تحریر:ایس معشوق احمد
یہ ان حسین دنوں کا ذکر ہے جب بچولیا ہمارے گھر کے چکر اور ہم حسیناؤں کے اردگرد پروانے کی مانند چکر لگایا کرتے تھے۔ہمارے یہ چکر بے سود ہی رہے کہ پروانہ جان تو دیتا ہے لیکن شمع کے ساتھ حسین پل گزارنے سے قاصر ہی رہتا ہے۔ہم الگ ہی ایک عدد محبوبہ کی تلاش میں تھے ،گھر والے سگھڑ بہو اور بچولیا امیر گھرانہ ڈھونڈ رہا تھا جہاں اسے خوب خرچہ پانی ملے۔ایک بات یقینی تھی کہ پریشان ہم ہی تھے کبھی تلاش میں ، کبھی سوالات سے اور کبھی ملاقاتوں سے جو ہم بچولیا کے ساتھ روز ہی کیا کرتے تھے اور جن کی بدولت لوگوں کی نگاہوں میں ہم مشتبہ ہوچکے تھے۔طرح طرح کی باتیں ہمارے کان بھی سنتے تھے ۔کوئی کہتا کہ ماڈرن زمانہ ہے کون بے وقوف اور اندھی اس شکل کو روز دیکھ دیکھ مرنے کو تیار ہوجائے گی ،کوئی طعنہ دیتا کہ کنوارا ہی مرے گا اور کسی کسی سے ہم نے یہ مفید مشورہ بھی سنا کہ آوارہ کو بیٹی کون دے گا اس سے بہتر ہے تم کوئی ڈھنگ کا کام کرو تاکہ باپ کو بہتر یہ لگے کہ وہ بیٹی کو دریا میں پھینکنے کے بجائے تمہارے پلے باندھ دے۔ ایک روز سخت گرم دوپہر میں آدھ ننگا بچولیا جس نے گرمی کی وجہ سے ٹوپی تک اتار دی تھی ہم سے ملنے آیا اور باآواز بلند سوال کیا شادی کرو گے؟ ۔ہم نے بھی اتنی زور سے ہاں کہا جیسے وہ بہرا تھا۔بچولیا نے ہمیں ایسے دیکھا جیسے سنسار کوئی زیور خریدتے وقت اسے گہرائی سے دیکھتا ہے۔جب جی بھر دیکھ چکے تو بولے پڑھے لکھے ہو؟
مرزا میرے پاس بیٹھے تھے سوال سن کر بیدار ہوئے اور میرے بدلے جواب دیا کہ صاحب دن بھر تو پڑا رہتا ہے اور جہاں تک لکھنے کا سوال ہے کسی حسینہ کو دیکھ لے تو ہاتھ خود بخود قلم کی طرف بڑھتا ہے اور کاغذ کی پرچی پر اپنا فون نمبر بڑے سلیقے سے صاف اور روشن حروف میں لکھ کر پرچی اس کی طرف پھینک دیتا ہے۔
میرے کارناموں کی تفصیل سننے کے بعد بچولیا نے اپنا گنجا سر کھجایا اور پھر اپنا منہ کبھی نہ دکھایا۔
آفتیں ،مصیبتیں ، حادثات ہی اچانک وقوع پذیر نہیں ہوتے بلکہ موت اور شادی بھی ناگہاں ہے۔ کچھ مدت کے بعد اچانک ہی ہم جال میں معصوم پرندے کی طرح پھڑ پھڑانے لگے۔
صاحبو ! شادی سے پہلے ہمارے لاکھوں ارمانوں تھے اور سینکڑوں تمنائیں۔ہمیں کیا خبر تھی کہ جس قیامت کا ہم تذکرہ سن رہے ہیں وہ واقعی بھیانک ہوگی۔شادی سے پہلے ہم بادشاہ تھے اور ہماری سلطنت میں فقط ہمارے حکم کا سکہ چلتا تھا، ہم شیر تھے اور ہر طرف ہماری بہادری کے چرچے تھے ، ہم اپنی مرضی کے مالک تھے اور ہمیں اپنی مرضی سے سونے ، جاگنے ، اٹھنے ، بیٹھنے کی آزادی حاصل تھی ، ہم صحت افزاء مقامات کی سیر کرتے تھے ، ہم ناچتے گاتے تھے ، ہم آزاد تھے اور آزادی کا مطلب اور قدر یا قیدی کو ہوگی یا شادی شدہ کو۔صاحبو ! ہم جو بھی تھے شادی سے پہلے تھے ۔شادی کے بعد ہم بھی ویسے ہی ہوئے جیسا تمہارا حال ہے۔مرزا کہتے ہیں کہ بھید اور مصیبت کا تذکرہ کرنے سے شامت آتی ہے اس لیے خاموشی ہزار نعمت ہے۔