چٹان ویب مانیٹرینگ
ایلی ایک مجازی کمپیوٹر ماڈل کا نام ہے۔ یہ خاتون ماڈل مریضوں سے گفتگو کرکے ٹیکسٹ کی بنا پر بہت درستگی سے بتاسکتی ہے کہ آیا وہ تندرست ہے یا پھر صدمے کے بعد کے ذہنی تناؤ(پی ٹی ایس ڈی) کا شکار ہے۔جامعہ البرٹا کے سائنسدانوں نے مشینی اکتساب (لرننگ) سے گزار کر ماڈل کو اس قابل بنایا ہے کہ وہ لوگوں کے ادا کردہ الفاظ میں پوشیدہ اشاروں سے 80 فیصد درستگی سے اس میں پی ڈی ایس ڈی یعنی پوسٹ ٹرامٹک اسٹریس ڈس آرڈر اور ذہنی تناؤ کی تشخیص کرسکتی ہے۔
وجہ یہ ہے کہ اس کی پشت پر ڈیٹا کی وسیع مقدار موجود ہے جس سے سافٹ ویئر ہرپل سیکھ کر آگے بڑھتا ہے اور سامنے بیٹھے شخص کی نفسیاتی کیفیات کا ادراک کرسکتا ہے۔توقع ہے کہ اس طرح کے سافٹ ویئر کو گھر بیٹھے مریضوں کی شناخت، علاج اور ان کی ممکنہ نفسیاتی کاؤنسلنگ (مشاورت) میں استعمال کیا جاسکے گا۔ یوں ٹیلی ہیلتھ کا ایک اور در کھلا ہے جس میں کمپیوٹر ماڈل ابتدائی ڈیٹا لے کر اپنی وضاحت دے سکیں گے۔
اس منصوبے کے لیے جامعہ البرٹا میں ڈاکٹریٹ کے طالب علم جیف سوالا نے یوایس سی انسٹی ٹیوٹ فار کری ایٹو ٹیکنالوجیز سے وسیع ڈیٹا لیا ہے اور اسی پر سافٹ ویئر کو تربیت فراہم کی گئی ہے۔اس میں لوگوں کی تحریریں، بیانات اورٹویٹس تک شامل تھے۔ پھر ان کی درجہ بندی کی گئی۔ اس عمل میں مثبت اور منفی جملے اور الفاظ دیکھے گئے۔ وہ جملے اور بیانات بھی دیکھے گئے جو عموماً ڈپریشن اور تناؤ میں رہنے والے افراد بار بار بولتے ہیں۔
تحقیق کے لیے کل 188 افراد کے کل 250 انٹرویو کا ٹیکسٹ (متن) دیکھا گیا اور ان میں 87 افراد ایسے تھے جنہیں ڈاکٹروں نے پی ٹی ایس ڈی کا مریض قرار دیا تھا۔اس کے بعد ایلی نامی ماڈل کو انٹرویو کے لیے تیار کیا گیا جو بہت مہارت کے ساتھ سامنے بیٹھے شخص یا پھر مریض سے ایسے بات کرتی ہے کہ اس کی شخصیت کے جذباتی پہلو اور احساسات بہتر طور پر اجاگر ہوتے ہیں۔ اس دوران وہ مریض کو پی ٹی ایس ڈی یا تندرستی کےنمبر دیتی ہے۔
لیکن یہ کام اتنا آسان نہیں ہوتا۔ بسا اوقات سامنے بیٹھا شخص بند مٹھی کی طرح کھلتا ہی نہیں اور وہ مبہم جملے یا الفاظ کہتا ہے جس سے اندازہ لگانا مشکل ہوجاتا ہے لیکن اسے مزید مریضوں کا ڈیٹا شامل کرکے بہتر بنایا گیا ہے۔اگلے مرحلے میں مشینی ماڈل کے لہجے کی آواز، حرکات اور سکنات کو بھی مطالعے اور ٹیسٹ میں شامل کیا جائے گا۔