سری نگر،11 اپریل:
جموں و کشمیر میں جاری خشک موسمی صورتحال کے چلتے جنگلات میں آگ لگنے کا سلسلہ شروع ہوا ہے۔ماہرین کا ماننا ہے کہ جنگلوں میں آگ لگنے کی بنیادی وجہ موجودہ خشک سالی ہے اور بارشیں ہونے سے اس آفت کو قابو میں کیا جا سکتا ہے۔
نیشنل ایروناٹکس اینڈ اسپیس ایڈمنسٹریشن( این اے ایس اے) کی فائر انفارمیشن فار ریسورس منیجمنٹ سسٹم (ایف آئی ایس ایم ایس) کی سیٹلائٹ تصویروں کے مطابق گذشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران کشمیر کے آٹھ جبکہ جموں کے پچاس جنگلوں میں آگ لگ گئی ہے۔
ذرائع کے مطابق گذشتہ پندرہ دنوں کے دوران جموں وکشمیر کے جنگلوں میں آگ کی کم سے کم ایک سو وارداتیں پیش آئی ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ موجودہ خشک موسمی صورتحال جنگلوں میں آگ لگنے کی بنیادی وجہ ہے۔انہوں نے کہا کہ یونین ٹریٹری میں بارشوں کی پیش گوئی کی گئی ہےجس سے آگ کی واردتیں کم ہونے کی امید ہے۔
قابل ذکر ہے کہ محکمہ ماحولیات اور ریموٹ سنسنگ کی ایک سروے کے مطابق جموں و کشمیر کی کل جنگل اراضی کا نصف رقبہ آگ لگنے کے سب سے زیادہ خطرناک اور درمیانی درجے کے خطرناک علاقوں میں آتا ہے۔سروے کے مطابق جموں و کشمیر کے جنگلاتی ڈویژنز کے 6646 کمپارٹمنٹس میں 27869.87 مربع کلو میٹروں کے کل رقبے میں سے 4282.21 مربع کلو میٹر آگ لگنے کے سب سے زیادہ خطرناک زون میں جبکہ9490.15 مربع کلو میٹر درمیانی درجے کے خطرناک علاقوں میں آتے ہیں۔
سروے میں کہا گیا ہے کہ آگ سے پہنچنے والے نقصانات کو کم کرنے کے لئے فوری طور تفصیلی ایکشن پلان تیار کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ذرائع کے مطابق جنوبی کشمیر کے سیر آباد پستونہ کے کپمارٹمنٹ نمبر26,27 اور 28 میں دو اپریل کو آگ لگ گئی تھی اور اس سے نوگڈی بٹی نور، زاجہ کھڈ، پنیر جاگیر، آری پل، وانتہ وگن، حاجن، ستورہ، نارستان وغیرہ جیسے علاقے متاثر ہوئے ہیں۔
جنوبی کشمیر کے چیف فارسٹ کنزرویٹر عرفان شاہ نے یو این آئی کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ آگ دراصل وائلڈ لائف علاقوں میں لگ گئی ہے جہاں درخت کم اور گھاس زیادہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے عملے، جس کو محکمہ فائر اینڈ ایمرجنسی، وائلڈ لائف، پولیس اور دیگر متعلقہ ایجنسیوں نے مدد فراہم کی، نے اس آگ کو زیادہ پھیلنے سے روک دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ جب درجہ حرارت میں زیادہ اضافہ درج ہوتا ہے تو یہ آگ قدرتی طور پر لگ جاتی ہے۔موصوف عہدیدار نے کہا کہ بعض علاقوں میں گلہ بانوں نے گھاس کو آگ لگادی، جو پھیل گئی۔
انہوں نے کہا کہ دراصل یہ ’فارسٹ فائر‘ نہیں بلکہ ’بش فائر‘ ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اس آگ سے گھاس جل گئی ہے تاہم کہیں کہیں درختوں کو بھی جزوی نقصان پہنچا ہے۔
انہوں نے مزید کہا ہے فی الوقت یہ آگ قابو میں ہے۔وائلڈ لائف رینج آفیسر کھنہ گنڈ بشیر بابا نے یو این آئی کو بتایا کہ اس آگ پر نوے فیصدی کنٹرول کیا گیا ہے اور اب کہیں کہیں صرف جھاڑیاں جل رہی ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس آگ سے درختوں کو نقصان نہیں پہنچا ہے تاہم جو درخت گر کر سوکھ گئے تھے وہ جل گئے ہیں اور اس کے علاوہ گھاس جل گیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ایسا اکتوبر کے مہینے میں ہوتا تھا لیکن خشک سالی سے یہ واقعات ماہ اپریل میں ہونے لگے۔موصوف عہدیدار نے کہا کہ ہم دن کو آگ بجھاتے تھے تو شام کو ہوا کے جھونکے اس آگ کو دوبارہ تیز کر دیتے تھے۔انہوں نے کہا کہ بارشیں ہونے سے اس آگ کو پوری طرح سے قابو میں کیا جاسکتا ہے۔ترال کے وائلڈ لائف رینج آفیسر نے کہا کہ چار اپریل کو یہ آگ نمودار ہوئی تھی جس کو قابو میں کر لیا گیا لیکن چھ اپریل کو کھریو سے یہ آگ دوبارہ نمودار ہوگئی۔
انہوں نے کہا کہ اس آگ سے گھاس وغیرہ کو نقصان ہوا درختوں کو کوئی نقصان نہیں ہوا۔
ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں اگر دیکھا جائے تو رواں سیزن میں اس قسم کی آگ نہیں لگتی تھی بلکہ اکتوبر یا نومبر کے مہینوں میں لگتی تھی۔بتادیں کہ ماہرین موسمیات کا ماننا ہے کہ وادی کشمیر میں جاری خشک سالی آنے والے مہینوں میں پانی کی قلت کا بھی موجب بن سکتی ہے جس سے کسان طبقے کو گونا گوں مشکلات سے دوچار ہونے پڑ سکے گا۔ (یو این آئی)