سرینگر/شعیب خان کشمیر کی پہلی ٹرانس ویمن ہیں جنہوں نے تمام مشکلات اور مسائل پر قابو پاتے ہوئے نہ صرف معاشرے میں اپنی ایک الگ شناخت بنانے میں کامیابی حاصل کی ہے بلکہ کارپوریٹ دنیا میں بھی اپنی موجودگی کو نشان زد کیا ہے۔شعیب کا تعلق سری نگر سے ہے اور اس نے اسکول کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد کشمیر یونیورسٹی سے ایم بی اے کیا۔ شعیب نے اپنی تعلیم مکمل کرنے میں کسی مشکل کو آڑے آنے نہیں دیا اور اپنی ہمت اور بے پناہ محنت سے کامیابی حاصل کی۔
شعیب نے کہا، “اسکول سے کالج اور یونیورسٹی سے کارپوریٹ سیکٹر تک میرا سفر آسان نہیں رہا۔ مثال قائم کرنے کے لیے، میں نے اپنے عزم اور ہمت سے کبھی دستبردار نہیں ہوئی۔ٹرانس جینڈرز کی چمکیلی شکل، ان کے چہرے پر میک اپ کی تہیں اور زوردار قہقہے ان کی اداس زندگی کی حقیقت کو چھپاتے ہیں۔ اس طرح کہ ایک عام آدمی پیدائش سے لے کر موت تک جن مسائل اور مشکلات سے گزرتا ہے اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔شعیب خان کو بھی اپنی زندگی میں بہت سے اتار چڑھاؤ سے گزرنا پڑا ہے۔
اسکول سے یونیورسٹی تک اسے دیگر مسائل کے علاوہ امتیازی سلوک اور سماجی برائیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ تاہم، اس نے ان تمام مشکلات کا ہمت سے مقابلہ کیا اور اپنے مستقبل کی تشکیل پر توجہ مرکوز رکھی۔شروع میں شعیب ایک ایئرلائن میں فلائٹ اٹینڈنٹ کے طور پر کام کرتی تھی، آج وہ ایک کارپوریٹ کمپنی میں اعلیٰ عہدے پر کام کرتی ہیں۔اپنی جدوجہد کے دنوں کو یاد کرتے ہوئے شعیب نے کہا کہ ’میری جدوجہد نے آج مجھے ایک نئی راہ دی ہے، کل تک جو لوگ مجھے حقارت کی نگاہ سے دیکھتے تھے یا مجھے طعنے دیتے تھے، آج وہ مجھے عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور کچھ مجھ سے حسد کرتے ہیں۔ “2011 کی مردم شماری کے مطابق جموں و کشمیر میں خواجہ سراؤں کی تعداد پانچ ہزار کے لگ بھگ ہے لیکن آج یہ تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔
سال 2014 میں اگرچہ سپریم کورٹ نے خواجہ سراؤں کو تیسری جنس کا درجہ دے دیا تھا لیکن اب تک انہیں یہ تسلیم نہیں کیا گیا۔شعیب کا کہنا ہے کہ خواجہ سراؤں کی اکثریت تعلیم یافتہ ہے۔ پھر بھی بعض اوقات وہ محروم رہتے ہیں اور تعلیم ہی وہ واحد ذریعہ ہے جس کے ذریعے کوئی بھی انسان اپنی تقدیر بدل سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب تک خواجہ سراؤں کو معاشرے کے حصے کے طور پر قبول نہیں کیا جاتا، ان کی حالت زار بہتر نہیں ہوگی۔ٹرانس ویمن شعیب نہ صرف اپنی لگن اور مثبت سوچ سے معاشرے میں ایک الگ پہچان بنانے میں کامیاب ہوئیں بلکہ وہ پوری ٹرانس جینڈر کمیونٹی کے لیے ایک تحریک اور تحریک بھی بن رہی ہیں۔