تحریر:ڈاکٹریاسمین اختر
خالد بشیر تلگامی عہد حاضر کے ابھرتے ہوئے قلمکار ہیں۔ افسانچہ نگاری میں انہوں نے معتبر مقام حاصل کیا ہے۔ان کے ادبی سفر کا آغاز ۲۰۱۰ء میں ہواتھا۔ انہوں نے اپنی ادبی زندگی کی ابتدا شعر وشاعری سے کی تھی۔ کشمیری زبان میںانہوں نے سو سے زاید غزلیں اور نظمیں لکھیں۔ چند افسانے اور افسانچے بھی کشمیری زبان میں لکھے۔ اردو زبان میں ان کے افسانے ’شہر بین‘سری نگر میں شائع ہوتے رہے ۔ اب تو ملک اور بیرون ملک کے کئی اخبارات ورسائل میں ان کے افسانچے زینت بن رہے ہیں۔
ان کے افسانچوں کا پہلا مجموعہ ’’دکھتی رگ‘‘میرے ہاتھ میں ہے۔ نہ جانے کیوں اس کتاب کو ہاتھ میں لے کر مجھے دلی سکون محسوس ہورہاہے۔ آنکھوں سے بھی ٹھنڈک کا احساس ہو رہا ہے۔ دراصل ان کا تعلق کشمیر سے ہے ۔ کہاجاتا ہے کہ اگر زمین پر کہیں جنت ہے تو وہ وادی کشمیر ہے۔ کتاب کو ہاتھ میں لیا تو ایسا لگا جیسے میں کشمیر کی سیر کررہی ہوں۔ ویسے اس مجموعے کی جو کہانیاں ہیں ، ان میں چندایسی بھی ہیں جن میں کشمیرکی زندگی اور وہاں کی تہذیب کی جھلکیاںنظر آتی ہیں۔
خالد بشیر صاحب کو میں پہلے سے نہیں جانتی تھی۔ لاک ڈاؤن کے زمانے میں ہماری شناسائی ادبی وہاٹس گروپ’گلشن افسانچہ‘کے وسیلے سے ہوئی تھی۔خالد صاحب ہی اس گروپ کے ایڈمن ہیں۔ وہ اپنے گروپ میں افسانچوں کے فروغ کے لئے کافی محنت و مشقت کرتے ہیں۔ میں گروپ میں ان کے افسانچے پڑھا کرتی ہوں اور حتی المقدورتبصرے بھی کرتی ہوں۔
مجموعے میں ’’دکھتی رگ‘‘ کے نام کی کوئی کہانی نہیںہے۔ شاید انہوں نے زمانے کی دکھتی رگ پرہاتھ رکھنے کی کوشش کی ہے۔ اس مجموعے میں کل ۱۰۶؍افسانچے شامل ہیں۔ سارے کے سارے دلچسپ اور معیاری ہیں۔ موصوف نے اس مجموعے کے ذریعے اپنی ایک الگ پہچان بنانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔انہوں نے اپنی کہانیوں کے ذریعے سیاسی ، سماجی، معاشی ، معاشرتی حالات کو سامنے لاکر قارئین کے ذہن کو بیدار کرنے کی بھرپورکوشش کی ہے ۔ مثال کے طور پر اس مجموعے کا پہلا افسانچہ پیش کیا جاسکتا ہے۔
بدحالی میں جی رہے تین بچوں کے باپ نے اپنے ضعیف والد سے اپنے حصے کی زمین مانگی تو والدنے جواب دیا۔’’نہیں بیٹا۔۔۔۔میری زندگی میں تو یہ ممکن نہیں ۔‘‘
’’بابا۔۔۔موت و حیات پر تو ہمارا اختیار نہیں۔۔۔مجھے ڈرہے اگر آپ سے پہلے کہیں میں دنیا سے چلا گیا تو میرے بچے محجوب ہوجائیں گے۔(بٹوارہ)
کہانی بہت مختصر ہے لیکن بہت بڑا پیغام دے جاتی ہے۔ واقعی یہ دور خود غرضی اور مطلب براری کا ہے ۔ لوگوں کو چاہئے کہ کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے غوروفکر کرلیں ۔ اگرلوگ سوچ سمجھ کر باتیںکریں گے یا قدم اٹھائیںگے تو کسی کے دل کوچوٹ نہیں پہنچے گی۔
مجھے کہانی بہت پسند آئی ۔ موصوف نے اس کہانی کے ذریعہ لوگوں کے ذہن کو بیدار کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔
’’مصروفیت‘‘ بھی قابل ستائش ہے۔ اس کہانی میں ایک بھکاری فریاد کرتا ہے ۔ گھر کا مالک بے فکری سے کہتا ہے کہ میں مصروف ہوں۔ دراصل وہ اپنے کتے کو روٹی کھلا رہا ہوتا ہے۔ اگر کسی کے پاس مال ودولت ہے تو اسے چاہئے کہ لوگوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آئے۔ اسلام میں کردار و عمل کو بڑی اہمیت دی گئی ہے۔
’’صفائی‘‘ میں مصنف نے ایک طرف انسانوں کی درندگی کا احساس دلایا ہے تو دوسری طرف عورت کی بے بسی کوآشکار کیا ہے۔اس سماج میں گناہ پروان چڑھ رہے ہیں ، برائیاں پنپ رہی ہیں مگر کوئی آگے بڑھ کر برائیوں کو ختم کرنے کی طاقت نہیں رکھتا۔
’’روٹی‘‘ میںموصوف نے روٹی کے ایک ٹکڑے کی قیمت کو واضح کیا ہے۔ اس کہانی سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ کسی ضرورت مند کی مدد کرنے سے خود کا فائدہ ہے۔ دل کو سکون بھی ملتا ہے اور اللہ کی خوشنودی بھی حاصل ہوتی ہے۔ اس لئے ہمیں چاہئے کہ خلوص نیت سے ضرورت مندوںکی مدد کریں۔ سچ تو یہ ہے کہ شیطان کی پوری کوشش رہتی ہے کہ انسان اچھے کاموں سے محروم رہے۔ شیطان انسان کو ہمیشہ بے حیائی کا حکم دیتاہے۔ اسی حقیت کو اجاکر کیا گیا ہے اس افسانچے میں۔
’’معصوم سوال‘‘ میں معصوم جذبے کو نہایت ہی سادگی کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔
خالد بشیر صاحب معاشرے کے حالات کو کہانی کے سانچے میں کچھ اس طرح ڈھالتے ہیںکہ قاری ان کی کہانیوں سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
’’اف ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا ہے۔‘‘
’’پر مجھے اندھیرا کہیںدکھائی نہیںدے رہا ہے۔‘‘
’’میں اس اندھیرے کی بات نہیںکررہا ہوں ۔‘‘
’’توآپ کس اندھیرے کی بات کر رہے ہیں؟‘‘
’’وہ جو انسانوںکی آنکھوں میںچھایا ہوا ہے۔‘‘(افسانچہ ’’اندھیرا‘‘)
کہانی فکرانگیز بھی ہے اور متاثر کن بھی۔کہانی کا آخری جملہ لائقِ تحسین ہے۔
موجودہ دور خطرے سے خالی نہیں۔ زمانہ ظلم وزیادتی ، چوری ڈکیتی، غنڈہ گردی، بے روزگاری،غربت وافلاس سے گھرا ہوا ہے۔ لوگ اپنی اپنی دنیا میں مست ہیں،کوئی کسی کا پرسان حال نہیں ۔ ہرکسی کو اپنی فکر ہے۔ آج انصاف پسندوں کا نام و نشان مٹتا ہوا نظر آرہا ہے۔ ان ہی خیالات کو موصوف نے کہانی کا جامہ پہنایا ہے۔
ایک اورکہانی کا تیور دیکھیں:
’’تنہا بیٹھے بیٹھے کیا سوچ رہے ہو؟‘‘
’’سوچ رہاہوں جب میری جیب میں پیسے تھے تب لوگ سر کہہ کر دور سے سلام کرتے تھے۔۔۔۔آج جیب خالی ہے لوگ نظریں جھکا کر دور سے ہی مجھے دیکھ کر منہ پھیر رہے ہیں۔‘‘(دستور)
زندگی لینے اور دینے کا نام ہے۔ ایک دوسرے کو فائدہ پہنچانے ، دوسرے کے دکھ درد میں کام آنے کا نام ہے۔ لوگ کسی بھی مذہب ، رنگ ونسل سے تعلق رکھتے ہوں، ہمیں چاہئے کہ ہم ایک دوسرے کے دکھ درد میں کام آئیں۔
خالد سیدھی سادی زبان میں پتے کی بات کہہ جاتے ہیں۔الفاظ میں سادگی اور متانت صاف محسوس ہوتی ہے۔
ذرا یہ کہانی بھی دیکھئے!
ــ’’کیا میں اپنی آنکھیں اپنی حیات میںکسی کو دے سکتا ہوں۔‘‘
’’نہیں !‘‘
’’مگر کیوں؟‘‘
’’کیونکہ پھر آپ کچھ بھی نہیں دیکھ سکتے ۔‘‘
’’بھائی، وہی تو میں چاہتا ہوںَ‘‘(بینا کا درد)
اس افسانچے کا کردا ایک حساس طبیعت کا مالک ہے۔ لالچ، فریب، مکاری ، خود غرضی، دھوکے بازی، خون ریزی، دہشت گردی وغیرہ کا سامنا کرنا اس کے بس میں نہیں ۔ موجودہ دور میں سچائی کا ساتھ دینے والا کوئی نہیں۔ ظالموں کا بول بالا ہے وہ لوگوں کو پرسکون اور کامیاب دیکھنا چاہتا ہے جو ممکن نہیں۔ اس لئے اندھیرے میں گم ہوجانا چاہتا ہے۔
لاوارث، عقیدت، آسیب زدگی، نجات، بے خبر، جادو، شرمندگی وغیرہ افسانچے بھی اپنی مثال آپ ہیں۔ ان افسانچوں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ موصوف نے نہایت ہی فنکارانہ انداز میں عصری مسائل کواپنی کہانیوں کے ذریعہ اجاگر کیاہے۔ ان میں زیادہ تر افسانچے ایسے ہیں جنہیں پڑھ کر ایسا لگتا ہے جیسے پورا واقعہ ابھر کر سامنے آگیا ہو۔سچ تو یہ ہے کہ افسانچے کے فن پر انہیں پورا دسترس حاصل ہے۔
خالدبشیر کے مزاج میں نرمی بھی اور سنجیدگی بھی، جس کا احساس ان کی کہانیوں میں ہوتا ہے۔ انہوں نے کسی خاص موضوع کو اپنی کہانیوں میںحاوی ہونے نہیں دیا ہے بلکہ اپنے آس پاس کے ماحول میں جو کچھ دیکھا اور محسوس کیااسے کہانی کی شکل میں پیش کردیا ۔
’’ارے اس نالائق کی چائے پانی بند کرو۔ اس نے باہر ہمسایہ لڑکے کو گالیاں دے کر مجھے دوست کے سامنے رسوا کردیا۔‘‘
’’کب ؟‘‘
’’ابھی ، جب میں ڈیوٹی سے گھر آرہا تھا۔‘‘
’’کیا تم نے گالی دی؟‘‘ عمران کی بیوی بیٹی کو ڈانٹنے لگی۔
’’ارے اس کو ڈانٹنے سے کیا ہوگا۔۔۔یہ سب تمہارے ہی لاڈ پیار کا نتیجہ ہے۔۔۔۔‘‘
عمران کا غصہ دیکھ کر وہ خاموش ہوگئی اور دل ہی دل میں کہنے لگی، اگر میں عمران سے کہوںکہ یہ آپ پر گیا ہے توابھی مجھے میکے جانے کی دھمکی دیں گے۔‘‘(اثر)
یہ کہانی اچھی ہے اور اثردار بھی۔ لیکن عنوان سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ والد صاحب کا ہی اثرہے۔ لہٰذا ان کی کہانیوں کے کردار انجانے نہیں بلکہ ہمارے آس پاس ہی رہتے ہیں۔ چند کہانیوں میں کچھ کمی نظرآتی ہے لیکن ان کہانیوں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ہر کہانی میں موصوف نے کوئی نہ کوئی پیغام دینے کی کوشش کی ہے ۔
افسانچہ ’’ماں ‘‘ میں ماںکے احساسات و جذبات کو بڑے مؤثر انداز میں پیش کیا گیا ہے۔
مجموعہ ’’دکھتی رگ‘‘ خالد بشیر کے تجربات ومشاہدات کا آئینہ دار ہے۔ موصوف نے اپنی کہانیوں میں کرب وغم ، بے بسی، مایوسی، خون ریزی، فریب، بغض، خود غرضی جیسے معاملات کو اجاگر کیا ہے۔ اردو افسانچہ نگاری میں انہوںنے اپنی ایک شناخت قائم کی ہے۔ ان کا انداز ِ بیان نہایت ہی سادہ اور سلیس ہے۔ موصوف ایک الگ انداز میں کہانی لکھ کر قارئین کے دلوں میں جگہ بنانے کا ہنرجانتے ہیں۔ موصوف کے افسانچے نہ صرف زبان و بیان بلکہ فکر وخیال کے اعتبار سے بھی کافی اہمیت رکھتے ہیں۔ ان کی کہانیوں کا سب سے بڑاوصف یہ ہے کہ انہوں نے کم سے کم الفاظ میںسماج کے جیتے جاگتے ، سچے اور رنگ بررنگ چہروں کو دکھانے کی کوشش کی ہے۔ کہانیاںچاہے جس موضوع پر لکھی گئی ہوں زبان کی صفائی ہر جگہ موجود ہے۔ ان کا اسلوب عام فہم مگر دلکش ہے اور یہ وصف میری نظر میں کامیاب تحریر کا ضامن ہے۔