تحریر:ارم نواز خان
شہر کلیساں کی ایک ہجر بھری داستان ہے _ کہ ایک نوجوان سی لڑکی، عمر کی کچی، عقل کی پکی، مصیبتوں کی ماری، دکھوں کی گھیری، غریب خاندان سے تعلق، حسن کی بے مثال، جوانی کا عالم، تقدیر کا ستم، والد کا سایہ ہے نہیں، نصیبوں کے جال میں یوں پھنسی کہ ایک لڑکے کے ساتھ اس کی شادی ہو گئی جو کچھ تھا ماں کے پاس سب دے دیا کہ بیٹی رغبتی سے زندگی بسر کرے_
مگر جو ملا شوہر عقل کا کچا، عیاشی میں ماہر، رات کو دیر سے گھر آنا، پھر دوپہر دو بجے اٹھنا، اسے کسی بارے میں کچھ نہ پوچھنا صرف اپنی مسرت کی خاطر زندگی کو جینا، علم سے بے بہرہ، دولت سے ماند، فکر سے دور، زندگی گزارنے کا کوئی سلیقہ نہیں، قسمت سے مل گئی ایک حسن کی پیکر، عیش و عشرت میں لگ گیا اسے لا کر، اب ہوا جو کچھ عرصہ شادی کا گزر، گھر میں رہ کے بھی نہ ہوئی اسے کچھ خبر، کہیں نہ کوئی کام نہ ہی کوئی ہنر، سوائے اس کے کہ جو ملا سو کھا لیا جو نہ ملا تو چل دیا
ایک عرصہ کے بعد اس لڑکی کے گھر میں ایک بچہ پیدا ہوا پیدائشی کے عالم میں اس لڑکے کو لڑکی کی کوئی فکر نہ تھی_ چند پڑوسیوں نے اس لڑکی کو ہسپتال میں لے جا کر رکھا اور پھر سات دن بعد اسے واپس گھر لایا، قرب و جوار کے تمام لوگ اس لڑکی کی حالت کو دیکھنے آتے، مگر وہاں پہ سوائے اس لڑکی کے کوئی اور نہ ہوتا تھا۔ جو باہر سے آئے ہوئے مہمانوں کو پانی کے لیے پوچھتا، لیکن اس لڑکی کی ایک خوش قسمتی یہ بھی تھی کہ اس کے جوار میں ایک لڑکی رہتی تھی جس کا نام مہرین تھا، وہ اس کے گھر آ کے اس کے لیے کھانا بنا لیتی تھی، اور اسے کھلا کے بھی جاتی تھی، ایک دن مہرین کے ہاتھوں سے گلاس گر گیا اس روز اس لڑکی کا شوہر بھی گھر میں آیا ہوا تھا، جس کا نام زاہد تھا_ اور اس کی بیوی کا نام ثریا بیگم تھا_ ثریا نے زاہد سے کہا کیوں اسے ایسی باتیں بول رہے ہو، اسے غلطی سے گلاس گر گیا اس نے جان بوجھ کے تو نہیں گرایا اتنے میں مہرین روتی روتی اس کے گھر سے چلی جاتی ہے_
چند روز کے بعد جب ثریا ٹھیک ہو جاتی ہے تو اس کے گھر پر کھانے کے لیے کچھ نہ تھا اس نے یہ بات اپنے شوہر سے کہی کہ آج گھر میں پکانے کے لیے کچھ نہیں ہے، آپ باہر سے کچھ لے آئیں اور میں اسے پکا لوں تو اس نے جواب دیا مجھے بھوک نہیں ہے میں آج گھر نہیں لوٹوں گا_ یہ بات کہہ کے وہ گھر سے نکل جاتا ہے، ثریا اپنے گھر میں پریشان ہو جاتی ہے کہ آج کھانے کے لیے کچھ نہیں ہے تو کیا کرنا چاہیے اس نے صبر کیا اور کسی طرح بھوکے رہ کر رات گزاری مگر کسی کو بھنک نہ لگنے دی کہ میں آج بھوکی ہوں، دوسرے دن وہ اپنے شوہر کا انتظار کرنے لگی، کہ وہ آئے گا اور کھانے کے لیے کچھ لائے گا_ وہ صبح سے شام تک لگاتار انتظار میں لگی رہی مگر وہ گھر نہ لوٹا، تین پہر پہلے سے بھوکے وقت گزار چکی تھی_ اب یہ چوتھا پہر تھا کہ وہ بھوکے وقت گزار رہی تھی انتظار کرتے کرتے رات ہوگئی مگر اس کا شوہر واپس نہ آیا اور یہ رات بھی بھوکے رہ کر گزار لی
اب جب تیسرا دن آیا تو وہ اپنے گھر سے باہر نکلی تو اسے مہرین نے دیکھ لیا، جیسے ہی مہرین نے اسے دیکھا تو وہ فوراً دوڑتی ہوئی اس کے پاس آئی، اور پوچھا باجی یہ کیا حال بنا رکھا ہے، ایسا لگتا ہے آپ نے کافی دن فاقہ میں گزارے ہیں اور یہ حالت بنی ہوئی ہے، جب یہ بات ثریا نے سنی تو اس کی آنکھوں سے آنسو نکل پڑے، اور کہا، بہن کیا پوچھتی ہے، میں تجھے بتانا تو نہیں چاہتی تھی مگر آج بے بس ہوئی ہوں، گھر میں کچھ بھی کھانے کے لئے نہیں ہے، اور آج مجھے تیسرا دن ہے میں نے کچھ نہیں کھایا، اور گھر میں میرا چھوٹا سا بچہ ہے، اس کے لئے دودھ بھی نہیں ہے کہ میں اسے پلاؤ، یہ بات سن کے مہرین کا دل تڑپ اٹھا اور فورا اندر گئی اور اپنے گھر سے چاول، آٹا، تیل اور دودھ ڈال کر لے آئی، اور اسے کہا باجی یہ لے جاؤ اور اسے پکا کر کھاؤ، ثریا نے وہ سارا سامان لیا اور اندر چلی گئی اور دودھ گرم کر کے بچے کو پلایا، جب اس کے بچے نے دودھ پی لیا تو ثریا نے تھوڑا چین کا سانس لیا اور پھر خود کھانا کھایا، تین روز گزر جانے کے بعد اس کا شوہر گھر واپس آیا اور کہنے لگا کہ گھر میں کچھ کھانے کا سامان ہے تو ثریا نے کہا ہاں تھوڑے سے چاول ہیں، جو مہرین نے دیے ہیں، مہرین کا نام سنتے ہی وہ غصے میں آ گیا_ کہ اس سے یہ چاول کیوں لیے ہیں ثریا نے جواب دیا گھر میں کھانے کے لیے کچھ نہ تھا میں نے تین دن بھوکے رہ کے گزارے ہیں اور یہ چاول اس نے آج صبح ہی مجھے دیے ہیں
اگلے روز زاہد صبح بارہ بجے اٹھا اور دیکھا کہ اس کی بیوی کپڑے دھو رہی ہے، اس کے گھر میں صابن بھی نہیں ہے، اور وہ ایک بُرش کے ساتھ ایسے ہی کپڑوں پر رگڑ رگڑ کر صاف کر رہی ہے، اس کے دل میں کچھ ذرہ برابر بھی احساس نہ ہوا، کہ میرے گھر میں کھانے کے علاوہ کپڑے دھونے کے لیے صابن تک نہیں ہے، اس نے اپنے کپڑے بھی اندر سے اٹھا کر ثریا کے منہ کے آگے رکھے اور کہا انہیں بھی دھو لینا، ثریا نے کہا کہ صابن کے بغیر کپڑے صاف نہیں ہوتے آپ کے کپڑے زیادہ گندے ہیں، زاہد نے غصے سے بھرے لہجے میں کہا، اگر تیرے ہوتے تو انہیں صاف کر دیتی مگر یہ میرے ہیں تو تو انہیں صاف نہیں کر سکتی ہے، اس نے کپڑے اٹھائے اور دھونا شروع کر دیے اور زاہد اندر سے نئے کپڑے لگا کر چلا گیا
کافی دنوں تک زاہد گھر واپس نہ لوٹا اور گھر میں کچھ سامان بھی نہ تھا_ کہ ثریا اسے پکا کے کھاتی اور اپنا وقت گزارتی، جب اسے کوئی چارہ نہ چلا تو اس نے ہمسائے میں ایک فوجی کے گھر کام کرنا شروع کر دیا_ یہاں اسے مہینے کے پندرہ سو روپے ملنے لگے اور گھر کے لیے کھانے پینے کا سامان بھی ملنے لگا، ادھر ثریا کا بیٹا بھی عمر میں بڑھتا گیا اور اس کی عمر تین سال کی ہو گی تھی، ثریا نے اس کا نام عدنان رکھا تھا، ابھی یہ بچہ کمسنی میں تھا کہ ایک بیماری کا شکار ہو گیا ثریا کے پاس جو چند پیسے اکٹھے ہوئے تھے اس نے وہ تمام پیسے اپنے بچے کے علاج پر لگا دیے، اب اس کے پاس کوئی رقم بھی نہیں تھی کہ وہ اپنا گھر چلا سکے دوسری طرف اس کے شوہر کو بالکل بھی گھر کی کوئی پرواہ نہ تھی کہ میرے گھر کا اخراج کیا ہے اور کیسے چل رہا ہے
قریب دو مہینے تک ثریا کا بیٹا بیمار رہا اس دوران اس کا شوہر نہ جانے کس دنیا میں غائب رہا، لیکن جس فوجی کے گھر میں ثریا کام کر رہی تھی اسے ایک روز خبر لگتی ہے کہ ثریا ہسپتال میں ہے، اور اس کا بچہ بیمار ہے وہ اس کی طرف جاتا ہے اور اسے کچھ پیسے عنایت کرتا ہے، کہ تم اپنے بچے کا علاج کراؤ، جو پیسے لگیں گے میں دوں گا تھوڑے دنوں بعد ثریا کا بیٹا صحت یاب ہونے لگا اور پھر ثریا اسے لے کر واپس گھر آئی
چار مہینے کا وقت گزر جانے کے بعد زاہد لوٹتا ہے اور پھر سے اس کی وہی پرانی عادتیں رہتی ہیں کہ رات کو دیر سے گھر آنا، اور صبح سے دوپہر تک سوئے رہنا، ایک دن ثریا کی صحت خراب ہوگئی اس نے ثریا کو علاج کے بجائے گھر میں چھوڑ کر ہی جانا بہتر سمجھا_ ثریا کی چیخیں اس قدر نکلنے لگیں کہ ہمسائے کے چند لوگ اس کے گھر میں جمع ہوگئے دیکھا تو وہ حاملہ تھی، اور اس کا وقت قریب تھا، ہمسایوں نے اسے اٹھایا اور ہسپتال لے گئے ادھر ثریا کی ماں کو کسی نے یہ بات بتا دی کہ اس کی بیٹی ایسے غربت میں زندگی بسر کرتی ہے اور آج اس مشکل وقت میں بھی اس کا شوہر اس کے ساتھ نہیں ہے، تو ثریا کی ماں فوراً نکلی اور سیدھا ہسپتال چلی آئی اُدھر ثریا کے بچے عدنان کو مہرین اپنے گھر لے گئی اور وہی اس کی دیکھ بھال کرنے لگی_
آخر جب اس کا وقت مکمل ہوا تو اس کے گھر پر ایک دوسرا بچہ پیدا ہوا، کچھ دن ہسپتال میں رہنے کے بعد ثریا کی ماں ثریا کو لے کر اس کے گھر آئی، جب گھر میں پہنچی تو ثریا کے گھر پر کچھ کھانے پینے کا سامان نہ تھا یہ سب دیکھ کر ماں کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور دل ہی دل میں کہنے لگی، یا رب اب تو ہی اس مشکل میں ہمارا ساتھ دے، میں اپنی بیٹی کو اس حالت میں نہیں دیکھ سکتی ہوں، اچانک باہر سے ایک عورت ثریا کو دیکھنے کے لیے آ رہی تھی اس کے ہاتھ میں چینی سوئیاں اور اٹا تھا، اس عورت نے سارا سامان ثریا کی ماں کو دیا، اور وہ خود ثریا کے پاس جا کر بیٹھ گئی_
وقت گزرتا گیا ایک مہینے کے بعد زاہد واپس گھر لوٹا تو اس نے دیکھا کہ اس کے گھر پر ایک اور بچہ ہے، یہ دیکھ کر اسے کوئی خوشی نہ ہوئی، اور سریا کی ماں کو کچھ پوچھے بغیر وہ کمرے میں چلا گیا، ثریا نے ماں سے کہا تھا زاہد آیا ہے، کچھ کھانے کے لئے ہو تو اسے بھی دے دو، ثریا کی ماں نے اسے کھانا دیا اور واپس اپنی بیٹی کے پاس بیٹھ گئی، چند روز کے بعد جب ثریا کی صحت ٹھیک ہونے لگی تو اس کی ماں واپس اپنے گھر چلی گئی اور ثریا اپنا گھر چلانے کے بارے میں سوچنے لگی_
ایک دن زاہد دوپہر کے وقت اٹھا اور گھر سے باہر نکلا تو ایک شخص نے پوچھا کہاں جا رہے ہو، کیا تمہیں اپنے گھر کی کوئی خبر ہے، تم نادان تو نہیں ہو کہ تمہیں بتانا چاہیے، وہ خاموش رہا اس شخص نے زاہد سے کہا کہ اب تمہارے گھر دو بیٹے ہیں، تمہیں اپنے گھر کی فکر کرنی چاہئے، مگر تمہارے لئے افسوس کی بات ہے ہے کہ تم آج کے دور میں بھی جاہل بنتے جارہے ہو، کہیں کچھ کام کر کے اپنے گھر کا سرمایہ چلاؤ، مگر تمہیں سوائے عیاشی کے کچھ نہیں آتا ہے یہ تمام باتیں زاہد نے سنی مگر اسے کچھ بھی اثر نہ ہوا، اور وہ سب کچھ سن کے وہاں سے چلا گیا_
کئی روز تک مسلسل پھر سے اس نے اپنا پرانا معمول اختیار کر لیا کہ رات کو دیر سے آئے اور صبح دیر سے جاگے اور گھر کی فکر نہ ہو ہو جب حالات اور تنگدست ہونے لگے تو ثریا نے کہا کہ آپ کچھ کام کر کے گھر کا سامان لائیں_ تا کہ اس حال سے ہمیں نجات حاصل ہو وہ یہ بات سن کے چپکے سے اٹھا اور باہر چلا گیا، تھوڑی دیر کچھ سوچنے کے بعد اپنے قرب و جوار کے کسی ایک شخص جس کا نام عادل تھا اس کے پاس گیا، اور اس سے چند پیسے ادھار لیے اور دوسرے شہر چلا گیا، کافی عرصہ تک اس نے گھر کا رخ نہ کیا، ادھر گھر پہ ثریا اس کا انتظار کرتی رہتی کہ وہ کمانے کے لئے گیا ہے آ جائے گا آج یا کل آئے گا اور سامان لائے گا، مگر ایسا کچھ بھی نہ ہوا آخر کار ثریا نے اپنے گھر کا سرمایہ چلانے کے لئے اسی شہر میں کچھ لوگوں کے گھروں میں کام کرنے لگی، کچھ گھروں کے مالک اسے پیسے دے دیتے اور کچھ گھر کا سامان لے کر دے دیتے، اب ثریا کا گھر اچھے طریقے سے چلنے لگ گیا، اور اس کے پاس پیسے بھی جمع ہوگئے اور آہستہ آہستہ ثریا اپنے لئے گھر کی اشیاء بھی خرید کے رکھنے لگی اور اپنا گھر سنوارنے لگی_
چند ماہ کے بعد عیش و عشرت میں زندگی گزارنے کے بعد جب زاہد گھر واپس آیا تو اس نے کہا کہ میں آج مرغا کھانا چاہتا ہوں، تو ثریا نے کہا جاؤ بازار سے لے آؤ، میں پکاؤں گی اور ہم سب مل کے کھائیں گے، یہ سن کے زاہد کے تیور بدل گئے، وہ اٹھا اور اندر گیا ادھر اُدھر ڈھونڈنے کے بعد اس نے ثریا کے سرہانے کو اوپر اٹھایا اور اسے وہاں پر پیسے دکھائی دیے_ اس نے وہ پیسے اٹھائے اور خود بازار چلا گیا وہاں جا کے اس نے ان تمام پیسوں کا اچھا خاصا کھانا کھایا اور خالی ہاتھ واپس گھر آ کے آرام سے سو گیا
ایک عقل مند لڑکی ہونے کے ناطے ثریا نے اپنے گھر کو بنانے کے لئے اپنا سب کچھ صرف کر دیا، مگر ایک جاہل شوہر ہونے کی وجہ سے زاہد نے سب کچھ تباہ کرنے کی کوشش جاری رکھی، اب جب ثریا کی زندگی میں یہ تمام رنج و غم یکساں آنے شروع ہو گئے، تو اس نے سوچا کہ اس زندگی سے موت ہی بہتر ہے، اور مجھے اس جاہل سے آزادی دلانے کا واحد یہی راستہ ہے کہ میں خود کو ختم کر دوں، مگر رات کے وقت سوچتے سوچتے اسے خیال آیا کہ اگر میں نے ایسا کر دیا تو کل میرے بچوں کا کیا ہوگا، یہ تو ابھی اپنا اچھا برا بھی نہیں جانتے، مجھے اپنے بچوں کے لئے کچھ بھی کرنا ہوگا، اگر چہ مجھے کسی کے گھر میں برتن کیوں نہ مانجنیں پڑیں، اس رات ثریا نے اپنا قدم آگے بڑھایا اور یہ عہد کیا کہ میں اپنے بچوں کے لئےا جئیوں گی، اور انہیں اعلیٰ تعلیم دوں گی چونکہ تعلیم ہی وہ واحد راستہ ہے جس سے یہ جہالت دور ہوسکتی ہے_
ثریا نے اپنی تمام تر محنت اپنے بچوں پر کی اور بڑی محنت اور مشقت کے ساتھ اپنا وقت گزار کر اپنے بچوں کو پڑھا لکھا کر استاد کے عہدے تک پہنچا دیا_ آج وہی بچے ثریا کو چین کی زندگی بسر کروا رہے ہیں
