرتی طور یزیدیت کو تقویت ملی ۔ یہ ایک قدرتی عمل ہے کہ جب پیغام حسین کو نظر انداز کیا جائے تو نظام یزید اس کی جگہ لے گا ۔ یہ امت اسلامیہ کی بدقسمتی ہے کہ یہاں احترام محرم کو لازمی سمجھا جاتا ہے اور پیغام محرم کو سرے سے نظر انداز کیا جارہاہے ۔ جو لوگ حسین کی شہادت کے گرویدہ ہیں وہ حسینی پیغام سے بے خبر ہیں ۔ جو پیغام حسین کو اہم سمجھتے ہیں ان کے لئے شہادت حسین کوئی اہمیت نہیں رکھتی ۔ بہت کم لوگ ہیں جن کے لئے احترام محرم کے ساتھ ساتھ پیغام محرم ضروری ہے ۔ حالیہ زمانے میں علامہ اقبال واحد ایسے مفکر گزرے ہیں جن کے کلام کے اندر دونوں نظریوں کی تبلیغ ملتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ڈکٹر علی شریعتی ان کے کلام کو پسند کرتے اور ان کی شاعری کو ایران میں عام کرنے کی کوشش کرتے تھے ۔ امام حسین کوئی مولوی تھے نہ بڑے آیت اللہ تھے ۔ انہوں نے کسی مدرسے میں پڑھا تھا نہ کسی امام باڑے میں ان کی تربیت ہوئی تھی ۔ بلکہ آپ خانوادہ رسول کے چشم و چراغ اور علی و فاطمہ کی گود میں پلے تھے ۔ ان کی تعلیم وتربیت عالم انسانیت کے دو بڑے اساتذہ اور اماموں نے کی تھی ۔ ان باتوں کو مدنظر رکھ کر ان کی تربیت یا ان کی فکر کی تنقید کرناان کے والد اور نانا دونوں کی تربیت پر انگلی اٹھانے کے مترادف ہے ۔ یقینی طور اس طرح کی بات کرنے والا بڑا مجرم ہے ۔
حسین نے یزید کے خلاف علم بغاوت کسی کے کہنے یا اکسانے پر بلند نہیں کیا ۔ بلکہ یہ ان کی آزاد مرضی اور اپنی سوچ کے مطابق تھا ۔ انہوں نے پوری جرات اور عزم کے ساتھ اس کا اعلان کیا ۔ ایک ایسے راستے پر نکلے جس کا انجام شہادت کے سوا کچھ بھی نہ تھا ۔ کہنے والوں اور سمجھانے والوں نے یہ بات زور دے کر کہی کہ کوفہ کے لوگ پہلے بھی دھوکہ دے چکے ہیں اور اب بھی غداری کرسکتے ہیں ۔ لیکن شوق شہادت رکھنے والے خانوادے نے خاموش رہ کر یزیدیت کی تائید کرنے سے انکار کیا ۔ انہوں نے دنیائے جہاں کی سب سے بڑی سعادت اپنے نام لکھنے کا عزم کیا اور بے سرو سامانی کی حالت میں نکل پڑے ۔آپ لوگوں کی حمایت اور مدد حاصل ہونے کے بھروسے پر گھر سے نہیں نکلے ۔ انہوں نے مکہ اور مدینے میں دیکھا کہ ان کی بات سننے کو وہاں بھی کوئی تیار نہیں ۔ اس کے باوجود انہوں نے شہر مدینہ چھوڑ دیا اور کوفے کی طرف کوچ کیا ۔ ان کے لئے یزیدیت کے خلاف آواز اٹھانا سب سے بڑی سعادت اور سب سے بڑا شرف تھا ۔ حق کی ادائیگی کا یہ بہترین موقع تھا ۔ ان کو معلوم تھا کہ اس وقت خاموشی اختیار کرنا باطل کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کے برابر ہے ۔ آپ ایسے مرحلے پر خاموش رہتے تو وہ لوگ جو آج ان کے خروج پر سوال اٹھاتے ہیں امام حسین پر الزامات لگانے میں پیش پیش ہوتے ۔ حیرانی اس بات پر ہے کہ حسین کے حامی اور مخالف دونوں اس رو میں بہہ کر اپنی آخرت تباہ کررہے ہیں ۔ حسین کی شہادت پر صرف واویلا کافی نہیں ۔ بلکہ یزیدیت کی بیخ کنی اور حسینیت کی آبیاری بھی ضروری ہے ۔ احترام محرم میں آنسو بہانا اپنی جگہ لیکن خون صرف پیغام محرم پر بہانا حلال ہے ۔ اس ضمن میں یہ حقیقت سامنے رہنی چاہئے کہ فکر حسین کی دعوت میں یزیدی سوچ ضرور حائل ہوگی اور سامنے آکر مقابلے پر تل جائے گی ۔ آج جب ہم دیکھ رہے ہیں کہ حسین کے مقابلے میں یزید کے ساتھی زیادہ گرج رہے اور آسمان سر پر اٹھائے ہوئے ہیں تو فکر حسین کے حق میں آواز اٹھانے والا کوئی نہیں۔ یقینی طور اہل بیت کے پرستار بڑی تعداد میں موجود ہیں ۔ ایسے عاشق گھروں میں چھپے بیٹھے نہیں ہیں ۔ بلکہ سڑکوں پر آکر حسین اور ان کے ساتھیوں کے لئے ماتم کررہے ہیں ۔ لیکن ان میں ایک بھی ایسا نہیں جو فکر حسین کا فہم رکھتا ہو اور اس کے حقیقی تقاضوں کا حق ادا کرنے کے لئے تیار ہو ۔ غور کیجئے کہ اگر ہم حسین کے کربلا میں پہنچتے وقت موجود ہوتے تو ہم میں سے کتنے ہیں جو ان کے ساتھ کھڑا ہوکر اپنی جان قربان کرتے ۔ شاید کوئی نہیں ۔ سڑکوں پر خون کے آنسو بہانے والوں میں سے کتنے ہیں جو حسین کے لئے اپنا خون نچھاور کرتے ۔ سچ کہئے تو ہم میں سے ایک بھی اس کے لئے تیار نہ ہوتا ۔ ایسا وہی شخص کرسکتا ہے جس کے لئے حسین کی ذات اور حسین کی فکر دونوں عزیز ہوں ۔ یہ ہماری بے مروتی کا نتیجہ ہے کہ آج فکر حسین اور اقدام حسین کو صحیح منانے کے لئے بحث کی جارہی ہے ۔ یہ ہرگز ایسا موضوع نہیں جس پر بحث و تمحیص کی ضرورت ہے ۔ اس پر آنکھیں بند کرکے ایمان لانا ضروری ہے ۔ حسین ہر حال میں صحیح تھے ۔ ہمارے اسلاف کا یہی طریقہ تھا ۔ کشمیر میں یہی سوچ پائی جاتی تھی ۔ اس میں شیعہ اور سنی کی کوئی تخصیص نہیں تھی ۔ کیا شیعہ اور کیا سنی دونوں حسین اور حسینیت کی تعظیم کرتے تھے ۔ ایک زمانے میں دونوں طبقوں میں سخت نفرت پائی جاتی تھی ۔ لیکن حسین اور ان کے ساتھیوں کے حوالے سے کوئی تفریق نہیں تھی ۔ ان کے غم میں دونوں فریق غرق تھے ۔ ان کی تعظیم دونوں ایک دوسرے سے بڑھ کر کرتے تھے ۔ ماتم حسین کی وجہ سے شیعہ سے زیادہ سنی اس مہینے میں خوشی کی تقریبات منانے سے پرہیز کرتے تھے ۔ یہاں تک کہ اس مہینے میں شادی گناہ سمجھی جاتی تھی ۔ اب ایسے مسائل فقہی نزاکتوں کے ایشو بن گئے ہیں ۔ فقہی اصول وضوابط سے ہرگز انکار نہیں ۔ لیکن کچھ اقدار محبت اور عقیدت کے دائرے میں رہ کر طے کئے جاتے ہیں ۔ محرم سے ماورا جو شادیاں کی جاتی ہیں ہرگز اسلامی طریقے سے نہیں کی جاتی ہیں ۔ ان کا کوئی بھی پہلو شریعت کے لحاظ سے جائز نہیں ۔ ایسی شادیوں پر دعوتوں کے چٹخارے لینے والے مولویوں کو اس پر اعتراض ہے نہ احتراض کرنے کو تیار ہیں ۔ ہاں محرم کی شادیوں پر انہیں شریعت اور فقہ کے تحفظ کا غم کھائے جاتا ہے ۔ یہ شریعت کے ساتھ بڑا مزاق ہے ۔