سرینگر،20مئی:
جموں وکشمیر نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے عوامی رابطہ مہم کے تحت خطہ پیرپنچال کا 7روزہ تفصیلی دورہ مکمل کرکے آج پارٹی ہیڈکوارٹر شیر کشمیر بھون جموں میں پارٹی میڈیا سینٹر کا افتتاح کیا اور نومنتخب پارٹی ترجمانوں کی حوصلہ افزائی بھی کی۔ اس سلسلے میں ایک مختصر تقریب کابھی انعقاد ہوا جس میں پارٹی لیڈران اور عہدیداران نے شرکت کی۔ اس موقعے پر صوبائی صدر جموں ایڈوکیٹ رتن لعل گپتا، سینئر لیڈران اجھے سدھوترا، اعجاز جان، بابو رام پال، ڈاکٹر گگن بھگت، شیخ بشیر احمد، مدثر شاہ میری، زیشان رانا، ٹھاکر یشو وردھن سنگھ بھی موجود تھے۔
تقریب کے حاشئے پر نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے عمر عبداللہ نے کہا کہ کشمیرمیں ہورہی ٹارگٹ کلنگ بہت ہی افسوسناک ہیں کیونکہ ایک کے بعد ایک بے گناہ لوگ لگاتار مارے جارہے ہیں، اقلیتوں کی ہلاکتیں ہورہی ہیں، پولیس میں کام کرنے والوں کو مارا جارہاہے، اڑھائی سال پہلے تو کہا گیا تھا کہ تمام مسائل کی وجہ دفعہ370ہے اور اس کے ہٹتے ہی حالات ٹھیک ہوجائیں گے، نہ علیحدگی پسندی رہے گی، نہ علیحدگی پسند سوچ رہے گی اور نہ ہی کہیں بندوق رہے گی۔
خدارا ہمیں دکھایئے آج حالات میں بہتری کہاں آئی ہے؟ جو ٹارگٹ کلنگ آج ہورہی ہیں وہ سلسلہ کب کا ختم ہوچکا تھا، 5اگست2019سے پہلے مشکل سے ہی ایسا واقعہ پیش آتا تھا،لیکن آج لوگ خود کو کشمیر میں کہیں پر بھی محفوظ محسوس نہیں کررہے ہیں، جن جن علاقوں میں ملی ٹنسی ختم ہوگئی تھی، خاص کر سرینگر ، وسطی کشمیر اور شمالی کشمیرمیں، وہاں اب دوبارہ ملی ٹنسی بڑھ گئی ہے،شہر کے مرکز میں لوگ مارے جارہے ہیں، باقی جگہوں کی تو بات ہی مت کیجئے ۔
ظاہر سی بات ہے کہ حکومت کے کہنے اور کرنے میں بہت فرق رہا ہے اور حالات دن بہ دن اور زیادہ خراب ہوتے جارہے ہیں۔حدبندی کمیشن کی رپورٹ پر پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں عمر عبداللہ نے کہا کہ یہ عمل حکمرانوں اور اس کے حامیوں کو فائدہ پہنچانے کیلئے کیا گیا ہے۔ سیٹوں کی حدبندی کا تعین آبادی سے ہوتا ہے اور سابق مردم شماری میں کشمیر کی آبادی جموں سے بہت زیادہ ہے اور اس کے باوجود جموں میں 6سیٹیں اور کشمیر میں صرف ایک سیٹ کا اضافہ کرنا سراسر ناانصافی ہے ۔
جموں میں علاقوں کو ایسے کاٹا گیا جس سے بھاجپا کو فائدہ ہو اور کشمیر میں ایسے حدبندی کی گئی جس سے بھاجپا کے حامیوں کو فائدہ پہنچے۔ لائوڈ سپیکر پر پابندی سے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں عمر عبداللہ نے کہا کہ ہر مذہب کے لوگ اپنی عبادت گاہوں میں لائوڈ سپیکروں کو استعمال کرتے ہیں اور ان پر مکمل پابندی عائد کرنے سے تمام مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے جذبات پر اثر پڑے گا، ضرورت اس بات ہے کہ سبھی لوگوں کو ایک ساتھ لایا جائے اور کوئی بیچ کا راستہ نکالا جائے۔
اسمبلی الیکشن کے ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں این سی نائب صدر نے کہا کہ حکومت یہ بات تسلیم کرے کہ حالات الیکشن کیلئے سازگار نہیں اور حالات 1996سے خراب ہیں تو پھر کوئی بات نہیں، لیکن اگر حکومت حالات کی بہتری کا دعویٰ کرتی ہے اور الیکشن کا انعقاد بھی نہیں کرتی ہے تو دال میں ضرور کچھ کالا ہے؟وارانسی میں مسجداور مندر کے تنازعے پر پوچھے گئے سوال کے جواب میں عمر عبداللہ نے کہا کہ یہ سب کچھ ملک کی اقتصادی صورتحال اور دیگر حالات سے توجہ ہٹانے کیلئے کیاجارہاہے، حالانکہ بی جے پی نے بابری مسجد کے فیصلے کے بعد صاف صاف کہا تھا کہ اس کے بعد مندر کی سیاست نہیں ہوگی۔ اس سوال کہ، حکومت دعویٰ کررہی ہے کہ کشمیر میں پتھر بازی بند ہوگئی ہے اور اس وقت ریکارڈ توڑ سیاحت ہے اور حالات بالکل نارمل ہیں ،کے جواب میں عمر عبداللہ نے کہا کہ پتھری بازی تو پہلے بھی بیچ بیچ میں بند ہوگئی تھی اور سیاح بھی ریکارڈ تعداد میں آتے تھے لیکن اگر آپ کو ان حالات میں نارملسی نظر آتی ہے جہاں ایک سرکاری ملازم کو اپنے دفتر میں ٹیبل پر بیٹھ کر گولیوں کا نشانہ بنایا جائے اور ایک پولیس کے جوان کو اپنے گھر میں گولیوں سے بون ڈالا جائے اور ملی ٹینٹ من مرضی ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ جاری رکھیں تو شائد یہ نارملسی کانیا روپ ہوگا۔ ہمیں تو یہ نارملسی نہیںلگتی ، نارملسی تب ہوتی جب کشمیری پنڈت کشمیر چھوڑنے کی نہ سوچتے۔ انہوں نے کہا کہ پنڈت ملازمین تو نوکریاں چھوڑ کر بھاگنے کیلئے تیار ہیں، کیا یہی نارملسی ہے؟۔
کشمیری پنڈت تو مجبوراً انصاف حاصل کرنے کیلئے پی اے جی ڈی لیڈروں سے ملے اور پھر پی اے جی ڈی لیڈران گورنر صاحب سے ملے اور اس بات پر زور دیا کہ کسی طرح پنڈتوں کے کشمیر چھوڑنے کے پروگرام پر روک لگائیں اور ان کی حفاظت کیلئے ٹھوس اقدامات اُٹھائیں۔ اس سے قبل اپنے خطہ پیرپنچال کے دوری کے آخر پر راجوری میں لمبیری کے مقام پر ایک عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے عمر عبداللہ نے کہاکہ ہم جموں وکشمیر کو موجودہ دلدل سے نکال کر اوپر اُٹھانا چاہتے ہیں، یہاں کے بچوں کو روزگار دینا چاہتے ہیں، یہاں کے ماحول کو بہتر بنانا چاہتے ہیں، یہاں ملازموں اور افسروں کو ایک اچھے ماحول میں کام کرنے کا موقع دینا چاہتے ہیں اور اس کیلئے ضروری ہے کہ ہم مل کر کام کریں۔
انہوں نے کہا کہ ’’ہم ڈرنے والے لوگوں میں سے نہیں ہیں، کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ ہم نے کسی کو دھوکہ نہیں دیا،ہم نے کسی کولڑوایا نہیں، ہم نے یہاں ماحول بگاڑنے کی کوشش نہیں کی، ہم نے جموں کو کشمیر سے نہیں لڑوایا، ہم نے ہندو اور مسلمانوں کو نہیں لڑوایا، ہم نے پہاڑی اور گوجر کو آپس میں نہیں لڑوایا، ہماری سیاست میں ہم شیعہ اور سنی کو آپس میں ٹکرائو نہیں کراتے، نیشنل کانفرنس کی مضبوطی ہند، مسلم ،سکھ اتحاد کے نعرے سے ہے، ہم اس پر چلتے ہیں، لیکن کچھ لوگوں کو یہ پسند نہیں ہے اور وہ یہ تاثر دینے کی کوشش کررہے ہیں کہ ہم فرقہ پرست ہیں، جونہ کبھی ہماری عادت رہی ہے اور نہ خدا نہ خواستہ کبھی ہمارا مشن ہوگا۔ ‘‘اجتماع سے صوبائی صدر ایڈوکیٹ رتن لعل گپتا، سینئر لیڈران جاوید رانا اور اعجاز جان نے بھی خطاب کیا۔