نئی دہلی، یکم دسمبر:
سپریم کورٹ کے جسٹس سنجے کشن کول کی سربراہی والی بنچ نے تمام فریقین کے دلائل سننے کے بعد جموں و کشمیر کی حد بندی کیس میں فیصلہ محفوظ کر لیا۔
سماعت کے دوران سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے کہا کہ درخواست گزار نے قانون کو چیلنج نہیں کیا ہے۔ 1995 کے بعد کوئی حد بندی نہیں کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ مرکز کا ارادہ نو تشکیل شدہ یونین ٹیریٹری میں جمہوریت کو بحال کرنا ہے۔ سماعت کے دوران الیکشن کمیشن نے کہا کہ اعتراضات دائر کرنے کے لیے کافی وقت دیا گیا ہے۔
13 مئی کو سپریم کورٹ نے جموں و کشمیر میں حد بندی کے عمل پر روک لگانے سے انکار کر دیا۔ عدالت نے مرکز، جموں و کشمیر حکومت اور الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری کیا تھا۔ سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے درخواست دائر کرنے میں تاخیر پر برہمی کا اظہار کیا تھا۔ سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ 2020 کے نوٹیفکیشن کے دو سال بعد آپ نے چیلنج کیا ہے، کیا آپ ابھی تک سو رہے تھے؟
حاجی عبدالغنی خان اور ڈاکٹر محمد ایوب مٹو کی طرف سے دائر درخواست میں جموں و کشمیر میں لوک سبھا اور ودھان سبھا کی نشستوں کی حد بندی کی مخالفت کی گئی ہے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ حد بندی ایکٹ کے سیکشن 3 کے تحت کسی دائرہ اختیار اور اختیار کے بغیر حد بندی کمیشن تشکیل دیا گیا ہے۔ مرکزی حکومت کی جانب سے حد بندی کمیشن کی تشکیل الیکشن کمیشن کے دائرہ اختیار میں مداخلت کے مترادف ہے۔ جموں و کشمیر میں سیٹوں میں اضافہ آئین میں ترمیم کرکے ہی کیا جاسکتا ہے کیونکہ آئین کے مطابق اگلی حد بندی 2026 میں ہونی چاہیے۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ جموں و کشمیر میں اسمبلی کی نشستوں کی تعداد 107 سے بڑھا کر 114 کرنا جموں و کشمیر تنظیم نو قانون کی دفعہ 63 اور آئین کے آرٹیکل 81، 82، 170 اور 330 کی خلاف ورزی ہے۔ بتا دیں کہ جموں و کشمیر کی مجوزہ 114 سیٹوں میں سے 24 سیٹیں پاکستان کے زیر قبضہ کشمیر میں بھی ہیں۔
6 مارچ 2020 کو مرکزی حکومت نے ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے جموں و کشمیر، آسام، اروناچل پردیش، منی پور اور ناگالینڈ کی اسمبلی اور لوک سبھا حلقوں کی حد بندی کے لیے جسٹس رنجنا پرکاش دیسائی کی سربراہی میں ایک کمیشن تشکیل دی۔ اس کمیشن کی مدت ایک سال کے لیے تھی۔ بعد ازاں 3 مارچ 2021 کو ایک اور نوٹیفکیشن جاری کرتے ہوئے حد بندی کمیشن کی مدت میں مزید ایک سال کی توسیع کر دی گئی۔ مدت میں توسیع کرتے ہوئے حد بندی کمیشن کا دائرہ اختیار صرف جموں و کشمیر کے لیے رکھا گیا تھا۔
