تحریر:فاضل شفیع بٹ
رمضان المبارک کا چاند مغرب میں بس غروب ہونے ہی والا تھا۔ بازاروں میں کافی گہما گہمی تھی۔ لوگ جوش و خروش کے ساتھ خرید فروخت کرنے میں محو نظر تھے۔ مسجدوں میں لاؤڈ سپیکروں پر رمضان کی آمد کا اعلان جاری تھا۔ گوشت فروشوں کی دکانوں پر لمبی لمبی قطاروں میں لوگ اپنی اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے۔ گھر کی عورتوں نے سحری کے لیے تیاریاں شروع کی تھیں۔ رمضان کی آمد کے ساتھ ہی نماز تراویح پڑھنے کا عمل شروع ہونا باقی تھا۔ کل سے رمضان کا متبرک مہینہ شروع ہونے والا تھا۔ احمد پور کی فضا میں ماہ رمضان کی مہک تحلیل ہو رہی تھی۔ تراویح کی نماز ادا کرنے میں محض چند گھنٹوں کا فاصلہ تھا لیکن احمد پور گاؤں کی آزاد کالونی کے لوگ ابھی اس کام کے لیے کسی بھی طرح سے تیار نہ تھے کیونکہ ان کے پاس مسجد نہیں تھی۔ حالانکہ آزاد کالونی کے چاروں طرف عالیشان گھر تعمیر کیے گئے تھے۔ مصروفیات کی وجہ سے شاید یہاں کے لوگ مسجد کی طرف اپنی توجہ مبزول کرنے سے قاصر رہے تھے۔
آزاد کالونی کے دو نوجوان واجد اور شبیر کافی دل ملول نظر آرہے تھے۔ ان کے چہروں پر مایوسی کے تاثرات صاف صاف جھلک رہے تھے۔ وہ آپس میں گفتگو کرنے میں محو تھے۔
” شبیر، کل سے ماہ رمضان کا متبرک مہینہ شروع ہونے والا ہے اور ہم ہیں کہ ہمارے محلے میں مسجد ہی نہیں ہے۔ اب میں بول بول کے تھک چکا ہوں لیکن آزاد کالونی کے لوگ ٹس سے مس نہیں ہوتے۔ کیا ان کے دلوں میں ایمان اور خوف خدا نام کی چیز موجود نہیں ہے؟” واجد کا لہجہ تیکھا تھا
” واجد، میں آپ کی بات سے پوری طرح متفق ہوں۔ آزاد کالونی میں ایک سے بڑھ کر ایک خوبصورت گھر ہے۔ لوگ گھروں کو سجانے کے لیے پانی کی طرح پیسے خرچ کر رہے ہیں اور جب مسجد تعمیر کرنے کی بات آتی ہے تو ہیلے بہانے کر کے یا فرقہ پرستی کے نام پر ہمیشہ اس بات کو ٹالا جاتا ہے۔ لیکن ہمیں کچھ کرنا ہوگا۔ ہم ایک عارضی مسجد کا انتظام تو کر ہی سکتے ہیں۔ میرے صحن میں جو ٹین کا بنا بنایا شیڈ ہے، ہم اسی میں نماز ادا کریں گے” شبیر نے قدرے اطمینان سےواجد سے مخاطب ہو کر کہا۔
” ہاں شبیر بھائی۔ یہ تو ہم کر ہی سکتے ہیں۔ پھر دیر کس بات کی” واجدنے پر جوش انداز میں شبیر سے کہا۔
دونوں مل کر ٹین کے بنے ہوئے شیڈ کو ترتیب دینے لگے۔ شیڈ سے کوڑا کرکٹ ہٹا کر، گھر سے پرانے ٹاٹ اور کمبل وغیرہ کا انتظام کیاگیا۔ اس کام میں آزاد کالونی کے چند لوگوں نے بھی حصہ لینا شروع کیا۔آناً فاناً بجلی سپلائی لگوائی گئی۔ ٹین شیڈ کو مسجد میں تبدیل کر لیا گیا۔ چونکہ رات کافی گزر چکی تھی، واجد اور شبیر کی تگ و دو کے باوجود پہلے دن آزاد کالونی کی مسجد میں نماز تراویح کا اہتمام ممکن نہ ہو پایا، چنانچہ سب نے پہلی تراویح کی نماز اپنے گھر پر ہی ادا کی۔
رمضان کا پہلا روزہ تھا۔ واجد اور شبیر کی محنت سے اب آزاد کالونی میں ایک عارضی مسجد کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔ دونوں نے مل کر بڑی مشکل سے ایک مولوی صاحب کا انتظام کیا کیونکہ ماہ رمضان کی آمد کے ساتھ ہی مولوی صاحبان کی ڈیمانڈ کافی بڑھ چکی تھی اور کافی جدوجہد کے بعد واجد اور شبیر کو ایک دارالعلوم سے مولوی صاحب حاصل کرنے میں کامیابی ملی۔ محمد الیاس سترہ سالہ یتیم حافظ قرآن تھا۔
شبیر نے ظہر کی اذان دی۔ آزاد کالونی کی فضا میں یہ اذان پہلی دفعہ گونج رہی تھی۔ لوگ کھڑکیاں کھول کھول کر گھروں کے باہر دیکھنے لگے۔ اس طرح آزاد کالونی میں پہلی مرتبہ ظہر کی نماز باضابطہ طور مسجد میں باجماعت ادا کی گئی۔
افطار کا وقت تھا۔ لوگوں کے گھروں میں دسترخوان بچھے ہوئے تھے جن پر طرح طرح کے پھل، کھجور، دودھ، شربت وغیرہ افطاری کے لیے سجائے گئے تھے۔ محمد الیاس مسجد میں بیٹھ کر افطاری کا انتظار کر رہا تھا لیکن مسجد کی طرف کسی کا دھیان نہ رہا۔ محمد الیاس نے مغرب کی اذان دی اور آزاد کالونی کے لوگ افطار کرنے میں محو ہو گئے۔ شام کی نماز ادا کی گئی۔ اب سوال مولوی صاحب کی رہائش اور کھانے پینے کا تھا۔ مسجد میں ایک اچھی تعداد میں لوگ جمع تھے اور اپنی اپنی تجویز پیش کر رہے تھے۔
” میرے حساب سے مولوی صاحب کا مسجد میں قیام کرنا ہی ٹھیک رہے گا اور رہا کھانے پینے کا سوال تو ہم لوگ اس چیز کی پوری قیمت ادا کرنے کو تیار ہیں” آزاد کالونی میں مقیم سفید لمبی داڑھی رکھنے والے حاجی عبدالحق لوگوں سے مخاطب تھے جو شوگر کے مرض میں مبتلا تھے اور ڈاکٹر صاحب کے کہنے پر بڑی احتیاط سے روزہ رکھنے سے پرہیز کر رہا تھا۔
” حق صاحب نہیں! ہم ایک ٹائم ٹیبل ترتیب دیں گے اور مولوی صاحب اسی ٹائم ٹیبل کے مطابق روزانہ ایک گھر میں رات کا کھانا نوش فرمائے گا اور کھانا کھانے کے بعد مولوی صاحب مسجد میں آکر قیام فرمائے گا اور سحری کے وقت اس عمل کو دہرائے گا” آزاد کالونی کے عمر رسیدہ محمد کریم نے مسجد میں لوگوں کے سامنے اپنی تجویز پیش کی اور اس تجویز پر غور کیا جا رہا تھا کہ شبیر کھڑا ہوا اور کہنے لگا:
” مولوی صاحب کی ساری ذمہ داری میں لیتا ہوں۔ اس کی رہائش اور کھانے پینے کا انتظام میں اپنے گھر پر کر لوں گا۔ آپ سب زحمت نہ کریں۔ مولوی صاحب میرے بھائی جیسا ہے اور اس کو آپ سب پر بوجھ بنتا پسند نہیں کروں گا”
نماز عشاء کی اذان آزاد کالونی میں گونج رہی تھی۔ آج آزاد کالونی کے لوگ پہلی دفعہ تراویح کی نماز باجماعت ادا کرنے جا رہے تھے۔ مسجد لوگوں سے کھچا کھچ بھری ہوئی تھی۔ مولوی صاحب نے تراویح کی نماز شروع کی۔ آٹھ رکعت مکمل ہوتے ہی ایک بڑی تعداد میں لوگ مسجد سے باہر نکل گئے۔ لوگ پسینے میں شرابور تھے۔ ان کے ماتھے پر پسینے کے چھوٹے چھوٹے قطرے ستاروں کی مانند جھلملا رہے تھے۔ شاید انہوں نے اتنی لمبی نماز زندگی میں پہلی بار ادا کی تھی۔ اب مسجد میں مولوی صاحب کے پیچھے چند لوگ نماز پڑھ رہے تھے۔ مسجد کے باہر لوگ مولوی صاحب، واجد اور شبیر کو بری طرح کوس رہے تھے ۔حاجی عبدالحق لوگوں سے مخاطب تھا
” توبہ توبہ! اتنی لمبی نماز! میری بات مان لیں اس مسجد میں صرف آٹھ رکعت تراویح کا اہتمام ہوگا۔ محض آٹھ رکعت نماز ادا کرنے میں مولوی صاحب نے پورا ایک گھنٹہ لیا۔ ہمارا فرقہ بھی بیس رکعت تراویح کی قطعی اجازت نہیں دیتا ۔ اگر اس کام کے لیے ہمیں مولوی صاحب بھی تبدیل کرنا پڑا تو میرے حساب سے کوئی حرج نہ ہوگا”
بالکل صحیح ! بالکل صحیح! مسجد کے باہر ملی جلی آوازوں نے حاجی عبدالحق کی بات سے اتفاق کیا اور اپنے اپنے گھروں کی جانب چل دیے۔
رمضان کا چوتھا روزہ تھا۔ بہار کا پرسکون سورج مسجد کے اوپر چمک رہا تھا۔ ظہر کی اذان فضا میں تحلیل ہو رہی تھی۔ نماز ظہر کے بعد آزاد کالونی کی عارضی مسجد میں ایک ہنگامی میٹنگ کا انعقاد کیا گیا۔ میٹنگ میں آزاد کالونی کے معزز اور عمر رسیدہ لوگ شامل تھے۔
حاجی عبدالحق کو مسجد کا صدر منتخب کیا گیا۔ ساتھ میں یہ بھی فیصلہ لیا گیا ہے کہ شبیر نے جو ٹین کا شیڈ مسجد کے نام پہ وقف کیا ہے، وہ اب آزاد کالونی کے لوگوں کی ملکیت ہے جہاں مستقبل میں ایک نئی مسجد تعمیر کی جائے گی۔
واجد اور شبیر کی غیر موجودگی میں یہ فیصلہ لیا گیا تھا۔ وہ دونوں مسجد کے لیے کچھ ضروری سامان کی خرید و فروخت کے لیے بازار گئے تھے۔
سورج نے دھیرے دھیرے غروب ہونا شروع کیا تھا۔ سنہری رنگ کی کرنیں ہر سمت پھیلی ہوئی تھی۔ افطار میں چند منٹ باقی تھے۔ مسجد کے باہر ملی جلی آوازوں کا شور بلند ہو رہا تھا۔ بہت سارے لوگ ایک ساتھ جمع ہوئے تھے۔ واجد اور شبیر کے اوپر کئی طرح کے الزامات عائد کیے جا رہے تھے۔ حاجی عبدالحق نے ایک زوردار دھکا دیکر شبیر کو ایک طرف کیا اور کہا,
” تم نے کس سے پوچھ کر اس مولوی صاحب کا انتخاب کیا تھا۔ یہ نابالغ ہونے کے ساتھ ساتھ ہمارے فرقے سے بھی تعلق نہیں رکھتا۔ تمہاری من مانیوں کو ہم ہرگز برداشت نہ کریں گے اور ہاں ایک بات کان کھول کر سن لوکہ جو یہ مسجد ہے، اب ہماری ملکیت ہے کیونکہ تم نے اس زمین کو مسجد کے لیے وقف کیا ہے اور اب اس زمین کے ٹکڑے پر تمہارا کوئی حق نہیں ہے۔ تم نے یہ مسجد بنا کر ہم سیدھے سادھے لوگوں کے فرقے کو گہری ٹھیس پہنچائی ہے۔ تم سمجھتے ہو کہ آزاد کالونی کے لوگ بھی تمہارے فرقہ سے وابستہ ہو جائیں۔ ایسا کبھی نہیں ہو سکتا” حاجی عبدالحق کا لہجہ تند اور تیکھا تھا۔
” حاجی صاحب، ماہ رمضان کی آمد کے ساتھ ہی اپ اپنا فرقہ کیوں تبدیل کرتے رہتے ہیں۔
ہم نے محض باجماعت نماز کا اہتمام کرنے کے لیے اس عارضی مسجد کا قیام عمل میں لایا۔ہم مسلمان ہیں۔ نماز ہم پر فرض کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ ہمارا کوئی مقصد نہیں ہے۔ رہی مولوی صاحب کی بات وہ ایک یتیم حافظ قرآن ہے۔ دارالعلوم سے بڑی منت سماجت کے بعد ایک مہینے کے لیے اس کو امامت کے لیے لایا ہے۔ نہ ہم نے آٹھ رکعت کی ہی بات کی اور نہ ہی بیس رکعت کی۔ جس کی جو مرضی وہ پڑھ لیں لیکن نماز کا اہتمام کریں۔ باقی میں نے یہ ٹین شیڈ عارضی مسجد بنانے کے لیے اپنی مرضی سے وقف کیا ہے۔ اس پر اپ کا کوئی حق نہیں بنتا اور ہاں اس عارضی مسجد بنانے میں کم سے کم تیس ہزار روپے خرچ ہوۓ جو کہ ابھی تک قرض ہیں۔ صدر صاحب آپ کی بڑی مہربانی ہوگی کہ لوگوں سے چندہ اکٹھا کر یں تاکہ ہم اس قرض کو ختم کر دیں” شبیر کی آواز میں رقت تھی۔
” اپنی بکواس بند کر۔ میں اس مسجد کا صدر ہوں۔ میرا فیصلہ آزاد کالونی کے ہر فرد پر مسلط ہے۔ آج سے اس مولوی صاحب کے پیچھے ہم ہرگز نماز ادا نہ کریں گے بلکہ آج شام سے ہی محمد رحیم امامت کے فرائض انجام دیں گے۔ ہم اٹھ رکعت تراویح محض چند منٹوں میں ادا کریں گے۔ رہی بات آپ کے خرچے کی، وہ تم اور واجد جانو۔ کیا تم لوگوں نے ہم سے پوچھ کے کوئی بھی کام کیا تھا؟ ہمیں تم دونوں کے اہل خانہ کے ساتھ معاشرتی مقاطعے کے لیے مجبور مت کرو۔ تم اپنا فرقہ سنبھالو اور ہم اپنی مسجد۔” حاجی صاحب پسینے میں شرابور زور زور سے چلا رہا تھا۔
ہر طرف مغرب کی اذان بلند ہوئی ۔ جمع شدہ لوگ مسجد میں داخل ہوئے۔ واجد ، شبیر اور مولوی صاحب کو مسجد سے باہر نکال دیا گیا۔ آزاد کالونی کے لوگوں نے محمد رحیم کی امامت میں مغرب کی نماز ادا کی۔
حاجی عبدالحق کی صدارت میں آزاد کالونی کے عوام نے شبیر کے عارضی ٹین شیڈ پر شرعی ہلا بول کر اسے اپنی تحویل میں لیا اور ماہ رمضان کے اختتام کے ساتھ ہی اس پر ایک بڑا تالا چڑھا دیا گیا۔
واجد اور شبیر مزدوری کر کے مسجد کا قرض ادا کر رہے ہیں اور وہ اپنے کیے ہوئے پر آج بھی پچھتا رہے ہیں۔ ہر سال ماہ رمضان کی آمد کے ساتھ ہی اس عارضی مسجد کا تالا کھولا جاتا ہے اور آج تک آزاد کالونی کی بستی میں ایک نئی مسجد کے تعمیر کا کام شروع نہیں ہوا ہے۔