از:نور شاہ
کہا جاتا ہے کہ وہ قلم کار یا فنکار بہت ہی خوش بخت ہے جس نے اپنے ذوق و شوق کے مطابق تخلیقی کام کرنے کی راہ ہموار کرلی۔ اس پس منظر میں مرحوم عبدالرحمان مخلصؔ کا نام اپنے تحریر کر دہ انشائیوں کی بدولت ریاست جموں و کشمیر کی ادبی اور صحافتی دنیا میں ہمیشہ عزت و احترام سے لیا جائے گا۔ وہ افسانے بھی لکھتے تھے اگر چہ ان کے تحریر کر دہ افسانوں کی تعداد زیادہ نہیں ہے۔ ناول بھی لکھا ہے ، خاکے بھی قلم بند کئے ہیں۔ تنقید و تحقیق میں بھی دلچسپی رکھتے تھے لیکن صنف انشائیہ پر انہیں جس قدر قدرت حاصل تھی وہ قابل تحسین و تعریف ہے۔ ان کے انشایئے قاری کو اپنی گرفت میں لیتے تھے۔ ان کی تہہ میں اُتر کر کچھ سوچنے اور سمجھنے پر اکساتے تھے۔ تعلیمی دنیا میں بھی ان کی اپنی ایک الگ پہچان تھی، وہ ایک معتبر استاد بھی تھے۔
جموں کشمیر کے انشائیہ نگاروں میں مرحوم عبدالرحمان مخلصؔ ایک خاص مقام رکھتے ہیں۔ مخلصؔ صاحب اپنے انشائےیوں میں ہمیشہ سماج کے سلگتے موضوعات کو ضبطِ تحریر میں لاتے رہے۔ ان کے تحریر کردہ انشائیوں کی زبان عام فہم اور رواں دواں ہے۔ انداز بیاں ایسا کہ جیسے سب کچھ ہمارے سامنے ہورہا ہے۔ بنیادی طور پر وہ بہت عمدہ اور نفیس اردو لکھتے تھے۔ ان کی تحروروں میں شگفتگی اور سنجیکدگی سے بھر پور رنگ وبو کی کائنات ہے، سوپوری سیبوں کی مٹھاس ہے اور سوپوری مچھلیوں کی مسکراہٹ ہے۔ ان کے تحریر کردہ انشائیوں کو پڑھتے ہوئے کبھی پہاڑی جھرنوں کا مدھر مدھر سنگیت سنائی دیتا ہے اور کبھی ولر جھیل کی گہرائی کے معنی خیز سکوت۔ وہ زندگی کے مختلف پہلوئوں کی عکاسی خوبصورت اور دلچسپ انداز سے کرتے تھے۔ زندگی اور زندگی سے جڑے فلسفہ تشہیر نفاست سے کرتے تھے۔ان کے انشائیوں کے عنوان بھی ہمیشہ پر معنی اور دلچسپ ہوتے تھے۔ چند عنوان دیکھئے:
۱۔ فُٹ پاتھ ڈاکتر ۲۔ پھیرن کو بچائو ۳۔ تکلا غنی ۴۔ بے چارے گنجے۔ ۵۔ کا لا سورج تلاش بادشاہ کی
ایک قلم کار کے لئے بلند تخلیل اور بلند نظریہ ضروری ہیں تاکہ وہ زندگی کے مختلف موضوعات کو جیتے جاگتے روپ میں پیش کر سکے۔ مناسب الفاظ کا استعمال اور جملوں کی بہتر تراش خراش کسی بھی تھریر کو دلچسپ بنانے میں مدد کرتی ہے۔ یہ ساری خوبیاں مرحوم مخلصؔ صاحب کے تحریر کردہ انشائیوں میں بخوبی دیکھی جاسکتی ہے۔ ان انشائیوں میں ان کا علمی مطالعہ اور ادبی تجزربہ نظر آتا ہے۔ ان کے احساسات اور جذبات کی عکاسی ہوتی ہے۔
چند برس قبل یعنی ۲۰۱۱ء میں، میں نے اپنی کتاب ’’جموں کشمیر کے اردو افسانہ نگار‘‘ میں مخلصؔ صاحب کے تعلق سے اپنے تاثرات یوں قلم بند کئے تھے۔
’’عبد الرحمان مخلصؔ کا نام کشمیر کے ادبی منظر نامے پر کئی برسوں سے بڑی تابنا کیوں کے ساتھ نظر آرہا ہے۔ کئی برسوں سے ان کے تحریر کردہ کالم مقامی اخبارات میں تواتر کے ساتھ چھپتے آرہے ہیں۔ ان کے یہ کالم نہ صرف دلچسپ ہوتے ہیں بلکہ معلوماتی بھی۔ ان میں معاشرے کی بھر پور تصویر جھلکتی نظر آتی ہے۔ ان کی زبان معنی خیکز اور اسلوب بہت ہی پر و قار ہوتا ہے۔ ان کے انشائیوں میں آپ بیتی ہوتی ہے اگر چہ وہ تلخ بات شیریں لہجے میں کرتے ہیں لیکن وہ اس بات میں یقین رکھتے ہیں کہ قلمکار وار تلوار کے وار سے بھی زیادہ کاری ہوتا ہے۔ ‘‘
ان دنوں وہ حیات تھے اور میرے تاثرات پڑھ کر مسرت کا اظہار بھی کیا تھا بکہ پڑھنے کے فوراً بعد فون پر کہہ دیکا تھا کہ وہ اس قرض کو اتار نے کی کوشش کریں گے۔ پھر انہوں نے مجھ پر ایک مختصر سالیکن محبت بھر ا مضمون بھی لکھا اور شائع بھی کیا۔ ان کا خلوص دیکھئے میں نے ان کے ناول کا ذکر کیا، چند ہی دنوں بعد وہ میرے گھراپنا ناول لے کر آئے۔ حالانکہ وہ شہر سرینگر بہت کم آتے تھے۔ اس دن میں نے ان کے افسانوں کی بات چھیڑی ، تو کہنے لگے
’’افسانے لکھ کر مجھے وہ ذہنی سکون نہیں ملتا جو انشائیہ لکھ کر ملتا ہے۔ انشائیہ لکھتے وقت جانے کیسے میرے ذہن کی راہیں خود بخود کٹھل جاتی ہیں۔ لفظ خود بخود بولنے لگتے ہیں۔ جب کہ افسانہ لکھتے وقت مجھے ذہن پر دبائو ڈالنا پڑتا ہے۔۔۔‘‘
ان کی ایک عمدہ سی نثر کا اقتباس پیش کرنے کی جسارت کررہا ہوں۔ اس تحریر میں طنز ہے، مزاح ہے اور ایک اہم ادبی معاملے کی نشاندہی بھی ہے۔ اردو زبان وادب کے ساتھ جو بے ادبی دیکھنے میں آرہی ہے اس کی ہلکی سی جھلک بھ ینظر آئے گی۔ اس مختصر سی تھریر میں مرحوم مخلصؔ صاحب کی صلاحیت اور قوت مشاہدہ کی عکاسی بخوبی ملتی ہے۔
’’عرائض نویس نے اپنی عینک کی ٹوٹی ہوئی کمان کو درست کرکے اس کے میلے شیشوں کے اوپر سے میری طرف نظر اٹھائی اور میری رواداد سن کر کاغذ پر قلم گھسیٹنا شروع کردیا۔ کاغذ کے ورق کو گندہ کرکے اس پر ایک روپیہ کا سرکاری ٹکٹ دہن لوہان سے مل کر چسپاں کیا۔ میں نے عرضی پر دستخط کئے اور اس کا جائزہ لیا۔ شاید وہ عرضی اردو میں لکھی گئ تھی کیوں کہ سطردائیں سے بائیں جاتی تھی وگرنہ اس زبان کو کسی بھی صورت میں اردو نہیں کہا جاسکتا نہ صحیح رسم الخط ، نہ گرائمر، نہ املا۔ ظاہر ہے جس زبان کا رسم الخط، گرائمر اور املادرست نہ ہو وہ گالی تو ہوسکتی ہے ، زبان نہیں ۔۔۔!!!‘‘
ملازمت سے سبکدوشی کے بعد انہوں نے اپنے آپ کو سوپور (آبائی علاقہ) کی زرخیزی میں کم کردیا اور ایک طرح سے گوشہ نشینی اختیار کی اور خاموشی سے اپنے قلم کے سہارے زندگی کے مختلف رنگ مختلف روپ اپنے مخصوص انداز میں کاغز پر اتار نے میں مصروف ہوگئے۔ اپنے قلم کو کبھی کسی کے پاس گروی نہیں رکھا بلکہ اپنے آپ کو حقیقت پسندانہ علم و ادب کے لئے وقف رکھا۔ انہوں نے زندگی میں بہت سارے دکھ بھی جھیلے۔ ان کا بڑادکھ خود ان کے جوان بیٹے کی موت سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ ۲۰۰۱ء کی بات ہے۔ یہ ایک بہت بڑا المیہ تھا ان کے لئے۔ اس المیہ کا سارا درد، سارا کرب ان کی تحریروں میں نظر آنے لگا لیکن اس صدمہ کی وجہ سے جانے ان کے کتنے خواب ادھورے روگئے، بے تعبیر رہے۔ ایسے المیے تو ویسے بھی زندگی کو بے ترتیب بنادیتے ہیں۔ اردو تو ان کا ذریعہ اطہار تھا لیکن کھتے وقت کشمیر ی اور فارسی اشعار کا استعمال کرکے وہ ان دونوں زبانوں کے تئیں اپنی محبت اور احترام کا کھل کر اعتراف کرتے تھے۔ کشمیکری تو خیر ان کی مادری زبان تھی۔ ان کی شناخت تھی۔ اپنی مادری زبان سے ان کی محبت اس وقت سامنے آگئی جب ریاست کے معروف شاعر رفیق رازؔ کی کشمیری شاعری کا تجزیہ اردو میں ’’سرشہنائی کے ‘‘ نام سے شائع کیا۔ یہ کام تو خوب سراہا گیا لیکن ان کی حوصلہ افزائی کو نظر انداز کیا گیا۔ ’’سرشہنائی کے ‘‘ سے ایک اقتباس:
’’اگر کوئی رازؔ کی فنی صلاحیتیوں، شاعرانہ اعجاز، بلدنی فکر ، طرز اظہار، پر کاری اور پر گوئی، بے خودی و ہوشیاری اور دوسرے محاسن کو عدیم انفرصتی کی وجہ سے یکجا دیکھنا چاہے تو اسے میرے خیال میں مندرجہ ذیل غزل کا سنجیدہ مطالعہ کرنا چاہئے۔ اس میں رازؔ نے سمندروں کو کوزوں میں بھر دیا ہے۔ کوئی اس غزل کے ساتھ یونہی چھیڑ چھاڑ کرے گا تو لاز ما ڈوب جائے گا۔ شناور ہونے کی صورت میں کوئی پار اتر بھی جائے لیکن اس کا شرابور ہونا لازمی ہے۔ یہ حاصل کلام غزل ہے۔
لامکان واتِتھ کڈن فرمان بیاکھ
تالہِ پیٹھ تھووم ظہری آسمان بیاکھ
یعنی سفر، سفر، سفر میں پیہم سفر۔۔۔ !!
یہ کتاب مرحوم مخلصؔ صاحب نے مجھے ذاتی طور پر دی تھی۔ تاریخ ۱۸ جنوری ۲۰۰۹ء یعنی کتاب شائع ہونے کے آٹھ سال بعد۔۔ ان کے تاثرات دہراتا ہوں۔
’’جناب نور شاہ کی خدمت میں ۔۔۔
ادب و احترام کے ساتھ جوزندگی کے زبردست مصور اور شیدائی ہیں۔ اردو زبان کو نور شاہ جیسے ہزاروں لاکھوں قلم برداروں کی ضرورت ہے لیکن افسوس یہ ہے کہ نور شاہ جیسے اہل قلم اردو ادب کے چمن میں بہت کم اگتے ہیں۔ ‘‘
’’زندگی کے رنگ‘‘ میں کل ۱۱۵ انشایئے ہیں۔ اس کتاب کا انتساب انہوں نے مرحوم پروفیسر جگن ناتھ آزادؔ کے نام کیا ہے۔ ان انشائیوں کے تعلق سے وہ لکھتے ہیں:
’’میں نے معمولی زمینی حقائق کو پیش نظر رکھا ہے اور کوئی بھی بات زمین سے اوپر اٹھ کر نہیں کی ہے۔ میں نے انہی واقعات کو دہرایا ہے جو یا خود میرے ساتھ پیش آئے یا ان کو مجھے باوثوق ذرائع سے یقینی علم ہوا ہے۔ ‘‘
’’زندگی کے رنگ ‘‘ مخلصؔ صاحب مرحوم کے ان تاثرات کے ساتھ مجھے ملی تھی بلکہ ذاتی طور پر مجھے عنایت کی تھی۔
’’جنات نور شاہ کی خدمت میں محبت کے ساتھ اپنا رنگین تحفہ! ‘‘ ان کی تحریروں میں جو تنوع اور رنگینی ہے اس کے پیش نظر ’’زندگی کے رنگ‘‘ ان کی رنگین طبیعت کے ساتھ مل کر ایک اندرونش کا منظر پیش کرے گی۔‘‘
۔۔۔جاری۔۔۔