از:ساقب شعبان
بشیر صاحب کو اپنے دوست کا وہ کہا ہوا جملہ بار بار ستا رہا تھا کہ ہماری بیٹیاں روز کسی نہ کسی درندے کا شکار ہوتی ہیں، اور مفلسی انسان سے کس طرح کے کام کرواتی ہے۔ لیکن کئی دنوں سے وہ کام میں اتنا مصروف ہو گیا کہ یہ بات اس کے ذہن سے خارج ہوگئی۔ بشیر صاحب ایک ریستوران چلاتے تھے جس میں کشمیری وازوان تیار ہوتا تھا ، ہاں وہی وازوان جو شاہی پکوان کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ وہ ایک عمدہ باورچی تھا۔ وہ اپنے کام میں اتنا ماہر تھا کہ لوگ دوٗر دوٗر سے اس کے ہاتھ کا بنا ہوا وازوان چکھنے آتے تھےـ بشیر کی دکان میں کلثوم کی ایک فوٹو لگی تھی جو ایک بڑے فریم میں قدرےخوبصورت طریقے سے مقید تھی ، اس لیے کہ وہ بشیر کی سب سے چھوٹی بیٹی تھی جس سے وہ بے حد محبت کرتا تھا۔ کلثوم اُنہیں پاپا کے بجائے ابوجی کہہ کر پکارتی تھی ۔ بشیر کے دو بیٹے بھی تھے جو کلثوم کی عمر سے چار سال بڑے تھے۔ کلثوم پندرہ برس کی ایک جوان لڑکی تھی وہ یہ نہ چاہتی تھی کہ اُس کے والد اپنے بیٹوں سے بھی پیار کا اظہار کرے ۔اس لیے وہ ہمیشہ بشیر صاحب سے کہتی کہ آپ صرف کلثوم کے ابوجی ہیں اور کسی کے نہیں ۔کتنی محبت تھی کلثوم کو ابوجی کے ساتھ ۔
ہر وقت ان کے گیت گاتی پھرتی ، جب بشیر صاحب صبح تڑکے دکان نکلنے کی تیار ی میں ہوتے ، تو کلثوم ہمیشہ اِسی ضد پر اڑی رہتی کہ ابو جی آپ کام پر نہ جائیں بلکہ مجھے کہیں گھومنے لے چلیں
اپنی لاڑلی بیٹی کا دل رکھنے کے لیے بشیر صاحب کلثوم سے یہ وعدہ کر کے جاتے کہ آنے والے جمعہ ہم دونوں ضرور پہلگام کی سیر کرنے نکلیں گے۔ لیکن بشیر صاحب کو اس بات کا علم نہ تھا کہ آنے والے جمعہ کے قبل ہی اس کو ایسی حقیقت سے آشنا ہونا پڑے گا جو دیکھتے ہی دیکھتے اسکی صفحئہ ہستی مٹا دیگی۔
بدھوار کا دن تھا جب بشیر دکان میں کسی کام میں مصروف تھا۔ اچانک ایک سفید لمبی داڑھی والا آدمی دکان کے اندر داخل ہوا اور اس کے ساتھ ایک کم سن لڑکی تھی۔جو کچھ اُلجھی اُلجھی سی معلوم ہو رہی تھی۔ جب بشیر صاحب ان کو کھانے کے لیے پوچھنے گیے تو اس کی نظر کم سن لڑکی پر پڑگئی۔ بشیر نےبڑے استعجابیہ انداز میں کہا کہ آپ کی بیٹی بالکل میری کلثوم جیسی ہے، یہ بچی میری کلثوم سے بہت ملتی جلتی ہے، ہائے الللہ کتنی پیاری ہے۔۔
وہ آدمی جواب میں دانت چٹکا کر کہتا ہے پیاری نہیں حضور یہ تو میری جان من ہے۔
بشیر شام کو دکان بند کر کے گھر پہنچتے ہی کلثوم کو سینے سے لگا کر زار و قطار رونے لگتا ہے۔