از:ڈاکٹر شاہد اشرف
عجیب شاعر ہے ایک سرا پکڑتا ہوں تو دوسرا ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔ شاعری اور شخصیت میں یکساں عجائبات حیرت و انبساط کا سبب بنتے ہیں۔ علمی و ادبی گھرانے سے تعلق رکھنے کے باوجود طبیعت و مزاج میں حد درجہ لا ابالی پن عجیب دکھائی دیتا ہے۔ شاعری سے لگاؤ گھریلو ماحول کا نتیجہ تھا۔ پہلا شعر آٹھ سال کی عمر میں کہا، ملاحظہ کیجیے۔
چاہ میں اس کی طمانچے کھائے ہیں
دیکھ لو سرخی مرے رخسار کی
یہ شعر پڑھ کر پہلے ہنسی آتی اور بعد میں داد و تحسین۔ وہ شیعہ گھرانے سے تعلق رکھنے کی وجہ سے اہل بیت سے گہری عقیدت رکھتے تھے مگر کمیونسٹ ہونے کے باوجود اہل بیت سے عقیدت میں کبھی کمی نہیں آئی۔ وسیع المطالعہ انسان تھے۔ مذہب، سائنس، تاریخ، صوفی ازم اور علم النجوم پر دسترس رکھتے تھے۔ ذاتی زندگی تلخیوں سے عبارت تھی اور اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ وہ حد درجہ اذیت پسند انسان تھے۔ زاہدہ حنا سے ان کی شادی زندگی کا خوبصورت واقعہ قرار دیا جا سکتا ہے مگر احساس ذمہ داری نہ ہونے کی بنا پر انھیں تعلق ختم کرنا پڑا۔ ان کی بیٹی بتاتی ہے کہ ایک بار وہ مجھے ساتھ لے کر ایک دوست سے ملنے کے لیے گئے، وہ تادیر گفتگو کرتے رہے۔ اس دوران میں، میں سو گئی۔ رخصت ہوتے ہوئے وہ مجھے بھول گئے اور اکیلے ہی گھر واپس آ گئے۔ اس ایک واقعے سے جون ایلیا کی شخصیت کو سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔ یعنی وہ گھریلو ذمہ داریوں اور ازدواجی معاملات میں لاپروا تھے۔ کیا یہ سب کچھ عجیب نہیں لگتا ہے؟ اس صورت حال کو ہم کیا نام دے سکتے ہیں؟ میں ان کی شاعری کا جائزہ لیتے ہوئے شخصیت کو نظر انداز نہیں کر سکتا ہوں۔ اس وجہ یہ ہے کہ ان کی شاعری بھی فکری اعتبار سے عجائبات کا نمونہ ہے۔ عصری شعراء میں وہ ڈکشن، اسلوب اور موضوع کے اعتبار سے جدا نظر آتے ہیں مگر اس سے بھی زیادہ حیران کن امر یہ ہے کہ وہ اپنی گفتگو میں بھی عجیب و غریب دکھائی دیتے ہیں۔ ایک مشاعرے میں کہنے لگے ”میں نے ایک لڑکی کا خواب دیکھا ہے، جسے میں کبھی نہیں پا سکتا جو اس مجمع میں موجود ہے۔ یہ افلاطون کا معاشرہ نہیں ہے۔ میں بونا شاعر ہوں، جسے بہترین سامع میسر آئے ہیں۔“ ایسی گفتگو براہ راست کرنا سخت عجیب لگتا ہے مگر شخصیت اور شاعری کے تناظر میں جون ایلیا کی باتیں معیوب معلوم ہوتی ہیں اور نہ اس پر حیرت ہوتی ہے۔ جون ایلیا کے علاوہ ایسی گفتگو کا حوصلہ کس شاعر میں ہے؟
جون ایلیا کی شاعری میں عجائبات کی جستجو میں مجھے طویل تمہید باندھنا پڑی ہے۔ اس کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ شاعر پر گفتگو کرتے ہوئے شخصیت پیش نظر رہے۔ مروجہ محبت کے روایتی مضامین کی خوشہ چینی جدید شعرا کے ہاں ملتی ہے۔ کسک، درد، رنج، اذیت اور غم کی کیفیات قدیم و جدید شاعری کا مشترکہ اثاثہ ہے۔ ان مضامین کو نئے انداز سے بیان کرنا کسی خاص عطا کا مرہون منت سمجھا جا سکتا ہے۔ نئے پن میں عجیب تاثر اور بھی مہارت کا مستحق ہے۔ جون ایلیا کا کمال یہ ہے کہ نہ صرف وہ خیال کا زاویہ بدلتے ہیں بلکہ اسے مضمون کی سطح پر قطعی غیر معمولی صورت دے کر حیران کر دیتے ہیں۔ ذرا یہ شعر ملاحظہ کیجیے۔
کم سنی میں بہت شریر تھی وہ
اب تو شیطان ہو گئی ہو گی
کم سنی میں شرارت کا یہ مضمون اردو شاعری میں واحد مثال ہو سکتا ہے۔ یہ مزاحیہ شعر نہیں ہے، اسے پڑھتے ہوئے بھی مزاح کا پہلو سامنے نہیں آتا ہے۔ البتہ خیال کی زیریں سطح پر انوکھے اور اچھوتے نکات ضرور سامنے آتے ہیں۔ ”ہو گئی ہو گی“ کی ردیف نے شعر کے حسن کو دوبالا کر دیا ہے اور اس کی معنویت بڑھ گئی ہے۔ اچھی بھلی غزل جو زبان و بیان، رمز و ایمائیت اور اور الفاظ و تراکیب کا عمدہ نمونہ معلوم ہوتی ہے اس میں ایک شعری منظر چونکنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ قاری غزل کے باقی اشعار کے سحر سے نکل کر چند لمحوں کے لیے حیران ہو جاتا ہے۔ چند اشعار دیکھیے۔
میرے نقش ثانی کو
مجھ میں ہی سے ابھرنا ہے
جو نہیں گزرا ہے اب تک
وہ لمحہ تو گزرنا ہے
اپنے گماں کا رنگ تھا میں
اب یہ رنگ بکھرنا ہے
ہم دو پائے ہیں سو ہمیں
میز پہ جا کر چرنا ہے
جون ایلیا کے علاوہ کسی شاعر میں حوصلہ نہیں ہے کہ ان تین اشعار کے ساتھ آخری شعر کو شامل کر سکے۔ دو پائے انسان کو جانور کی سطح پر لے آتے ہیں۔ شعر بظاہر سادہ ہے مگر اس میں صرف کھانے اور زندہ رہنے والے لوگوں کی بابت جس گہرے طنز کا اظہار کیا گیا ہے۔ اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ ایسے اشعار ان کی غزلوں میں جا بجا مل جاتے ہیں جو عجیب ہی نہیں مضحکہ خیز بھی معلوم ہوتے ہیں۔ ان کی یہ معروف غزل اس خیال کو حد درجہ تقویت پہنچاتی ہے۔
سر ہی اب پھوڑیے ندامت میں
نیند آنے لگی ہے فرصت میں
اپنے حجرے کا کیا بیاں ہو یہاں
خون تھوکا گیا شرارت میں
زندگی کس طرح بسر ہو گی
دل نہیں لگ رہا محبت میں
اور پھر آدمی نے غور کیا
چھپکلی کی عجیب صنعت میں
اے خدا (جو کہیں نہیں موجود)
کیا لکھا ہے ہماری قسمت میں
اس غزل میں ”خون تھوکا گیا شرارت میں“ جدت سمجھ لیا جائے تو پھر بھی چھپکلی کی صنعت پر قاری تا دیر حیران رہتا ہے۔ اس شعر کی تفہیم کے لیے شعرا شرطیں لگاتے تھے اور ممکنہ معانی کے کھوج کی جستجو کرتے تھے۔ ارتقاء سے لے کر چھپکلی کو جلا کر اس کے پاؤڈر کے سگریٹ میں بھر کر پینے تک بحث جاری رہتی تھی۔ ارتقاء کی بابت ہزاروں شعر کہے گئے ہیں لیکن خیال اس طرح ہرگز نہیں باندھا گیا ہے۔ یہی وہ خاص پہلو ہے جو جون کو مختلف، منفرد اور الگ سے قطع نظر عجیب کے منصب پر فائز کرتا ہے۔ چند اشعار دیکھیے۔
اب ببر شیر انتہا ہے مری
شاعروں کو تو کھا چکا ہوں میں
نہیں املا درست غالب کا
شیفتہ کو بتا چکا ہوں میں
ہائے جاناں وہ ناف پیالہ ترا
دل میں سب گھونٹ اترتے رہتے ہیں
کوئے جاناں کی ناکہ بندی میں
اب بسیرا کہاں ہے یاروں کا
ہیں یہ سندھی اور مہاجر ہڈ حرام
کیوں نہیں یہ بیچتے ترکاریاں
تری گلی میں تو کوڑے کے ڈھیر ہیں جب سے
تری گلی میں کمینوں کا کال ہے بھی نہیں
میں جو بیٹا ہوں اک فرنگن کا
جون سنولا گیا ہوں جل جل کے
میں نے ان اشعار کا انتخاب کرتے ہوئے بارہا سوچا کہ ان میں عجائبات کے معنیاتی پہلو سامنے رکھے جائیں۔ تعلی اردو شعری روایت کا حصہ ہے مگر جون کے ہاں اس تعلی کی نوعیت شاعروں کو کھانے پینے کے بعد ببر شیر کو کھانے کی صورت میں ملتی ہے۔ میں سوچتا رہا کہ یہ ببر شیر کون ہے؟ گماں یہی ہے کہ اس کا تعلق کراچی یا لاہور کے ادبی حلقوں سے ہو گا۔ جون کی ادبی شخصیات سے چشمک ہمیشہ رہی ہے اور بعض شعرا کے ساتھ ٹھنی بھی ہے۔ اس تناظر میں شعر کا لطف دوبالا ہو جاتا ہے۔ درجنوں اشعار میں ناف پیالے کا ذکر ذہنی رجحان کی نشان دہی کرتا ہے۔ سندھی اور مہاجر کو ترکاریاں بیچنے کی دعوت قافیے کی مجبوری ہے یا اس میں کوئی راز پنہاں ہے؟ جون اور فرنگن کا تعلق نام کی مطابقت سے پیدا کیا گیا ہے اور خوبصورت معلوم ہوتا ہے۔ غرض درج بالا اشعار میں کوئی نہ کوئی خاص اور عجیب پہلو توجہ کھینچتا ہے اور اسے پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ یہ محض انفرادیت کی کوشش نہیں ہے بلکہ اس میں شخصی اور ذہنی معاملات کارفرما ہیں۔ جب وہ شاید کا دیباچہ لکھ رہے تھے تو وہ سوا دو سو صفحات سے متجاوز ہو گیا۔ بعد میں انور شعور کے مشورے پر کتاب میں تلخیص پیش کی گئی۔
ایک زمانے میں وہ ایک ڈرامہ کلب سے بھی منسلک رہے اس لیے سٹیج پر شعر پڑھتے ہوئے پرفارم بھی کرتے تھے۔ گویا شعر کی تصویر بنانے کی کوشش کرتے تھے۔ انھیں آواز کا زیرو و بم، لہجے کی تبدیلی، ہاتھوں کی جنبش اور چہرے کے تاثرات سے کام لینا خوب آتا تھا۔ مزید اشعار دیکھیے۔
کل دوپہر عجیب سی اک بے دلی رہی
بس تیلیاں جلا کے بجھاتا رہا ہوں میں
پیڑ کی چھال سے رگڑ کھا کر
وہ تنے سے پھسل رہی ہو گی
چاند ہے آج کچھ نڈھال نڈھال
کیا بہت تھک گیا ہے ہرکارہ
چبا لیں کیوں نہ خود ہی اپنا ڈھانچا
تمھیں راتب مہیا کیوں کریں ہم
ہار آئی ہے کوئی آس مشین
شام سے ہے بہت اداس مشین
یہ سمجھ لو کہ جو بھی جنگلی ہے
نہیں آئے گی اس کو راس مشین
ہے خفا سارے کارخانے میں
ایک اسباب نا شناس مشین
پیلے پتوں کو سہ پہر کی وحشت پرسہ دیتی تھی
آنگن میں اک اوندھے گھڑے پر بس اک کوا زندہ تھا
یہ اشعار اپنی معنویت میں کہیں نہ کہیں حیرت کا سامان رکھتے ہیں اور مروجہ شاعری سے الگ نظر آتے ہیں۔ تیلیاں جلانا، تنے کی رگڑ سے گرنا، اپنا ڈھانچا چبانا، اداس مشین ہونا، اوندھے گھڑے پر زندہ کوا اور خاندان میں روکنا ٹوکنا روایتی اور جدید شاعری سے اک قدم آگے کے مضامین ہیں۔ یہاں عجیب ہونا ہی درست عکاسی کرتا ہے۔ اس بات کا ادراک جون ایلیا کو بھی تھا۔ اسی لیے وہ کہتا ہے۔
میں بھی بہت عجیب ہوں اتنا عجیب ہوں کہ بس
خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں
لیکن ایسا بھی نہیں ہے۔ جون ایلیا کو اپنی بربادی کا سخت ملال تھا۔ اس ملال کو کم کرنے کے لیے انھیں مہ کشی کا سہارا لینا پڑا۔ وہ ایسی بیماری میں مبتلا تھے جس کی وجہ سے انھیں برس ہا برس سے نیند نہیں آئی تھی۔ اس کا ذکر انھوں نے اپنے مجموعے شاید کے دیباچے میں کیا ہے۔ جون ایلیا کی شخصیت کو سمجھنے میں یہ دیباچہ مدد فراہم کرتا ہے۔ ان کی ذاتی زندگی کو جاننے میں مدد ملتی ہے اور اس طرح ان کی شاعری کے پس منظر تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔ آخر میں وحدت سے متعلق یہ اشعار دیکھیے اور بطور خاص ردیف پر توجہ دیجیے۔ میں نے موضوع کے لیے صرف غزلیہ اشعار کو پیش نظر رکھا ہے۔ نظمیں کے لیے الگ جائزہ درکا ہے۔
فرقت میں وحدت برپا ہے اللہ ہو کے باڑے میں
آشوب وحدت برپا ہے اللہ ہو کے باڑے میں
بابا الف ارشاد کناں ہے، پیش عدم کے باڑے میں
حیرت بے حیرت برپا ہے اللہ ہو کے باڑے میں
مجھے یاد ہے جب وہ فیصل آباد تشریف لائے تو آرٹ کونسل میں ان کے اعزاز میں مشاعرے کا انعقاد کیا گیا۔ مشاعرے کے بعد رات کو مقصود وفا کے گھر نشست ہوئی۔ اس محفل میں انھوں نے لطیفوں، جملوں اور قہقہوں سے تمام رات جگائے رکھا۔ کسی ایک بات پر وہ اچانک سنجیدہ ہو گئے اور پھر اچھل کر فیضی ( فیصل آباد کے شاعر) کے کندھوں پر بیٹھ گئے۔ ان سے پہلی بار ملنے والے اس منظر کو دیکھ کر پہلے حیران ہوئے اور پھر قہقہے لگاتے رہے۔