سری نگر،5 مئی :
سری نگر میں قائم فوج کی پندرہویں کور کے جنرل آفیسر کمانڈنگ (جی او سی ) لیفٹیننٹ جنرل ڈی پی پانڈے کا کہنا ہے کہ میں نے قریب ڈھائی سو نوجوانوں کو بندوق اٹھانے سے باز رکھا یہی میری سب سے بڑی حصولیابی ہے۔
انہوں نے کہا کہ کشمیر میں والدین بھی اپنے بچوں پر کڑی نظر گذر رکھے ہوئے ہیں کہ کہیں وہ غلط راستہ اختیار نہ کریں۔
بتادیں کہ لیفٹیننٹ جنرل ڈی پی پانڈے کی جگہ لیفٹیننٹ جنرل ڈی ایس اوجلا سری نگر میں پندرہویں کور کے جنرل آفیسر کمانڈنگ کا عہدہ سنبھالنے والے ہیں۔
دفاعی ذرائع کے مطابق لیفٹیننٹ جنرل ڈی ایس اوجلا نو مئی کو یہ عہدہ سنبھالنے والے ہیں جبکہ لیفٹیننٹ جنرل ڈی پی پانڈے کی اگلی پوسٹنگ مدھیہ پردیش میں انڈور کے قریب واقع کمانڈنٹ آرمی وار کالج مہو میں کی جائے گی۔
موصوف جی او سی نے جمعرات کو یہاں فوج کی پندرہویں کور کے ہیڈ کوارٹر پر نامہ نگاروں کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا: ’میں نے پندرہویں کور کے سربراہ کا عہدہ اس فلسفے کے ساتھ سنبھالا کہ کشمیر میں تشدد کی لہر کو کم کرنا ہے اور میں یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ ہم اس میں کافی حد تک کامیاب ہوگئے ہیں اور ہم نے اس محاذ پر بہترین کام کیا ہے‘۔
ان کا ساتھ ہی کہنا تھا: ’میں نے وہی کیا جو ماضی میں میرے پیشرو افسروں نے کیا میں نے کچھ انوکھا نہیں کیا مجھے یقین ہے کہ میرے بعد آنے والا افسر مجھ سے بھی زیادہ بہتر کام کرے گا‘۔
مسٹر پانڈے نے کہا کہ ’کشمیر پرابلم‘ جیسی ایک غلط اصطلاح استعمال کی جا رہی تھی بلکہ حقیقت یہ ہے کہ کشمیر میں ایک پرابلم تھی جس کو ہم نے لوگوں کے ساتھ مل کر کافی حد تک حل کیا ہے۔
انہوں نے کہا: ’آج کشمیر میں امن دائمی صورت اختیار کرنے لگا ہے گرچہ کچھ گنے چنے لوگ کشمیر میں قائم ہو رہے امن کے ماحول سے خوش نہیں ہیں اور وہ امن کو در و برہم کرنے کے لئے نت نئے طریقے آزما رہے ہیں‘۔
ان کا کہنا تھا: ’لیکن ایسے عناصر کو شکست دینے کے لئے بروقت مشترکہ اقدام کئے جا رہے ہیں‘۔
موصوف فوجی کمانڈر نے کہا کہ چاہئے کشمیر میں تعینات راشٹریہ رائفلز ہیں یا لائن آف کنٹرول پر تعینات فوجی ہیں دونوں کشمیری سماج کے حصے ہیں اور چلینجز کا ڈٹ کر مقابلہ کر رہے ہیں۔
حصولیابیوں کے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا: ’ایک طرف تصادم آرائیوں کے دوران جنگجو مارے بھی جاتے ہیں اور انہیں سرنڈر کرنے کا موقع بھی دیا جاتا ہے جبکہ دوسری طرف نوجوانوں کو بندوق اٹھانے سے باز رکھنے کی بھی کوششیں کی جا رہی ہیں‘۔
ان کا کہنا تھا: ’گذشتہ زائد از ایک برس کے دوران کچھ230 نوجوانوں جنہوں نے یا تو بندوق اٹھائے تھے یا اٹھانے والے تھے، کو واپس قومی دھارے میں لایا گیا اور یہی میری سب سے اہم حصولیابی ہے‘۔
موصوف جی او سی نے کہا کہ آج جموں وکشمیر پولیس کو تیکنیکی انٹلی جنس سے زیادہ ہیومن انٹلی جنس موصول ہو رہی ہے اور جنگجوؤں بشمول جنگجو اعانت کاروں کو سماج سے علاحیدہ کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا: ’میری یہ کوشش ہے کہ کسی ماں، بہن یا بیٹی کو کسی کے بندوق اٹھانے کے بعد انکاؤنٹر کے دوران مارے جانے پرغم کے آنسو نہ بہانا پڑے‘۔
کشمیر میں امریکی ساخت کے ہتھیاروں کے استعال کے بارے میں پوچھے جانے پر مسٹر پانڈے نے کہا کہ یہ کوئی چلینج نہیں ہے کیونکہ اس نوعیت کے چلینجز کے ساتھ نمٹنے کے لئے پہلے ہی اقدام کئے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا: ’ہاں کچھ امریکی ساخت کے ہتھیار کشمیر میں داخل ہوئے ہیں لیکن وہ کوئی چلینج نہیں ہیں‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ہائی برڈ جنگجو بھی کچھ نو ماہ قبل ایک چلینج تھے لیکن آج بالکل نہیں ہیں۔
موصوف جی او سی نے کہا کہ پہلے ملی ٹنٹ سرگرمیوں میں ملوث سرکاری ملازم، دکاندار یا 15 سے16 برس کی عمر کے طالب علم کی شناخت کرنا مشکل ہوتا تھا لیکن آج ایسے لوگوں کی شناخت بہت جلد معلوم ہوجاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ آج کی تاریخ میں والدین بھی اپنے بچوں پر کڑی نظر گذر رکھے ہوئے ہیں کہ کہیں وہ غلط راستہ اختیار نہ کرسکیں۔
جموں و کشمیر کے سرحدوں پر جاری جنگ بندی معاہدے کی عمل در آمد کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ فوج کے لئے یہ کبھی کوئی چلینج نہیں تھا لیکن سرحد کے آر پار بستیوں کے لوگ مشکلات سے دوچار ہو رہے تھے۔
انہوں نے کہا کہ آج دونوں طرف سرحدی بستیوں کے لوگ امن و چین کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔
شری امر ناتھ جی یاترا کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ اس یاترا میں خلل ڈالنے کے خطرات ہمیشہ لاحق رہتے ہیں لیکن ایسے منصوبوں کو ناکام بنانے کے لئے موثر سیکورٹی انتظامات کئے جاتے ہیں۔(یو این آئی)