تحریر:ڈاکٹر شوکت محمود شوکتؔ
شکیل بدایونی(پ: ۳/اگست، ۱۹۱۶ء _ ۔م:۰۲ /اپریل، ۱۹۷۰ء )اتر پردیش کے ایک ضلع”بدایوں“ میں جمیل احمد سوختہ قادری کے گھر پیدا ہوئے،آپ کے والدِ گرامی،بمبئی(ممبئی) کی ایک مسجد میں خطیب اور پیش امام تھے۔بدیں وجہ، شکیل بدا یونی کی ابتدائی تعلیم مذہبی اور اسلامی طریقے پر ہوئی،آپ کا پیدائشی نام”شکیل احمد“ تھا، جب کہ سلسلہ ء چشت سے وابستہ ہونے کی بنا پر اپنے نام کے ساتھ”قادری“ بھی لکھا کرتے تھے۔ اس سلسلے سے وابستگی کی بنا پر،آپ نے جید اولیا حضرت عبد القادر جیلانی ؒ(غوثِ پاک) اور معین الدین چشتی ؒ(غریب نواز اور برِ عظیم میں سلسلہ ء چشت کے مبلغ) کی شان میں مناقب بھی لکھیں جو آ پ کے مجموعہء نعت ”نغمہء فردوس“ میں
شامل ہیں۔حضرت عبد القادر جیلانی ؒ کی شان میں کہی گئی منقبت میں سے دو اشعار ملاحظہ ہوں:۔
؎ دل ربا ہے کس قدر شانِ جمالِ غوثِ پاکؒ
ہے جہاں شیدائے حسنِ بے مثال غوثِ پاکؒ
آنکھ کے پردوں میں بے پردہ نظر آنے لگی
ہے پسِ آئینہ تصویرِ جمالِ غوثِ پاکؒ
جب کہ معین الدین چشتی ؒ(غریب نواز) کے حوالے سے کہی گئی منقبت میں سے بھی دو اشعار ملاحظہ ہوں:۔
؎ جنوں میں کاش ہو اتنا اثر غریب نوازؒ
نظر اٹھاؤں تو آئیں نظر غریب نوازؒ
نہ مجھ کو خواہشِ جنت نہ فکرِ حور و قصور
بس اک نگاہِ محبت اثر غریب نوازؒ
اگرچہ ! آپ کا پیدائشی نام ”شکیل احمد“ تھا مگر، آپ اپنے قلمی نام،”شکیل بدا یونی“ سے دنیائے علم و ادب میں مشہور و معروف ہوئے۔ابتدائی تعلیم اسلامی مدرسے میں حاصل کرنے کے بعد،آپ نے اسلامیہ ہائی سکول،بدایوں سے میٹرک کا امتحان پاس کیا،بعد ازاں اعلیٰ تعلیم کے لیے، ”علی گڑھ“ مسلم یونی ورسٹی،علی گڑھ میں داخلہ لیا وہاں سے بی۔ اے کرنے کے بعد، ”دہلی“ میں کچھ عرصہ ایک سرکاری ادارے میں کلرک کی حیثیت سے ملازمت اختیار کی۔چوں کہ آپ کا تعلق ایک مذہبی گھرانے سے تھا، اس لیے ابتدا میں آپ نے غزلیات سمیت بہت شان دار نعتیں کہیں، تاہم! علی گڑھ، قیام کے دوران میں،آپ کی ملاقات استاد”جگر مراد آبادی“ سے ہوئی۔اس ملاقات کے اثرات، آپ کو فلمی دنیا میں گیت لکھنے کی طرف لے آئی، تقریباً سو سے زائد،فلموں کے لیے آپ نے نہایت عمدہ گیت لکھے، لیکن،آپ کی طبیعت میں جو مذہبی اثرات، بچپن ہی سے راسخ ہو چکے تھے اور آپ کے اندر عشقِ رسول ؐ جو بحرِ بے کراں کی طرح موجود تھا،انھی وجوہات نے آپ کو مجبور کیا کہ آپ نے چند فلموں کے لیے نعتیں بھی لکھیں۔ان نعتوں میں نہ صرف آپ کا فن عروج پر نظر آتا ہے بل کہ ان نعتوں میں،آپ کے دل میں ”عشقِ رسولؐ“اور ”مدینے کی تڑپ“ بھی اوجِ کمال پر نظر آتے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ فلموں میں نعتوں کا استعمال، سب سے پہلے شکیل بدایونی ہی نے کیا تھا تو بے جا نہ گا۔ نیز، آپ نے اپنی پہلی فلم ”درد“ کے لیے نہ صرف نہایت عمدہ نعت لکھی تھی بل کہ اس نعت کو برِ عظیم میں اس قدر مقبولیت حاصل ہوئی کہ ہر،پیر و جواں اس نعت کے بول ترنم سے پڑھتے ہوئے دیکھا
گیا۔اس نعت کے بول کچھ یوں تھے:۔
؎ بیچ بھنور میں آن پھنسا ہے دل کا سفینہ، شاہِ مدینہ
بگڑی ہوئی تقدیر بنا دو ڈوبتی نیا پار لگا دو
ورنہ خدا را مشکل ہے جینا،شاہِ مدینہ
بیچ بھنور میں آن پھنسا ہے دل کا سفینہ
بے کس کے غم خوار تمہی ہو جو کچھ ہو سرکار تمہی ہو
دل کا سکوں جینے کا سہارا دنیا نے سب چھینا، شاہِ مدینہ
بیچ بھنور میں آن پھنسا ہے دل کا سفینہ
ایک اور نعت، جو آپ نے ایک فلم کے لیے لکھی جس کو لتا منگیشکر نے انتہائی احسن طریقے سے مترنم انداز میں پڑھا اور اس کی موسیقی نوشاد (نوشاد علی) نے ترتیب دی، یہ وہ نعت ہے، جس کے اشعار آج بھی زبانِ زدِ خلائق ہیں،مکمل نعت ملاحظہ ہو، جو ”بحرِ رمل مثمن مشکول“ میں کہی گئی ہے اور جس کا وزن فعلات۔ ُ فاعلاتن۔فعلات۔ُ فاعلاتن(دو بار) ہے۔
؎ نہ کلیم کا تصور نہ خیالِ طور سینا
مری آرزو محمدؐ مری جستجو مدینہ
میں گدائے مصطفیؐ ہوں، مری عظمتیں نہ پوچھو
مجھے دیکھ کر جہنم کو بھی آگیا پسینہ
مجھے دشمنو نہ چھیڑو مراہے کوئی جہاں میں
میں ابھی پکار لوں گا نہیں دور ہے مدینہ
سوا اِس کے میرے دل میں کوئی آرزو نہیں ہے
مجھے موت بھی جو آئے تو ہو سامنے مدینہ
مرے ڈوبنے میں باقی نہ کوئی کسر رہی تھی
کہا المدد محمدؐ! تو ابھر گیا سفینہ
میں مریض مصطفیؐ ہوں مجھے چھیڑو نہ طبیبو !
مری زندگی جو چاہو مجھے لے چلو مدینہ
کبھی اے شکیل ؔدل سے نہ مٹے خیالِ احمدؐ
اسی آرزو میں مرنا اسی آرزو میں جینا
ان نعتوں کے علاوہ، آپ نے اور بھی فلموں کے لیے نعتیں کہیں لیکن آپ کے نعتیہ مجموعے”نغمہہ فردوس“ میں جو نعتیں شامل ہیں ان میں بھی عشقِ رسولؐ اور مدینے میں ”مرنے کی آرزو“ انتہا پر ہیں۔ اگرچہ! آپ کا یہ نعتیہ مجموعہ (نغمہء فردوس) ضخامت کے لحاظ سے مختصر ہے تاہم! بہترین نعتوں اور مناقب کا مرقع ہے۔