سرینگر/شہر سرینگراور جنوبی کشمیر کے اظلاع میں بھیک مانگنے پر مکمل پابندی کے باوجود سرینگر اور جنوبی کشمیر کے اظلاع میں بھکاری سڑکوں پر، خاص طور پر ٹریفک سگنل پوائنٹس پر بڑی تعدادمیں دکھائی دے رہے ہیں۔ جن میں نوجوان لڑکیوں سے لے کر بوڑھے لوگوں تک، زیادہ تر بیرونی ریاستوں سے آنے والے سرینگر، اننت ت، اور کولگام کی سڑکوں پر بھیک مانگتے دیکھے جا سکتے ہیں۔ یہ عمل عام لوگوں پر اثر انداز ہو رہا ہے جنہوں نے ضلعی انتظامیہ سے اپیل کی ہے کہ وہ اس خطرناک مشق کو مکمل روک دیں۔
ایک مقامی شہری بشیر احمد ملک نے سی این آئی کو بتایا کہ ’’ایک منظم بھیک مانگنے والا مافیا ہے جو پرائیویٹ گاڑیوں میں بھکاریوں کو لاتا ہے اور انہیں سری نگر شہر، اننت ناگ اور کولگام ر کے مختلف مقامات پر چھوڑتاہے،‘‘ انہوںنے بتایا کہ یہ ایک منافع بخش کاروبار ہے اور اس سے بہت زیادہ رقم حاصل ہوتی ہے۔بھکاریوں کو سڑکوں، مالز، پٹرول سٹیشنوں، مسجدوں، آستانوں ، زیارتگاہوں اور ٹریفک سگنلز کے باہر دیکھا جا سکتا ہے۔ایک اور مقامی شہری نے کہا کہ حکومت کو اس رواج کو ختم کرنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ ایک طرف آپ سرینگر شہر کو ایک ترقی پذیر شہر کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، آپ اسے خوبصورت بنا رہے ہیں تو دوسری طرف سرینگر کی سڑکوں پر لاتعداد بھکاریوں کی موجودگی ترقی کے تصور کو خاک میں ملا دیتی ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ سری نگر ضلع انتظامیہ نے پہلے ہی عوامی مقامات پر بھیک مانگنے پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ غیر ریاستی و مقامی گداگروںنے بازاروں ،سڑکوں ، چوراہوں اور ٹریفک سگنلوں پر قبضہ جمایا ہوا ہے اور ہر آنے جانے والے کے کپڑے پھاڑ کر ان سے پیسے وصول کرتے ہیں جس پر عوامی حلقوں نے سخت تشویش کااظہار کرتے گداگروں کی بڑھتی تعداد پر قابو پانے کا مطالبہ کیا ہے۔
وادی میں بیرون ممالک کے گداگروں کی فوج نے ڈھیرہ جمایا ہے جس دوران گداگروں نے مساجد،آستانوں ، چوراہوں سڑکوں ، بازاروں اور ٹریفک سگنلوں پر قبضہ کرکے وہاں سے ہر گزرنے والے کے کپڑوں کو پکڑ کر پیسے دینے پر مجبور کرتے ہیں۔
غیر کشمیری اور مقامی گداگروں کی بڑھتی تعداد سے لوگوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ مختلف اضلاع سے نمائندوں سے اس حوالے سے کہا ہے کہ وادی کے تمام اضلاع میں غیر ریاستی گداگروں کی بڑی تعداد نظر آرہی ہے جو بھیک مانگنے کے بہانے لوگوں کے گھروں میں گھس جاتے ہیں اور گھر خالی ہونے پر وہاں قیمتی سامان اْڑاکر لے جاتے ہیں۔ خاص کر وادی کے دور دراز علاقوں کے گائوں و دیہات میں جہاں دن میں صرف خواتین اور بچے گھروں میں ہوتے ہیں غیر ریاستی گداگر بھیک مانگنے کے بہانے آتے ہیں جس کی وجہ سے گھروں میں موجود خواتین و بچے ذہنی کوفت کے شکار ہوتے ہیں اور انہیں ان گداگروں سے خطرہ محسوس ہوتا ہے جس کی بناء پر وہ انہیں بغیر کچھ دیئے واپس بھیج دیتی ہے۔
اس دوران جنوبی کشمیر سے نمائندے نے کہا کہ جنوبی کشمیر میں گذشتہ کئی دنوں کے دوران کئی واقعات پیش آئے جن میں گداگروں نے مکانوں میں گھس کر وہاں سے قیمتی چیزیں چرالی ہے۔ غیر ریاستی گداگر بازاروں میں لوگوں کو گھیر لیتے ہیں اور ان کے کپڑے پکڑ کر بھیک دینے پر مجبور کرتے ہیں۔ جبکہ خواتین اکثران گداگروں کے چنگل سے نکلنے کیلئے انہیں مجبوری کی حالت میں بھیک دیتی ہیں۔ بازاروں کے علاوہ گداگر اہم چوراہوں ، مساجد و آستانوں کے باہر ڈھیرہ جمائے بیٹھتے ہیں اس کیساتھ ساتھ ہسپتالوں میں بھی گداگروں کی بڑی تعداد اب نظر آرہی ہے۔
گداگروں نے ٹریفک سگنلوں کو بھی اپنا ٹھکانہ بنایا ہے جونہی لال سگنل چالو ہونے سے گاڑیاں کھڑی ہوجاتی ہے تو گداگر ان گاڑیوں میں بیٹھے افراد کو بھیک کے نام پر تنگ کرتے نظر آتے ہیں۔ اس صورتحال پرعوامی حلقوں نے تشویش کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ گداگروں کے لباس میں باہر سے جرائم پیشہ افراد بھی وادی وارد ہوجاتے ہیں جو یہاں مختلف قسم کے جرائم انجام دیتے ہیں۔ عوامی حلقوں نے وادی میں گداگروں کی بڑھتی تعداد پر قابو پانے کیلئے فوری اقدامات اْٹھانے کی مانگ کی ہے۔