تحریر:رئیس احمد کمار
مادری زبان کے عالمی دن کے موقعے پر ایک پر وقار تقریب کا انعقاد کیا گیا تھا ۔ تقریب میں ادیبوں، محققوں، شاعروں اور کئی نامور قلمکاروں کو مدعو کیا گیا تھا ۔ تمام لوگ اس بات پر زور دیتے رہے کہ مادری زبان بولتے ہوئے کسی قسم کی شرمندگی محسوس نہیں ہونی چاہیے ۔ بلکہ مادری زبان کے فروغ کے لیے کارگر اقدامات اٹھانے کی ضرورت شدت سے محسوس کی جارہی ہے ۔ مادری زبان کی اہمیت اور افادیت پر بھی بات کرتے ہوئے مدعو کیے ہوئے مہمانوں نے حکومت پر زور دیا کہ مادری زبان کو اول سے لے کر دسویں جماعتوں تک نصاب میں شامل کیا جانا چاہیے تاکہ مادری زبان کا ادب اور میراث ہمیشہ کے لیے محفوظ رکھا جائے ۔۔۔۔
یہ عظیم و شان تقریب سٹی ھائی اسکول کے احاطے میں ہی منعقد کی گئی تھی ۔ تقریب کے آخر پر اسکول کے ہیڈماسٹر اختتامی کلمات کہہ رہے تھے تو ایک استاد رفیق صاحب کے موبائل فون کی گھنٹی بج گئی ۔۔۔
اس نے کال رسیو کی ۔۔۔۔۔
تم ناڈ اسنا گل کر ۔ میواں اس وقت مجبوری داں ”
ہیڈماسٹر صاحب ۔۔۔ ارے رفیق یہ تو ایک ہائی اسکول ہے ۔ یہ کیا بھک رہے ہو ۔۔۔
رفیق ۔۔۔ سر یہ ہماری مادری زبان ہے ۔ ابھی تک صبح سے ہم مادری زبان کے بچاو کے بارے میں سن رہے ہیں ۔ اپنی زبان نہیں بولوں گا تو کون سی زبان ۔