تحریر:ڈاکٹر شاہدہ دلاور شاہ
کوئی صورت کوئی تدبیر نکالی جائے
آبرو عشق و محبت کی بچا لی جائے
مشورہ میرا بس اتنا ہے نئی نسلوں کو
اپنے اجداد کی پگڑی نہ اچھالی جائے (بے باک امروہوی)
جب بڑے مر جاتے ہیں تو چھوٹے بڑے ہو جانے کی اداکاری کرنے لگ جاتے ہیں۔ حالاں کہ بڑے مر کر بھی بڑے رہتے ہیں خاص طور پر وہ بڑے جو ٹرینڈ میکر ہوتے ہیں، جو دنیا میں کچھ الگ یا منفرد کردار نبھا کے دنیا سے رخصت ہوتے ہیں، ان کا نعم البدل مشکل سے ملتا ہے۔ جو اپنے اپنے فن کے بے تاج بادشاہ ہوتے ہیں، ان میں سے ہی ایک بڑا نام فہمیدہ ریاض کا ہے۔ فہمیدہ ریاض کا نہ کسی سے کوئی مقابلہ ہے نہ موازنہ۔ وہ اکیلی ہی تھیں اور اکیلی ہی ہیں۔ کچھ تعلیمی ادارے اپنی تدریسی ضرورتوں کے تحت فہمیدہ ریاض کا موازنہ کچھ لوگوں کے ساتھ کرتے ہیں مگر ان سے کلی طور پر اتفاق اس لیے ممکن نہیں کہ فہمیدہ ریاض کی انفرادیت آڑے آ جاتی ہے۔
اکیسویں صدی میں کوئی بھی شخص جو اہل دانش ہے، ایسا نہیں ہے جو فہمیدہ ریاض کی جدو جہد اور نام سے واقف نہ ہو۔ وہ معروف ناول نگار، افسانہ نگار، شاعرہ، مترجم، نقاد، خواتین کے حقوق کی علم بردار، بہادر اور نڈر خاتون تھیں۔ وہ انڈیا کے شہر میرٹھ میں پیدا ہوئیں۔ انہیں اردو، فارسی، سندھی اور انگریزی زبان پر عبور حاصل تھی۔ گھر میں بچپن ہی سے علم و ادب سے واسطہ پڑا۔ والد ماہر تعلیم تھے۔ فہمیدہ اپنی فیملی میں ذہین ترین لڑکی تھیں۔ انھوں نے اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد انگلستان سے فلم کی ٹیکنیک میں ایک ڈپلومہ بھی حاصل کیا۔ لکھنے پڑھنے کا شوق گھر سے چرایا اور ادبی دنیا میں قدم رکھا ان کی پہلی ہی تخلیق اردو کے معروف پرچے ”فنون“ میں طبع ہوئی۔ یوں یہ سفر آگے چل کر ا ن کے شعری مجموعے ”پتھر کی زبان“ تک پہنچا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ براڈ کاسٹر بھی رہیں۔ وہ بی بی سی اردو سروس لندن میں بھی کام کرتی رہیں۔ ان کی آواز کو ان کے رسالے ”آواز“ کی طرح خاموش کروایا جاتا رہا۔
بائیں بازو کی خواتین کے اس گروپ نے جنرل ایوب کے عہد سے ہی مشکلات اٹھانا شروع کر دیں تھیں جب وہ ابھی دھان پان کی مگر مضبوط ارادوں والی خوبرو دوشیزہ تھیں۔ لوگ ان کے حسن و جمال اور تخیلقی صلاحتوں کے دل دادہ تھے۔ وہ شروع سے ہی حق بات پر ڈٹ کر مقابلہ کرتیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب وکلا اور عدلیہ کی تحریک چلی، وکالت میں نہ ہونے کے باوجود بھی انہوں نے اس تحریک میں بھرپور کردار ادا کیا۔ جنرل ضیاالحق کے دور میں انہوں نے انڈیا میں جلا وطنی بھی کاٹی۔ اس کے علاوہ انہوں نے پاکستان کے اردو ادب کے دو بڑے اداروں نیشنل بک فاونڈیشن اور اکادمی ادبیات میں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ فہمیدہ ریاض اپنے عہد میں بھی اور آج بھی اتنی ہی قدآور شخصیت ہیں کہ ان کے جیسی اردو ادب میں کوئی اور توانا عورت نہیں گزری جو معاشرے کے آگے کئی محازوں پر ڈٹ گئی ہو۔ وہ عورت کے استحصال پر جاہل سماج کو رگیدتی رہیں۔ خواتین کے حقوق کی پاسداری کرتے کرتے انہوں نے اپنی زندگی کی آخری شام کی۔ ان کی ایک نظم دیکھیے جس کا نام ہی ”انقلابی عورت“ہے۔ وہ کہتی ہیں :
رن بھومی میں لڑتے لڑتے میں نے کتنے سال
اک دن جل میں چھایا دیکھی، چٹے ہو گئے بال
پاپڑ جیسی ہوئیں ہڈیاں، جلنے لگے ہیں دانت
جگہ جگہ جھریوں سے بھر گئی سارے تن کی کھال
دیکھ کے اپنا حال ہوا پھر اس کو بہت ملال
ارے میں بڑھیا ہو جاؤں گی، آیا نہ تھا خیال
اس نے سوچا
گر پھر سے مل جائے جوانی
جس کو لکھتے ہیں دیوانی
اور مستانی
جس میں اس نے انقلاب لانے کی ٹھانی
وہی جوانی
اب کی بار نہیں دوں گی کوئی قربانی
بس لاحول پڑھوں گی اور نہیں دوں گی کوئی قربانی
دل نے کہا
کس سوچ میں ہے اے پاگل بڑھیا
کہاں جوانی
یعنی اس کو گزرے اب تک کافی عرصہ بیت چکا ہے
یہ خیال بھی دیر سے آیا
بس اب گھر جا
بڑھیا نے کب اس کی مانی
حالاں کہ اب و ہ اب ہے نانی
ظاہر ہے وہ اب کر بھی کیا سکتی تھی
آسمان پر لیکن تارے آنکھ مچولی کھیل رہے تھے
رات کے پنچھی بول رہے تھے اورکہتے تھے
یہ شاید اس کی عادت ہے
یہ شاید اس کی فطرت ہے
ان کی شاعری میں نسوانیت کا رنگ نمایاں نظر آتا ہے۔ وہ بائیں بازو سے تعلق رکھتی تھیں۔ اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے صوفی شعرا کے بہت سے تراجم بھی کیے۔ جن میں خاص طور پر شاہ عبدالطیف بھٹائی، شیخ سعدی، فرید الدین عطار، جلال الدین رومی اور شیخ ایاز وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ وہ صوفیوں کے کردار کو اس وجہ سے سراہتی تھیں کہ صوفی رنگ و نسل اور ذات پات سے باہر ہو کے سوچتا ہے۔ اس کا مسئلہ انسان دوستی سے شروع ہوکے انسان دوستی پر ختم ہوتا ہے۔ انہوںنے جدید ایرانی شاعرہ فروغ فرخ زاد کے تراجم بھی کئے۔
فہمیدہ ریاض نے عورتوں کے حقوق کے لیے جو جدو جہد کی، اسے سنہری حروف سے لکھا جانا چاہیے۔
پاکستانی تاریخ میں دو ایسی خواتین ہو گزری (عاصمہ جہانگیر اور فہمیدہ ریاض) ہیں جو ترقی پسند سوچ کی مالک تھیں اور انھوں نے پہلی مرتبہ حقوق نسواں کا علم بلند کیا اور اپنی ساری جدوجدِ حیات اس مقصد پر مرکوز کر دی، فہمیدہ کی شاعری میں یہ عکس نمایاں طور پر نقش ہے۔ فہمیدہ کی ساری زندگی پاکستانی معاشرے کو منفی قوتوں سے آزاد کرانے میں وقف ہوئی۔ وہ ایک نفیس خاتون تھیں ۔ ان کی طرح کی بہادر عورتیں صدیوں بعد جنم لیتی ہیں۔ ان کی قدر کرنا چاہیے۔ فہمیدہ ریاض کو ایرک فرام کی تحریں بہت اپیل کرتی تھیں ۔ ایرک فرام ایک مشہور مغربی ماہر نفسیات تھا۔ وہ اس کی فیئر آف فریڈم سے بہت متاثر تھیں ۔ یہ کتاب فاشزم پر ہی تھی۔ فاشزم پر بات کرتے ہوئے انھوں نے ایک تقریر میں کہا تھا کہ محض ایک فرد یا ایک لیڈر ملک میں فاشزم تحریک لے کر نہیں آتا بلکہ یہ ر جحان کسی بھی محروم اور پسے ہوئے طبقے سے برآمد ہوتا ہے۔ ایرک فرام کی کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ایسے لگتا ہے کہ یہ کتاب انھوں نے جیسے ہمارے پاکستانی لوگوں کے لیے لکھی ہے۔ فہمیدہ نے خود بھی ایرک فرام کے نفسیاتی اصولوں اور پاکستان کے لوگوں پر ایک کتاب لکھی تھی جس کا نام ”ادھورا آدمی“ تھا۔
انہیں تمغہ حسن کارکردگی اور ستارہ امتیاز جیسے بڑے سرکاری اعزازات سے نوازا گیا مگر وہ کبھی سرکار دربار سے متاثر نہ ہوئیں۔ شعری دنیا میں ان کا بنیادی حوالہ نظم ہی رہا ہے۔ میدان سخن میں ان کی پہلی شاعری کی کتاب 22 سال کی عمر میں چھپ کر چار دانگ عالم میں دھوم مچا چکی تھی۔ ان کا دوسرا شعری مجموعہ قیام انگلستان کے دوران میں چھپا۔ تیسری شعری کاوش ان کے بھارت میں قیام کے دوران ”کیا تم پورا چاند نہ دیکھو گے“ کے عنوان سے چھپی جسے پاک و ہند ہر دو ممالک میں خوب پزیرائی میسر آئی۔ اس کے علاوہ ان کی تخلیقات میں گوداوری، خطِ مرموز، دھوپ، گلابی کبوتر، کھلے دریچے سے، آدمی کی زندگی، قافلے پرندوں کے، حلقہ میری زنجیر کا، ہمرکاب، یہ خانہ آب و گل، میں مٹی کی مورت ہوں، اپنا جرم ثابت ہے، سب لعل و گہر، کراچی، ہم لوگ اور مرزا قلیچ بیگ بہت مشہور ہوئیں۔
فہمیدہ نے ہیرا منڈی کے حوالے سے بھی تراجم کیے۔ اس کے علاوہ مصری ناول نگار نجیب محفوظ کے ایک ناول کا بھی ترجمہ کیا۔ چھوٹے بچوں کے لیے ”پیڑ کی پہیلی“بھی چھاپی۔ انہیں جب جب وقت ملتا تنقیدی مضامین اور افسانے بھی لکھتی تھیں۔ ان کے ایک اہم ناول ناول ”قلعہ فراموشی“ کو اہل ادب نے نہ جانے کیوں فراموش کر رکھا ہے حالانکہ ان کا یہ ناول چوتھی صدی عیسویں کی تاریخ پر مبنی ہے۔ اس ناول کی ایک بہت ہی اہم بات یہ ہے کہ اس کے کرداروں میں سے مرکزی کردار کا نام ’مزدک‘ ہے۔ مزدک وہ شخص ہے جسے تاریخ اولین سوشلٹ تصور کرتی ہے۔ اس بندے کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہ اپنے وقت کا پہلا انقلابی سمجھا جاتا ہے۔ جہاں جہاں بھی روشن خیالی اور شعور و فکر کی توانا آواز کا ذکر آئے گا، وہاں فہمیدہ ریاض پہلی صف میں کھڑی نظر آئیں گی!
