سرینگر : سرینگر کے شہر خاص میں پیر کو پارلیمانی نشست – سرینگر – میں اگرچہ لوگوں نے بے خوف ہوکر ووٹ ڈالے تاہم یہاں پولنگ مراکز پر سست رفتاری کے ساتھ دیگر علاقوں کے برعکس کم ووٹنگ شرح رہی۔ ڈاؤن ٹاؤن، سرینگر میں اگست سال 2019 سے قبل پتھر بازی کے واقعات رونما ہوتے تھے اور الیکشن کے دوران علیٰحدگی پسندوں کی بائیکاٹ کال پر لوگ لبیک کہتے تھے۔ تاہم آج کے انتخابات کے دوران علیٰحدگی پسند رہنما جیلوں میں قید ہونے کی وجہ سے بائیکاٹ کال نہیں دے پائے۔
کل جماعتی حریت کانفرنس کے چیئرمین میرواعظ عمر مولوی محمد عمر فاروق، جن کی شہر خاص میں خاصی دسترس ہے، نے بھی بائیکاٹ کال دینے سے انحراف کیا۔ میرواعظ نے گذشتہ دنوں ایک بین الاقوامی خبر رساں ایجنسی کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’موجودہ حالات میں بائیکاٹ بے سود اور بے معنی ہے۔‘‘ ای ٹی وی بھارت نے شہر خاص کے کئی پولنگ مراکز کا دورہ کیا۔ ان مراکز میں سست رفتاری اور کم تعداد میں ہی رائے دہندگان نظر آئے۔ ووٹروں نے ای ٹی وی بھارت کے ساتھ اپنے تاثرات بھی شیئر کیے۔
ماضی کے انتخابات، اسمبلی ہو یا پارلیمانی انتخابات، میں اس علاقے میں بائیکاٹ کال کافی موثر رہتی تھی اور جو لوگ ووٹ ڈالنے جاتے تھے وہ میڈیا کے سامنے بات کرنے سے گریزاں رہتے تھے۔ تاہم آج رائے دہندگان نے بات کرنے سے انحراف نہیں کیا اور بیشتر رائے دہندگان نے جن علاقوں میں ووٹ ڈالے، اُسی علاقے میں میڈیا کے ساتھ بات بھی کی۔
اگرچہ کچھ ہی ووٹر پولنگ مراکز پر ووٹ ڈالنے آئے لیکن بیشتر لوگ اپنے روز مرہ کے کام کاج میں ہی مشغول دکھے۔ سڑکوں پر بھی معمول سے کم آمدو رفت تھا اور کئی دکانیں تعطیل کی وجہ سے بند بھی تھیں۔ اگرچہ انتخابات کے پیش نظر سیکورٹی کے سخت انتظامات کئے گئے تھے اور پولنگ مراکز پر ان کا پہرا تھا تاہم سڑکوں اور گلی کوچوں میں ماضی کے مقابلے میں انتہائی کم سیکورٹی فورسز تعینات تھے۔
غور طلب ہے کہ سرینگر پارلیمانی نشست 18 اسمبلی حلقوں پر مشتمل ہے۔ جنوبی کشمیر کے شوپیاں اسمبلی حلقے سے وسطی کشمیر کے کنگن حلقے تک پھیلی اس نشست میں 17۰47 لاکھ ووٹرس درج ہیں۔ اس حلقے میں 24 امیدوار آمنے سامنے ہیں جن میں نیشنل کانفرنس کے ااغا روح اللہ مہدی اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کے وحید پرہ قابل ذکر ہیں۔ اپنی پارٹی کی جانب سے اشرف میر بھی میدان میں ہے تاہم ماہرین کے مطابق مقابلہ نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی کے امیداروں کے مابین ہی ہے۔