ارباب مہتاب
وہ رات کا بے نور مسافر وہ تیرا شاعر وہ تیرا ناصر
تری گلی تک تو ہم نے دیکھا تھا پھر نہ جانے کدھر گیا وہ
ناصر کاظمی جدید اُردو غزل کے بنیاد سازوں میں شامل ہوتے ہیں۔ وہ ہندوستان کے شہر انبالہ میں پیدا ہوئے۔ ان کے کلام میں قدیم اور جدید شاعری کے رنگ ملتے ہیں۔ ترقی پسند تحریک کے آغاز کے باوجود جبکہ دوسرے شاعروں کا رجحان نظم گوئی کی طرف تھا مگر ناصر نے غزل گوئی کو برقرار رکھا۔
ان کی شاعری کے ابتدائی ماڈل میر تقی میر اور اختر شیرانی تھے۔ جن کے رنگ ان کی شاعری میں نظر آتے ہیں۔ جہاں میر کی طرح عشق، درد، ہجر اور غم کو اپنی شاعری میں شامل کرتے تھے تو وہاں اختر شیرانی کی طرح رومان کو بھی شاعری کا حصہ بناتے تھے۔
ناصر کاظمی مشکل پسند شاعر نہ تھے اور نہ ہی ان کی شاعری مشکل استعاروں کا گھر معلوم ہوتی ہے۔ بلکہ وہ آسان اور سادہ الفاظ میں گہری بات کرتے ہیں۔ ان کے اشعار سادہ اور سہل انداز میں دنیا جہاں کے مفہوم کو بیان کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان کی شاعری کے موضوعات میں ہجرت، غم، یاد، ماضی، تنہائی، اداسی اور رات اہم موضوعات ہیں۔
ان کی شاعری میں ماضی کے گلاب کھلتے نظر آتے ہیں۔ جب کوئی انسان اپنے ماضی میں قید ہو جاتا ہے تو وہ اس ماضی کی یادوں سے کبھی بھی باہر نہیں نکلتا ناصر نے کیونکہ ہجرت کا دکھ برداشت کیا تھا اس لیے وہ ماضی کے اچھے دن اور دوستوں کی قربت کو یاد کرتے تھے اور ماضی کی قید میں ہی رہتے تھے جس کی وجہ سے اداسی اور تنہائی ان کی شاعری میں واضح طور پر نظر آتی ہے۔ جب انسان ماضی کے دنوں کو یاد کرتا رہتا ہے تو وہ حال میں موجود ہر چھوٹی اور بڑی خوشی سے خود کو محروم کر لیتا ہے۔
پہلے تو میں چیخ کے رویا اور پھر ہنسنے لگا
بادل گرجا بجلی چمکی تم یاد آئے
یاد ہے اب تک تجھ سے بچھڑنے کی وہ اندھیری شام مجھے
تو خاموش کھڑا تھا لیکن باتیں کرتا تھا کاجل
ناصر ان شاعروں میں شامل ہوتے ہیں جنہوں نے ہجرت کے المیہ کو شدت کے ساتھ محسوس کیا۔ وہ قیام پاکستان کے بعد پاکستان چلے آئے۔ ہجرت کرنا آسان نہیں ہوتا، انسان ماضی میں قید ہونے لگتا ہے اور ناصر بھی ماضی میں قید ایک شاعر ہے۔ ماضی کی یادیں ان کی شاعری کا ایک اہم پہلو بن کر ابھرتی ہیں۔ جیسے کہ وہ اپنے اشعار میں بیان کرتے ہیں۔
ناصر بہت سی خواہشیں دل میں ہیں بے قرار
لیکن کہاں سے لاؤں وہ بے فکر زندگی
تو ڈھونڈتی ہے اب کسے اے شام زندگی
وہ دن تو خرچ ہو گئے غم کے حساب میں
کیا زمانہ تھا کہ ہم روز ملا کرتے تھے
رات بھر چاند کے ہمراہ پھرا کرتے تھے
ناصر کاظمی کے اندر ماضی کی یادوں کا سمندر ٹھاٹھیں مارتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ ان کی شاعری سے یوں معلوم ہوتا ہے۔ کہ وہ ماضی سے بے حال نظر آتے ہیں اور ماضی میں سکون کی نیندیں تھیں ماضی کی یادیں اداسی پیدا کرتی ہیں جو کہ ناصر کے ہاں ان کی شاعری میں الگ سے ایک پہلو کے طور پر جلوہ افزا ہوتی ہے۔ ناصر کو اداسی کا شاعر کہا جائے تو زیادہ بہتر معلوم ہوتا ہے۔
اداسی پر ان کے مشہور زمانہ شعر جن میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ ناصر کے اندر موجود اداسی کو بہ خوبی بیان کر سکتے ہیں۔
ہمارے گھر کی دیواروں پہ ناصر
اداسی بال کھولے سو رہی ہے
یونہی اداس رہا میں تو دیکھنا اک دن
تمام شہر میں تنہائیاں بچھا دوں گا
مگر ان کی شاعری میں اداسی اور مایوسی ہمیشہ نظر نہیں آتی کبھی دیکھو تو وصال بھی نظر آئے گا اور کبھی رومان بھی۔ اگر غور کیا جائے تو رومانوی آرزو ان کی اداسی کو ختم بھی کرتی نظر آتی ہے۔
غم ہے یا خوشی ہے تو
میری زندگی ہے تو
آفتوں کے دور میں
چین کی گھڑی ہے تو
رات کا ذکر ناصر کاظمی کی شاعری میں بار بار ہوا ہے۔ وہ بار بار رات کو اپنی شاعری میں استعارے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ رات ایک تخلیق کی علامت بھی ہوتی ہے۔ رات خوف، اداسی اور یاد کو بھی جنم دیتی ہے۔
کیسی اندھیری رات ہے دیکھو
اپنے آپ سے ڈر لگتا ہے
ابھی تو رات ہے کچھ دیر سو ہی لے ناصر
کوئی بلائے گا تو میں تجھے جگا دوں گا
کپڑے بدل کر بال بنا کر کہاں چلے ہو کس کے لیے
رات بہت کالی ہے ناصر گھر میں رہو تو بہتر ہے
وہ رات میں ان چیزوں کا ذکر کرتے نظر آتے ہیں جو ان سے چھین لی گئی ہیں۔ ان گم شدہ چیزوں کی یاد میں کھوئے ہوئے نظر آتے ہیں۔
رات بھر جاگتے رہتے ہو بھلا کیوں ناصر
تم نے یہ دولت بیدار کہاں سے پائی
ناصر سے کہے کون کہ اللہ کے بندے
باقی ہے ابھی رات ذرا آنکھ جھپک لے
رات کے سناٹے کا ذکر بھی ان کی شاعری میں نظر آتا ہے اور ان سناٹوں میں خاموشی، تنہائی اور محرومی کا احساس شدت کے ساتھ موجود ہے۔
ریل کی گہری سیٹی سن کر
رات کا جنگل گونجا ہو گا
یہ ٹھٹھری ہوئی لمبی راتیں کچھ پوچھتی ہیں
یہ خامشی آواز نما کچھ کہتی ہے