فاضل شفیع بٹ
پچھلے سال برسات میں اچھی خاصی بارشیں ہوئی تھیں جو عام لوگوں اور خاص کر کسانوں اور زمینداروں کے لیے باعث راحت ثابت ہوئی تھیں۔ مگر اس سال برسات کے موسم میں سورج کا سرخ گولا آگ اگل رہا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے بارش مخلوقات سے روٹھ گئی ہو۔ آسمان پر بادلوں کا نام و نشان تک نہ تھا۔ بادل آسمانوں سے کہیں غائب ہو چکے تھے۔ لوگوں پریشان حال تھے اور اپنے خدا کو مختلف طریقوں سے منا رہے تھے۔ کچھ لوگ ذکر و اذکار میں محو تھے، کچھ درگاہوں پر نذر و نیاز چڑھانے میں مصروف تھے اور کچھ سڑکوں پر رقص کر کے اپنے خدا کو منا رہے تھے۔ گویا ہر کوئی شخص بارش کے لیے اللہ سے دست بہ دعا تھا,لیکن کارگاہ الہی کے اسرار سے کون واقف ہو سکتا ہے۔ شاید گناہوں کی گرم آندھیاں بارش سے حاملہ بادلوں کو کہیں دور بیابانوں میں لے چکی تھیں۔
اسی جھلستی گرمی میں دلبر حسین پسینے سے شرابور روشن گڑھ کی ایک بستی میں اپنی ڈیوٹی انجام دے رہا تھا۔ دلبر محکمہ جنگلات میں ملازم تھا جو روشن گڑھ کے جنگلوں کی رکھوالی کرنے کی ذمہ داری بخوبی انجام دے رہا تھا۔ حالانکہ اب اس جنگل میں گنتی کے چند ہی سر سبز پیڑ ایستادہ تھے۔ دلبر شدید پیاس محسوس کر رہا تھا۔ اپنی پیاس بجھانے کے لیے دلبر نے روشن گڑھ کی بستی کے ایک گھر کے دروازے پر دستک دی اور پانی کے لئے درخواست کی۔ ایک دو منٹ کے وقفے کے بعد ایک نہایت خوبصورت عورت نے دروازہ کھولا۔ اس کے ہاتھ میں پانی کا گلاس تھا۔ دلبر نے پانی کا گلاس لے کر اس خوبصورت عورت کا شکریہ ادا کیا اور اس سے مخاطب ہو کر بولا:
” محترمہ۔۔۔۔۔۔میں فارسٹ گارڈ ہوں۔ کیا میں آپ کا نام جان سکتا ہوں”
” جی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔میرا نام نورین خان ہے” عورت بڑی عاجزی سے دلبر سے مخاطب ہو کر بولی۔
” نورین آپ بہت اچھی ہیں۔ میں بڑا پیاسا تھا۔ آپ کا بہت شکریہ۔ اور آپ خوبصورت بھی ہیں۔” دلبر کے لہجے میں سنجیدگی تھی۔
نورین نے شکریہ ادا کرتے ہوئے دلبر سے موبائل نمبر طلب کیا۔ دلبر خوشی خوشی اپنا موبائل نمبر نورین کو پیش کرتے ہوئے وہاں سے رخصت ہوا۔
دلبر ایک شادی شدہ مرد تھا جو تین بچوں کا باپ تھا۔ اس کی بیوی سیدھی سادی گھریلو عورت تھی۔ دلبر تقریباً چالیس سال کا ایک چھریرے جسم کا مالک تھا اور پچیس سالہ نورین دو بچوں کی ماں تھی۔ دلبر کے دل و دماغ پر نورین کی خوبصورتی مسلط ہو چکی تھی۔ وہ اس کے خیالوں میں بری طرح گرفتار ہوچکا تھا اور نورین بھی دلبر کے ساتھ جیسے گھل مل سی گئی تھی۔
دلبر اب دن رات نورین کے ساتھ واٹس ایپ پر باتیں کرنے میں اپنا بیشتر وقت صرف کرتا۔ وہ دونوں پیار اور ہوس بھری باتوں سے ایک دوسرے کا دل بہلاتے۔ چونکہ نورین کا شوہر گھر سے باہر کام کے سلسلے میں مصروف رہتا، وہ دلبر کے ساتھ دیر رات تک ویڈیو کالنگ کرتی رہتی اور اپنا سفید خوبصورت عریاں بدن دلبر کو دکھا کر اسے لبھاتی تھی۔ دلبر محض اپنی ہوس کی آگ بجھانے کے لیے نورین سے پیار کرتا تھا۔ مگر دلبر کو پوری طرح محسوس ہورہا تھا کہ نورین کو اس سے محبت ہو گئی ہے۔ اور وہ اپنے شوہر کے در پردہ اس سے عشق فرما رہی تھی۔ یہ عشق و محبت کی ایک ایسی داستان تھی۔ اسے یقین ہوچکا تھا کہ نورین اپنی سچی محبت تلاش کرنے کے لیے سرگرداں تھی اور وہ اپنی ہوس کی بھوک مٹانے کے لیے پیچ و تاب کھا رہا تھا۔
دلبر اور نورین کے درمیان پیار محبت کا سلسلہ کئی روز سے جاری تھا کہ ایک دن نورین نے دلبر کو فون کر کے بتایا:
” دلبر میری جان ۔۔ آج میں تم سے ایک راز کی بات کہنے جا رہی ہوں لیکن پلیز غصہ مت کرنا”
دلبر: ” بھلا دلبر بھی کبھی نورین سے غصہ کر سکتا ہے۔۔ بولو میرے جگر”۔۔
” دلبر دراصل میں پیٹ سے ہوں۔ میں تین ماہ سے حاملہ ہوں۔۔ مجھے معاف کر دو” نورین کے لہجے میں التجا تھی۔
” کیا کہا۔۔۔ حمل سے ہو”۔۔
دلبر کو ایک جھٹکا سا لگ گیا اور اس نے غصے میں نورین کا فون کاٹ دیا۔ دلبر کے سجے سجائے خواب گویا پل بھر میں مسمار ہو گئے ہوں۔ دلبر کی ہوس کی آگ ایک دم سے بجھ گئی۔ وہ جس گھوڑی پر سوار تھا، نورین کی ایک فون کال سے وہ لنگڑی ہو چکی تھی۔ وہ محض اس کے بدن کا عاشق تھا اور نورین کے حاملہ ہونے کی خبر سنتے ہی اس پر ایک قسم کی دیوانگی طاری ہوئی اور وہ اپنے گھر میں اندر ہی اندر جلتا رہا۔
نورین نے دلبر کو فون پر ایک مسیج بھیجا کہ اس نے دلبر کی خوشی کے لیے اپنا حمل گرانے کے لئے پاس ہی کی بستی میں مقیم ایک ڈاکٹر صاحب سے رابطہ کیا ہے اور ڈاکٹر صاحب نے بیس ہزار روپیہ کی رقم کے عوض اس کام کے لیے ہامی بھردی ہے۔ میسج پڑھتے ہی دلبر کی آنکھیں موتیوں کی مانند چمکنے لگیں۔ اس کی آنکھوں میں ایک شیطانی چمک آئی۔ ہونٹوں پر ایک عجیب سی مسکراہٹ نمودار ہوئی اور اس نے نورین کو فون کیا:
” نورین۔۔ میری جان۔۔ یہ کیا فیصلہ لیا تم نے۔۔ وہ بھی صرف میری خاطر۔۔۔ اس کام کے لیے میں تم کو دس ہزار کی رقم فراہم کروں گا۔آپ بے فکر رہیں۔” دلبر پرجوش انداز میں نورین سے مخاطب تھا۔
” دلبر۔۔ میں تمہارے لیے اپنی جان بھی دے سکتی ہوں۔ مجھے معلوم ہے کہ تم بھی مجھ سے دوری برداشت نہیں کر سکتے اس لیے میں نے یہ فیصلہ لیا۔ مجھے اپنے بچوں اور شوہر سے کوئی لگاؤ نہیں ہے۔ میں صرف اور صرف تمہاری باہوں میں پناہ لینا چاہتی ہوں۔ اب محض چند دنوں کا انتظار ہے۔ حمل گراتے ہی میں اپنے آپ کو تمہارے حوالے کر دوں گی۔” نورین پیار بھرے لہجے میں دلبر سے مخاطب تھی۔
کچھ ہفتوں کے بعد نورین نے اسقاطِ حمل کرنے کی خوش خبری دلبر کو سنائی۔ نورین خان کی راہ اب ہموار تھی۔وہ اب اپنے اپ کو دلبر کی باہوں میں سمیٹ سکتی تھی۔ دلبر کو پورا یقین تھا کہ نورین اس کی دیوانی ہے۔ وہ اپنے گھر والوں کو نظر انداز کر کے دن بھر نورین سے باتیں کیا کرتا تھا۔ نورین کے قرب میں آکر وہ پابندی سے اپنی ڈیوٹی کے فرائض انجام دے رہا تھا۔ صبح سویرے گھر سے نکل کر دیر رات واپس لوٹتا تھا۔ اس اچانک تبدیلی سے دلبر کے افراد خانہ متحیر تھے۔
دن گزرتے گئے۔ خزاں کی آمد آمد تھی۔ درختوں کے پتے زرد ہونے شروع ہو گئے تھے۔ دلبر اور نورین کا پیار اپنے عروج پر تھا۔ آخر وہ دن آہی گیا جب نورین نے دلبر کو اپنے گھر پر مدعو کیا۔ نورین نے کہا کہ آج اس کا شوہر چند دنوں کے لیے باہر گیا ہے اور یہ دو جسموں کے ملاپ کا صحیح موقع تھا۔
دلبر کے من میں لڈو پھوٹ رہے تھے۔ صبح کا دھندلکا ہر سمت پھیلا ہوا تھا۔ دلبر حسب معمول اپنے گھر سے ڈیوٹی کے لئے نکلا اور نورین سے ملنے کے لیے چل پڑا۔ آج دلبر کے سجے سجاۓ ہوۓ خوابوں کی تعبیر کا دن تھا ۔ اس کو محض نورین کے جسم سے لگاؤ تھا۔
دلبر کے انتظار کی گھڑیاں ختم ہونے والی تھی۔ وہ اب نورین کے دروازے پر دستک دے رہا تھا۔ نورین نہایت خوبصورت کپڑوں میں ملبوس تھی۔ اس کے خوبصورت سرخ جوڑے پر لگی خوشبو سے دلبر محظوظ ہونے لگا۔ اس نے یکایک نورین کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ پیوست کیے۔ وہ نورین کو پاگلوں کی طرح چومنے لگا۔ اس لمحے کے لیے دلبر نے اپنا بیش بہا وقت نورین کے ہمراہ فون پر صرف کیا تھا۔ وہ ہمیشہ نورین کو سچی محبت کا جھانسہ دیتا رہا اور آج وہ نورین کے ہمراہ اس کے بیڈ پر تھا۔ دلبر آج اپنی وفادار اور سیدھی سادی بیوی کو فریب دے رہا تھا۔ دراصل کچھ انسان اپنی ہوس اور جنسی خواہشات کے سامنے بے یار و مددگار ہوتے ہیں۔ وہ اپنی جنسی تسکین حاصل کرنے کے لیے کچھ وقت تک اپنی بیوی بچوں کو بھول جاتے ہیں۔ دلبر بھوکے شیر کی مانند نورین کے جسم کو نوچ رہا تھا کہ اچانک نورین کا شوہر کمرے میں نمودار ہوا۔ دلبر کے جسم پر ایک بھی کپڑا نہ تھا۔ نورین کے شوہر نے ایک دم سے دلبر کو پیٹنا شروع کر دیا۔ دلبر کے منہ سے خون نکل رہا تھا۔
نورین خان زور زور سے ہنس رہی تھی۔ اس نے دلبر کے گالوں پر ایک پیار بھرا بوسہ لیا اور کہا:
” دلبر جانی۔۔۔ تم کتنے بے وقوف آدمی ہو جو عورت کی مکاری کو سمجھ نہ سکا۔ تم کو لگا کہ شاید نورین مجھ پر فدا ہو گئی ہے۔ تم کو یہ بھی لگا کہ میں نے واقعی اپنا حمل گرایا تھا۔ تم نے اپنی شکل آئینے میں کبھی دیکھی بھی ہے۔۔دلبر اپنی اوقات دیکھ۔۔۔ باہر لوگ تمہاری کتنی عزت کرتے ہیں اور یہاں میرے گھر میں تیرے بدن پر ایک بھی کپڑا نہیں ہے۔ تمہاری حالت اُس کتے جیسی ہو گئی ہے جس کے جسم کے سارے بال اڑ گئے ہوں اور وہ شہر کے چوراہے پر بے یار و مددگار بیٹھا ہوا ہے تاکہ لوگ ترس کھا کر اس کی پیٹ کی آگ کو بجھا سکیں۔۔۔”
دلبر سہمی ہوئی حالت میں اپنے جسم کو اپنے ہاتھوں سے ڈھک کر اکڑوں بیٹھا تھا اور نورین کا شوہر اس پورے سما کو اپنے موبائل فون میں قید کر رہا تھا۔
نورین نے ایک زوردار تھپڑ دلبر کے گال پر رسید کیا اور تلخ لہجے میں کہا:
” سن دلبر۔۔ بہت ہوا مذاق۔۔۔ جو بھی ہوا وہ ایک منصوبہ بندی تھی۔ اپنے شکار کو حاصل کرنے کے لیے ایسی چالیں چلنا بے حد ضروری ہے۔ اور اب کام کی بات سن لے۔۔۔۔ ہمیں پانچ لاکھ روپیوں کی اشد ضرورت ہے۔ تمہارے پاس تین دن کا وقت ہے۔ ایمانداری سے پیسے لے کر آجانا ورنہ تم کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہو گے۔۔۔۔ سمجھدار ہو۔۔۔ بات سمجھ میں آگئی ہو تو جھٹ سے اپنے کپڑے پہن کر ادھر سے رفو چکر ہو جا۔۔۔”
دلبر فوراً کپڑے پہن کر نورین کے گھر سے دم دبا کر بھاگ نکلا۔
خوف کے مارے دلبر کی حالت غیر تھی۔ وہ زور زور سے رونا چاہتا تھا مگر اس کی آنکھوں میں آنسو سوکھ چکے تھے۔ دلبر نے سیدھے بینک کا رخ کیا جہاں کسی بھی سرکاری ملازم کے لیے سود پر آناًفاناً قرض دیا جاتا تھا۔ دلبر نے اگلے دو دن میں بینک سے پانچ لاکھ کا قرض لیا اور وہ رقم سیدھے نورین کے حوالے کر دی۔
دلبر نے اپنی بیوی اور بچوں کا پیٹ کاٹ کر سکون کا سانس لیا۔ اپنی ہوس کی آگ بجھانے کے لیے اس کے بیوی بچوں کو قربانی دینا پڑی۔ برسات کے موسم سے خزاں تک کا یہ دور دلبر کے لیے کافی سبق آموز دور تھا۔ وہ سفارش لگوا کر روشن گڑھ سے اپنا تبادلہ کرانے میں کامیاب رہا۔ وہ روشن گڑھ کی بھیانک یادوں کو اپنے دل میں دفن کر کے ایک عام آدمی کی طرح اپنی زندگی بسر کر رہا تھا۔
اگلے سال پھر سے برسات کا موسم آیا۔ کافی بارشیں ہوئیں۔ نورین اپنی رہائش کے لیے ایک عالیشان گھر تعمیر کر رہی تھی۔ گھر میں چھت کی کمی تھی اور برسات کی بارش سیدھے نورین کے مکان میں ٹپ ٹپ کر برس رہی تھی۔
دلبر چھاتا لیے آرام سے برسات کی بارش کا مزہ لے رہا تھا کہ اچانک نورین کا فون آیا اور کہنے لگی:
” دلبر جانی کیسے ہو۔۔ خود تو آرام سے اپنی زندگی گزار رہے ہو۔۔ اور ہم ہیں کہ ہمارے گھر پر ایک چھت تک نہیں۔ بڑی بے رحم ہے یہ برسات بھی۔۔۔ اور ہاں آپ کی وہ ویڈیو میں نے سنبھال کے رکھی ہوئی ہے۔۔۔۔۔۔”