تحریر:رشید پروینؔ سوپور
تھاجنہیں زعم وہ دریا بھی مجھی میں ڈوبے
میں کہ صحر ا نظر آتا تھا سمند ر نکلا
میں نہیں جانتا کہ احمد فرازؔ نے یہ شعر کس پسِ منظر میں کہا ہے لیکن میرا یقین ہے کہ مرحوم سیفیؔ سوپوری کی شخصیت ۔ کے لئے اس سے اچھا اور کوئی شعر میری نظروں میں نہیں جو اس کی ہمہ جہت علمی ، ادبی اور اور ہر لحاظ اور ہر زاوئے سے بڑی شخصیت کا احاطہ کرتی ہو ۔ نام سیف الدین اور سیفیؔ تخلص کیا کرتے تھے ۔۱۹ جنوری۱۹۲۲ میں مولانا غلام رسول مسعودی کے گھر پیدا ہوئے جو ایک بلند پایہ عالم دین تھے اور جنہیں سوپور میں ایک اپنا الگ مقام حاصل تھا ۔ان کی جائے ولادت حاتی شاہ سوپور ہے اور اگر چہ اس محلہ میں اکثریت قصاب گھرانوں کی ہے لیکن ایک اچھی خاصی تعداد مسعودی خاندان کی بھی ہے جو بڑی مدت سے اسی محلے میں بودو باش اور دینی تعلیم سے عوام ا لناس کو منور کرتے رہے ہیں۔ ُاس زمانے میں جب مسلم گھرانوں میں تعلیم کا نہ تو کوئی اہتمام تھا اور نہ ہی تعلیم کی طرف کوئی خاص توجہ مبذول رکھی جاتی تھی بلکہ تعلیم کی اہمیت اور افادیت سے مسلم اکثریت یکسر بیگانہ ہی تھی. سیف الدین نے لاہور سے میٹرک کا امتحان امتیازی درجے سے پاس کیا ، اس بات سے یہ اندازہ آسانی سے لگایا جاسکتا ہے کہ سیف الدین کے اندر تعلیم کی کتنی پیاس رہی ہوگی اور ان کے والد صاحب بھی تعلیم کی اہمیت سے کس قدر واقف اور آشنا رہے ہوں گے اس کے بعد سیفیؔ صاحب نے تعلیم دین کی خاطر امرتسر مدرسیہ نصرت اسلام کالج میں داخلہ لیا جہاں انہوں نے عربی اور فارسی میں آنرز کیا اور اس کے بعد لاہور یونیورسٹی سے ہی ۱۹۴۸ میں بی اے کی ڈگری حاصل کی ، محکمہ تعلیم میں استاد ہوئے ، ہیڈ ماسٹر ہائی سکول سوپور رہے ، پرنسپل ہائر سیکنڈری ہندوارہ سوپور اور بانہال رہے۔ اس کے بعد تحصیل ایجو کیشن آفیسر اور پھر جلد ہی ڈسٹرکٹ ایجو کیشن آفیسر اور آخر پہ ڈپٹی ڈائریکٹر نان فارمل ایجو کیشن ریٹائرڈ ہوئے ۔ان کی ریٹائرمنٹ فروری ۱۹۷۷ء میں ہوئی ، یہ محکمہ تعلیم میں ان کا سفر رہا .،آغاز سے انجام تک ، لیکن اس سفر کا احاطہ محظ چند جملوں میں بھی یوں کیا جاسکتا ہے کہ وہ ایک ٹیچر سے لے کر اعلیٰ عہدے تک منزلیں طئے کرتے گئے اور ۔میرے خیال میں بہت سارے اور بھی استاد یہ منزلیں طئے کر چکے ہیں ۔ پھر سیف الدین سیفی ؔ مرحوم کو ان ہزار ہا اساتذہ سے کیا چیز الگ کرتی ہے ؟ یا یوں کہ آج سیفی ؔصاحب کے انتقال کے مو قعے پر ایسا کیوں کہا جارہا ہے کہ ایک درخشاں باب بند ہوا ، اس کی اپنی ایک دلیل ہونی چاہئے، سیفی ؔ ۔شاعر تھے ، اس کی شاعری کی تعریف بھی ہوئی ہے اور پذیرائی بھی ، کشمیر کے اچھے شاعروں میں گنے جاتے ہیں اور محقق اور تجزیہ نگار ۔تنقید نگار اور فن کو ادبی کسوٹی پر پرکھنے والے یقینی طور پر ان کے فن اور ان کے شعری مجموعے ۔صحرا صحرا ۔ کو وہ مقام دیںگے جس کی یہ شاعری اور کلام مستحق اور حقدار ہے ، اور مجھے یہ امید ہے کہ ان کی شاعری اور ان کا کلام بھی یقینی طور پر ان کی ہمہ جہت شخصیت ہی کا عکس ہوگا۔ ۔ یہ بھی ایک کشمیری زباں کے شاعر کے لئے ایک شان اور احترام کی بات ہے کہ اگر کوئی کشمیری شاعر اردو اہل زباں شاعر اور ادیب کے ہمرکاب ہوجاتا ہے ۔ اس کے لئے یہ بھی بہت بڑا اعزاز سمجھا جائے گا کہ وہ اوریجنل شاعر کی حثیت سے اہل زباں میں شامل ہو سکے۔ اس لئے کہ کسی دوسری زباں میں ہم اپنے مافی الضمیر کے پیکر ا تنی آسانی ، اتنی فصاحت و،بلاغت اور روانی کے ساتھ نہیں تراش سکتے ۔ ۔سیفی ؔ کی عظمت اس بات میں تھی کہ وہ ایک رئیل سکالر تھے اور جب میں سکالر کی بات کرتا ہوں تو میر ے نقطہ نگاہ سے سکالر کوئی اور چیز ہے ، اور ڈگری کوئی اور بات ہے ۔ آج کل ہر پی ایچ ڈی پر شاید سکالر ہونے کا اطلاق ہوتا ہے اور میں دنیا کے سینکڑوں ان عظیم اشخاص کو یاد کرتا ہوں جو کہیں سے بھی سند یافتہ نہیں تھے ، لیکن ان پر سینکڑوں آدمیوں نے پی ایچ ڈی کیا ،جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ سارے لوگ خود اپنے آپ میں اداروں اور دانش گاہوں کی حثیت رکھتے تھے جن کے اندر سے دانش ، علم و ادب کے چشمے پھوٹتے رہے ، علم و آگہی کا سر چشمہ تھے یا منبع تھے اور پیاسے ان چشموں سے بقدر صلاحیت اپنی پیاس بجھایا کرتے ہیں ،میں نے یہ بات اس لئے کی ہے کہ ہمارے نئے شعرا کی ایسی ایک کھیپ تیار ہورہی ہے جو اپنی غزلوں میں اس طرح کے ردیف و قافئے سے شعر باندھتے ہیں ہوا نہ ملا۔ شفا نہ ملا ، دوا نہ ملا ،وفا نہ ملا ، اور اس پر ستم ظریفی یہ کہ جس اخبار کے ادب ایڈیشن میں یہ غزل آئی تھی اس کے ترتیب کا ر بھی پی ایچ ڈی ہی تھے ۔ میں بصد خلوص نحویؔ صاحب کی اس بات سے اتفاق کرتا ہوں جو انہوں نے اپنی بصیرت انگیز تقریر میں سیفیؔ صاحب کے چہارم پرکی اور فرمایا۔ کہ’’ علمی چشمے سوکھ رہے ہیں‘‘۔سکالرس کے نام پر ایک عجیب سی، بے ہنگم سی اور علم و ادب سے دور سکالرس کے بھیس میں ایک عجیب مخلوق مارکیٹ میں لائی جا رہی ، ابھی حال ہی میں ایک اردو ٹیچر کی اسامی کے لئے ایک پی ایچ ڈی صاحبہ بھی تشریف فرما تھیں ، جنہوں نے اپنی سات جملوں کی درخواست میں نو غلطیاں کیں تھیں ۔ بہر حال یہ بات نحویؔ صاحب کے خیال کو سند عطا کرتی ہے لیکن یہ سوال بھی پیدا کرتی ہے کہ ایسے سکالرس کہاں سے قالبوں میں ڈھل کر آجاتے ہیں؟ ۔ اور کیوں آجاتے ہیں ؟۔۔ سیفی ؔ ایک شاعر ہی نہیں ، ایک ماہر تعلیم ہی نہیں ایک بہتر ایڈ منسٹریٹر ہی نہیں جیسا کہ ان کی زندگی پر انکے چہارم پر دانشوروں نے اپنی تقاریر میں فر مایا ، میں سمجھتا ہوں کہ خود پی ایچ ڈی نہیں تھے لیکن درجنوں محقق مختلف نقطہ ہائے نگاہ سے ان پر تحقیق کرسکتے ہیں اور پھر بھی اور آگے بڑھنے کے مواقع ہوں گے ، ۔ دیکھا جائے تو وہ سب بھی پی ایچ ڈی نہیں تھے جن پر ہزاروں ادیبوں اور دانشوروں نے تحقیق کرکے یہ ڈگریاں حاصل کی ہیں ، میر ؔ و غالب کسی یونیورسٹی سے سند یافتہ نہیں تھے ، بس اپنے آپ میں سکول آف تھاٹ تھے اور اس لئے ان پر تحقیق دوسرے لوگوں کے علمی تاج میں پی ایچ ڈی کے ۔پر۔ سجاتی رہی ہے ، سیفیؔ صاحب خود ایک سکول آ ف تھاٹ تھے ، وہ سکالر تھے، اور جب میں سکالر کی بات کرتا ہوں توبس اس سکالر کی بات کرتا ہوں جو خودسر چشمہ ہو ،جو خود ایک سمندر نہ سہی لیکن ایک دریا کی طرح ضرور ہو ۔ اور خود ایک ایسا منبع ہو جہاں سے علم و آگہی کے سوتے پھوٹتے ہیں،سیفی ؔ صاحب مر حوم ،اردو ، عربی ، کشمیری ان زبانوں پر مکمل دسترس رکھتے تھے۔ لیکن حیرانگی کی بات یہ ہے کہ انگریزی زباں میں وہ کسی بھی بر طانوی اہل زباں سے کسی طرح کم نہ تھے اور اس لحاظ سے وہ انگریزی کے مزاج شناس کہے جاسکتے ہیں ، انگریزی ہزاروں اور لاکھوں لوگ بول اور لکھ سکتے ہیں لیکن اہل زباں کے ہم پایہ ہونا بہت بڑی بات ہوتی ہے اور یہ ہر بڑے ڈگری یافتہ شخص کی خصو صیت بھی نہیں ہوتی ۔انہوں نے انگریزی سے کئی بہتر کتب کا ترجمہ اردو میں کیا ہے اور جب یہ بھی کہا جائے کہ ان میں کئی کتب معروف فلاسفی ( وجودیت )سے متعلق ہیں تو یہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ وہ دونوں زبانوں پر یکساں گرفت رکھتے تھے اور یہ بھی کہ فلاسفی ان کا پسندیدہ مضمون تھا ۔ جس سے سیفیؔ صاحب کے علم و آگاہی اور مطالع کا عکس ہماری نظروں کے سامنے آجاتا ہے جو ان کے قدوقامت اور علمی سر چشموں کی خود بخود نشاندہی کرتا ہے ، ان کے علمی تاج میں ایک اور پَر،یہ ہے کہ فارسی سے بھی ۔کیمیائے سعادت ۔ مصنف امام غزالی ؒ ۔ کا کشمیری زباں میں ترجمہ کیا ہے ۔یہ سب تراجم ان کے برادراں کے پاس ہیں اور ماشاللہ اس علمی آفتاب سے ان کی ساری فیملی فیض یاب ہے ۔سب علمی اور ادبی شخصیتیں ذوق و شوق سے مزین ہیں ۔اس لئے انہیں یہ یاد دلانے کی ضرورت نہیں کہ ان سب un published بیش بہا نسخوں کو دھیرے دھیرے مارکیٹ میں لاکر مرحوم کی ان یادگاروں کے مینار قائم کئے جائیں بہر حال سیفیؔ ؔصاحب کے انتقال سے ادبی اور علمی جہان میںایک خلا ضرور پیدا ہوا ہے ، کیونکہ ان جیسی نابغہ روزگار اور لاثانی شخصیتیں سلسلہ روزو شب میں بڑی مدت کے بعد جنم لیتی ہیں ،یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ یہ خلا پُر نہیں ہوتے لیکن ان بلیک ہولز سے نئے آفتاب و ماہتاب ابھر آنے میں زمانے گذر جاتے ہیں ۔
