تحریر:ڈاکٹر جی ایم بٹ
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ مسلک کے نام پر کشمیر میں جنگ چھیڑنے کی کوشش کی گئی ۔ یہ سلسلہ بہت پہلے سے جاری ہے ۔ اب کچھ عرصے سے اس لڑائی میں تیزی لائی گئی ہے ۔ تازہ ترین تنازع عاشورہ کے مسئلے کو لے کر شروع کیا گیا ۔ اس حوالے سے فتویٰ جاری کیا گیا کہ عاشورہ کے موقعے پر کالے کپڑے پہننا اور جھنڈے لگانا جائز نہیں ۔ بلکہ محرم کی مجالس میں جانا اور کالی پٹیاں لگانے سے اہل سنت و الجماعت کو احتراز کرنے کے لئے کہا گیا ۔ جنوبی کشمیر میں جہاں شیعہ کی بہت کم آبادی پائی جاتی ہے نوجوانوں کو محرم میں شیعہ نشانیاں استعمال کرنے سے منع کیا گیا ۔ اس پر شیعہ علما کی طرف سے جوابی بیانات دئے گئے ۔ اگرچہ تنازع زیادہ آگے نہیں بڑا اور جلد ہی اس پر روک لگادی گئی ۔ تاہم ایسے بیانات پر عوامی حلقوں میں سخت حیرانی کا اظہار کیا گیا ۔ شہادت حسین کو لے کر پورے عالم اسلام میں محرم کے پہلے عشرے کے دوران مجالس کا انعقاد کیا جاتا ہے ۔ اس موضوع پر تقریریں کی جاتی ہیں اور اخبارات میں کالم لکھے جاتے ہیں ۔ اب سوشل میڈیا پر بیشتر لوگ اس حوالے سے اظہار عقیدت بھی کرتے ہیں ۔ شیعہ لوگ مرثیوں اور ذولجناح کے جلوسوں کا اہتمام بھی کرتے ہیں ۔ اہم بات یہ ہے کہ کئی جید سنی علما نے واقعہ کربلا کو لے کر ذخیم کتابیں لکھی ہیں اور کربلا کے واقعے کو حق و باطل کی جنگ قرار دیا ہے ۔ اس معاملے میں تمام علما نے اہل بیت کی شہادت کو اسلام کی بقا کا ضامن قرار دیا ہے اور پورا وزن یزید کو غلط قرار دینے کے پلڑے میں ڈالا ہے ۔ ایک مختصر گروہ ہے جو اس حوالے سے سواد اعظم سے ہٹ کر یزید کی حمایت کرتا ہے ۔ تاہم کشمیر میں عوام الناس یک جھٹ ہوکر امام حسین کے لئے عقیدت کا اظہار کرتے ہیں ۔ بلکہ محرم کے پہلے عشرے کو یہاں شعائر اسلام میں شمار کیا جاتا ہے ۔ کیا شیعہ کیا سنی ۔ بحیثیت مجموعی سارے لوگ محرم کے پہلے عشرے کو غم و ماتم کاعشرہ سمجھتے ہیں ۔ اس معاملے میں یہ صحیح اور غلط تلاش کرنے کے ہر گز روا دار نہیں ہیں ۔ بلکہ اپنے اسلاف کے طریقے کی پیروی کرتے ہیں ان ایام کو گم و اندوہ کے ایام سمجھتے ہیں ۔ یہ عزہ داری کے جلوسوں میں حصہ نہ بھی لیں ۔ لیکن ان کے دل شہادت حسین کے واقعے پر سخت غم زدہ ہیں بلکہ اس کا اظہار اپنے طور کھل کر کرتے ہیں ۔ عوام کے لئے ماتمی جلوس نکالنے اور عزہ داری کرنے پر کوئی اعتراض آج تک نظر نہیں آیا ۔ یہ پہلا موقع ہے کہ کالے جھنڈے اور بڑے بڑے حسینی بینر بلند کرنے پر مذہبی اکابر نے اعتراضی بیانات دئے ۔ عجیب بات یہ ہے کہ اس حوالے سے سلفی اور بریلوی دونوں طبقے جو آپس میں شیعہ سنی سے بڑھ کر محاذ آرائی میں شامل رہتے ہیں ہم خیال ہوکر بیانات دینے لگے ۔ دونوں طبقوں کے اکابر نے محرم کے دوران ماتم کو ناجائز قرار دیا ۔ خاص طور سے کالے جھنڈے لگانے پر خلاف اسلام حرکت ہونے کا لیبل چسپاں کردیا ۔ شرعی اور غیر شرعی بحث سے قطعہ نظر یہاں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ دونوں طبقے ربیع الاول کے دوران سیرتی جلسے کرنے ، میلاد کی مجالس منعقد کرنے اور سبز جھنڈے بلند کرنے میں آگے آگے ہوتے ہیں ۔ اس بات سے ہر گز انکار نہیں کیا جاسکتا کہ میلاد کے جلوس نکالنے اور پرچم لہرانے کا کشمیر میں پہلی بار اہتمام بریلوی حضرات نے کیا اور اس کو عقیدت رسول ﷺ کا سب سے بہترین اظہار قرار دیا ۔ گاڑیوں ، رہائش گاہوں بلکہ سڑکوں، دکانوں اور ریڑھیوں کو سبز پرچم لگانے کا جو رواج یہاں پایا جاتا ہے اس کا آغاز بریلوی علما نے کیا ۔ اس حوالے سے جائز اور ناجائز کو تسلیم کرنے سے کھلے عام انکار کیا گیا ۔ بلکہ اس پر اعتراض کرنے والوں کو کافر تک قرار دیا گیا ۔حد تو یہ ہے کہ عمامے پہننا اب سنت کا معاملہ نہیں رہا ہے ۔ بلکہ اسے مختلف گروہوں کی عکاسی کا نشانہ بنایا گیا ۔ سکھوں کے اندر اس حوالے سے کوئی تنازع نہیں پایا جاتا کہ کس رنگ اور کس طرز کی پگڑی پہنی جائے ۔ لیکن مسلمانوں کے مختلگ طبقوں کے لئے کالے اور سبز دستار گروی علامت بن کر رہ گئی ہے ۔ اب سفید ، سبز اور کالے دستار سنت نبوی کے طور اپنائے نہیں جاتے بلکہ مسلکی اور گروہی طاقت کے اظہار کے لئے پہنے جاتے ہیں ۔ اس کے برعکس آج محرم میں کالے جھنڈے لہرانے پر جائز اور ناجائز ہونے کا حوالہ دیا جاتا ہے ۔ میلاد اور محرم یکساں نوعیت کے معاملات ہیں ۔ نبی ؐ اور حسین ؑ کی محبت ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہے ۔ دونوں کی محبت باہم مربوط ہے ۔ نبی سے محبت کرنے والا حسین کی محبت سے شرابور ہوگا ۔ حسین سے محبت نہ کرنے والا ہرگز نبی سے محبت کرنے والا نہ ہوگا ۔ میلاد کے موقعے پر پرچم لہرانے کو جائز قرار دینے والے کو یہ زیب نہیں دیتا کہ محرم میں کالے جھنڈے لہرانے پر اعتراض کرے ۔ یقینی طور یہ کم علمی اور کم فہمی کا مظہر ہے ۔
اسلام کو جب سے تجارت کا ذریعہ بنایا گیا ہر کسی کی کوشش ہے کہ اپنی دکان کو نئے انداز میں چمکایا جائے ۔ اسلام پر قبضہ کرنے والوں کے لئے یہ نفع و نقصان کا معاملہ ہے ۔ یہ ایسا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے کہ ان کی دکان کی تشہیر نہ وجائے ۔ اپنی تجارت کو بحال رکھنے کے لئے یہ ہر ممکن کوشش کرتے ہیں ۔ یہ صحیح ہے کہ نبی ؐ یا حسین سے محض زبانی محبت کا اظہار کافی نہیں ۔ وہ لوگ جو عشق رسول کا اظہار کرتے ہیں عملی طور آج کے ابوجہل اور ابو لہب کے ساتھ کھڑے ہیں ۔ اسی طرح حسین کے لئے خون کے آنسو بہانے والے وقت کے یزیدوں کی حمایت میں آگے ہیں ۔ میلاد منانے والوں کی زندگی نبوی اصولوں پر ہے نہ محرم میں کالے لباس پہننے والوں پر کوئی حسینی رنگ چڑھا نظر آتا ہے ۔ دونوں حق و باطل کی تمیز سے ناآشنا ہیں ۔ ایک گروہ ابو جہلوں کا حامی ہے دوسرا یزیدی نظریات کا حمایتی ہے ۔ میلاد منانے سے ہمارا معاشرہ اسلامی بن گیا نہ محرم منانے سے سماج میں حسینی شعور کا کوئی عکس پایا جاتا ہے ۔ ہم اصل نظریے سے بے خبر ہیں ۔ ہماری نظریں جھنڈوں اور پرچموں میں الجھی ہوئی ہیں ۔ صحیح اعتقاد کا کہیں کوئی عکس نہیں پایا جاتا ہے ۔