• Home
  • About Us
  • Contact Us
  • ePaper
جمعہ, مئی ۹, ۲۰۲۵
Chattan Daily Newspaper
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
    • رائے
    • ادب نامہ
    • تلخ وشیرین
    • جمعہ ایڈیشن
    • گوشہ خواتین
    • مضامین
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Chattan Daily Newspaper
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
    • رائے
    • ادب نامہ
    • تلخ وشیرین
    • جمعہ ایڈیشن
    • گوشہ خواتین
    • مضامین
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Chattan Daily Newspaper
No Result
View All Result
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار
Home کالم ادب نامہ

غالبؔ اور سوشل میڈیا

Online Editor by Online Editor
2023-09-24
in ادب نامہ
A A
غالب کی آپ بیتیوں کا تجزیاتی مطالعہ اور موازنہ
FacebookTwitterWhatsappEmail

تحریر:ناصر محمود ملک
سوشل میڈیا کے یقیناً کئی فائدے بھی ہوں گے لیکن ہمیں اس پر کبھی کبھی بہت افسوس ہوتا ہے کہ اس کی وجہ سے ہماری کئی رومانوی روایات زمین بوس ہو گئی ہیں۔ یعنی کیا زمانہ تھا جب عشاق محبوب کی ایک جھلک دیکھنے، اس سے سے ملاقات کرنے اور اس سے ہم کلام ہونے کے لیے سارا سارا دن کوچہ یاراں کے چکر لگاتے رہتے تھے۔ یار لوگ ہمیں بتاتے ہیں کہ اوائل جوانی میں مشکل ترین کام محبوبہ سے ہم کلامی کا شرف حاصل کرنا ہوتا تھا اور یہ اکثر و بیشتر جان جوکھوں کا کام ہوتا تھا۔
استاد صوفی تبسمؔ یاد آتے ہیں : وہ مجھ سے ہوئے ہمکلام اللہ اللہ / کہاں میں کہاں یہ مقام اللہ اللہ۔ یعنی ہفتوں مہینوں وصال یار اور ہمکلام ہونے کی خواہش عشاق حضرات پہ سوار رہتی۔ اور کئی ایک عمر بھر اسی خواہش کو حسرت میں بدلتا دیکھتے ملک عدم سدھار جاتے۔ دیدار محبوب اور اس سے گفتگو کے لیے کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑتے تھے اور اس مقصد کے لیے کیسے صبر و جرات آزما مراحل سے گزرنا پڑتا تھا اس کا اندازہ ہمیں اس زمانے کے عشاق کے حالات زندگی پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے۔ یا پھر ہمیں اس زمانے کے افسانے اور شاعری کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے۔ انہیں اس مقصد کے حصول کے لیے کوچہ جاناں کے کئی متعلقہ اور غیر متعلقہ لوگوں سے واقفیت بنانی پڑتی تھی۔ گھنٹوں اس محلے بے مقصد گھومتے وہاں کی خاک چھاننی پڑتی تھی۔ مصحفی ؔ کا یہ معروف شعر اسی زمانے کے عشاق کی یاد تازہ کرتا ہے :
تیرے کوچے ہر بہانے مجھے دن سے رات کرنا کبھی اس سے بات کرنا کبھی اس سے بات کرنا
اس زمانے میں خط لکھنے کی خوبصورت اور یادگار روایت بھی عام تھی۔ عشاق کے لیے ایک اہم ترین سرگرمی محبوب کو خط لکھنا اور پھر اس کے جواب کا بے چینی سے انتظار کرنا ہوتا تھا۔ اس کے لیے قاصد کا بڑا اہم کردار تھا۔ اپنی بات معشوق تک پہنچانا بڑا چیلنج ہوتا تھا۔ رقعے لکھے جاتے اور پھر تراکیب سوچی جاتیں کہ یہ رقعہ کیسے بحفاظت اس بندے تک پہنچ جائے جس کے لیے وہ لکھا گیا ہوتا ہے۔ نامہ بروں کی ہمیشہ ضرورت رہتی۔ بہت تگ و دو کے بعد کوئی نامہ بر میسر آتا تو پھر ایک اور الجھن درپیش رہتی اور وہ یہ کہ بہت سے کیسز میں نامہ بر رقیب روسیاہ کا روپ دھار لیتے۔ اور کسی اور کے خط اور پیغام پہنچاتے پہنچاتے خود اپنی لائن سیدھی کر لیتے۔ چنانچہ دیکھنے میں آتا کہ نامہ بر ہی عاشق کے مدمقابل آن کھڑا ہوا ہے اور ’رازدان ہی آخر رقیب‘ ٹھہرا ہے۔ پھر اگر کوئی ’نسلی‘ پیام بر مل بھی جاتا تو ایک مسئلہ یہ رہتا کہ کوئی غیر آپ کے جذبات کی حقیقی ترجمانی کیسے کر سکتا ہے اور آپ کی آرزو کو اصلی رنگ میں کیسے پہنچا سکتا ہے۔ استاد آتش ؔ نے اسی الجھن کی طرف کیا خوب اشارہ کیا ہے، کہتے ہیں : پیام بر نہ میسر ہوا تو خوب ہوا / زبان غیر سے کیا شرح آرزو کرتے۔
لیکن یہ ساری خوبصورت رومانوی روایات ’سوشل میڈیا‘ کی آمد کے بعد یکسر دم توڑ گئی ہیں۔ اب نہ محبوبہ کو خط لکھنے کی حاجت ہے نہ کسی با اعتماد قاصد کو تلاش کرنے کی۔ نہ گفتگو اور ہمکلامی کی حسرت میں بدلتی کوئی خواہش موجود ہے اور نہ ہی صبح و شام کوچہ جاناں کے پھیرے لگا نے کی کوئی ضرورت ہے۔ اب یہ سب کام آپ کے اپنے ہاتھ میں ہیں اور سوشل میڈیا کے ذریعے بڑی رازداری سے انجام دیے جا رہے ہیں۔
اس ساری تمہید کا مقصد اس سوال کا جواب تلاش کرنا ہے کہ ہمارے کلاسیک شعراء جن کا بیشتر کلام متذکرہ بالا روایات کی ترجمانی کرتا ہے وہ اگر آج کے دور میں زندہ ہوتے تو کیا وہ ان روایات کی عدم موجودگی کی صورت میں ایسی شاعری کر پاتے۔ ایسے میں میری نظر خاص طور پہ استاد غالبؔ کی شاعری پہ جاتی ہے۔ مرزا نوشہؔ کی شاعری کا ایک قابل ذکر حصہ محبوب کو خط لکھنے، نامہ بر کو بھیجنے، خط اور نامہ بر کی واپسی کا انتظار کرنے، اور محبوب سے بات کرنے کی خواہش جیسے موضوعات پر مبنی ہے۔
اس کی شاعری بتاتی ہے کہ اس کی زندگی کا محور و مرکز محبوب کی ذات ہے۔ وہ ’ساکنان کوچہ دلبراں‘ سے ہی ’غالبؔ آشفتہ سر‘ کا پتہ پوچھتا رہتا ہے۔ غالب ؔ محبوب سے مسلسل رابطہ رکھنے اس خط لکھتے رہنے کا شوقین نظر آتا ہے وہ جرمن ادیب فرانز کافکا کی طرح روزانہ خط لکھنے کا عادی ہے۔ وہ ایک خط کا جواب آنے سے پہلا دوسرا خط لکھنا چاہتا ہے یہ اس لیے کہ اسے معلوم ہے کہ وہ جواب میں کیا لکھے گا۔ اس کے اشتیاق کا عالم یہ وہ نامہ بر کے ساتھ خود ہو لیتا ہے گویا اپنا خط خود ہی پہنچائے گا۔
کبھی وہ اس جنون شوق کی داد طلب کرتا ہے کہ وہ محبوب کے در پہ وہ نامہ بر سے پہلے ہی پہنچ جاتا ہے۔ لیکن اب سوشل میڈیا کے اس دور میں جب کہ نہ خط لکھنے کی حاجت ہے نہ نامہ بر کا قضیہ ہے اور نہ محبوب سے بات کرنا کوئی جوئے شیر لانا ہے۔ تو سوال اٹھتا ہے کہ استاد غالبؔ پھر اس دور میں کیا بیچتے۔ ایسے میں کیا ان کی بیشتر شاعری غیر متعلقہ نہ ہو جاتی۔ کم از کم ان کا یہ شاہکار دیوان تو اس شکل میں موجود نہ ہوتا جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ ان کی تمامتر پذیرائی اسی اردو دیوان کی مرہون منت ہے۔
ایسے میں یقیناً ہم غالبؔ کے ان بے مثال شعروں سے بھی محروم رہتے جن میں اس نے قاصد اور نامہ بر کا ذکر اس کمال انداز سے کیا ہے کہ انہیں اردو ادب کا ایک لازوال کردار بنا دیا ہے۔ غالبؔ کے نامہ بر اور رازداں کثر مقامات پہ اس کے رقیب کا روپ دھار لیتے ہیں چنانچہ ان کے لاجواب تذکرے سے ایک طرف جہاں وہ اپنے خوبصورت اشعار میں اضافہ کرتا ہے وہیں وہ ان ناہنجار نامہ بروں اور راز دانوں کی غیر ذمہ دارانہ حرکتوں کی طرف اشارہ کر کے اپنے قارئین کی بے پناہ اور جائز ہمدردیاں بھی سمیٹتا ہے مثلاً جب وہ کہتا ہے کہ : تجھ سے تو کچھ کلام نہیں لیکن اے ندیم/ میرا سلام کہیو اگر نامہ بر ملے۔
یا پھر۔ ذکر اس پری وش کا اور پھر بیاں اپنا /بن گیا رقیب تھا جو رازداں اپنا۔ تو ایک طرف جہاں ہم ان لاجواب اشعار سے محظوظ ہوتے ہیں وہیں ہم ان ناخلف نامہ بروں کی اس زیادتی پر غالبؔ کے لیے ایک اضافی ’سافٹ کارنر‘ بھی محسوس کرتے ہیں۔ لیکن آپ تصور کریں کہ حضرت غالب۔ ؔ اگر سوشل میڈیا کے اس دور میں رہ رہے ہوتے تو ہمیں ان کی محولہ بالہ بے مثال شاعری پڑھنا کب نصیب ہوتی۔ آپ تصور میں لائیے کہ اگر استاد کے پاس ایپل آئی فون کا نیا ماڈل ہوتا اور اسے محبوبہ سے روزانہ ’ویڈیو کال‘ کی سہولت میسر ہوتی تو کیا وہ اس طرح کے لازوال شعر تخلیق کر سکتا :
مرتے مرتے دیکھنے کی آرزو رہ جائے گی وائے ناکامی اس کافر کا خنجر تیز ہے اور
مرتا ہوں اس آواز پہ ہر چند سر اڑ جائے جلاد کو لیکن وہ کہے جائیں کہ ہاں اور

Online Editor
Online Editor
ShareTweetSendSend
Previous Post

افسانچے

Next Post

بمنہ میں تیز رفتار گاڑی نے خاتون کو کچل ڈالا

Online Editor

Online Editor

Related Posts

خالد

آخری ملاقات

2024-12-22
پروین شاکر کا رثائی شعور

پروین شاکر۔۔۔نسائی احساسات کی ترجمان

2024-12-22
’’میر تقی میر‘‘ لہجے کے رنگ

میر تقی میر کی سوانح حیات ”ذکر میر“ کا فکری اور تاریخی جائزہ

2024-11-17
ونود کھنہ: پشاور سے بمبئی تک

ونود کھنہ: پشاور سے بمبئی تک

2024-11-17
کتاب کا جائزہ: شہلا رشید کی -رول ماڈلز

کتاب کا جائزہ: شہلا رشید کی -رول ماڈلز

2024-11-13
روشنیوں کا تہوار، اردو شاعری کی نظر میں

روشنیوں کا تہوار، اردو شاعری کی نظر میں

2024-11-03
ادبی چوریاں اور ادبی جعل سازیاں

ادب ، نقاد اور عہدِجنگ میں ادبی نقاد کا رول

2024-11-03
موبائل فون کا غلط استعمال !

موبائل فون!

2024-10-20
Next Post
کولگام میں 34 سالہ جوان کو پر اسرار حالت میں مردہ پایا گیا

بمنہ میں تیز رفتار گاڑی نے خاتون کو کچل ڈالا

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

  • Home
  • About Us
  • Contact Us
  • ePaper

© Designed Gabfire.in - Daily Chattan

No Result
View All Result
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
    • رائے
    • ادب نامہ
    • تلخ وشیرین
    • جمعہ ایڈیشن
    • گوشہ خواتین
    • مضامین
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار

© Designed Gabfire.in - Daily Chattan