سرینگر: وادیٔ کشمیر میں زرعی سیزن کا آغاز ہو چکا ہے۔ لیکن محکمۂ بجلی کی طرف سے کم بجلی سپلائی سے زمینداری متاثر ہورہی ہے۔ وہیں بجلی کی عدم دستیابی سے گرمی سے راحت ملنی مشکل ہورہی ہے اور گھریلو کام و کاج میں بھی خلل پڑ رہا ہے۔ وادی میں بیشتر زرعی علاقوں میں آبپاشی کے لیے پمپ بنائے گئے ہیں جو بجلی کی مدد سے چلتے ہیں۔ جب بجلی دستیاب نہیں رہتی ہے تو یہ پمپ غیر فعال ہوجاتے ہیں۔ جس سے شعبۂ زراعت کو نقصان ہوتا ہے۔ محکمۂ بجلی کی جانب سے میٹر و غیر میٹر علاقوں میں گھنٹوں کٹوتی کی جاتی ہے جس سے لوگوں کو مشکلات درپیش ہیں۔ جب کہ تاجر طبقہ کو مالی نقصان بھی ہورہا ہے۔
محکمۂ بجلی کے شیڈول کے مطابق غیر میٹر علاقوں میں بارہ گھنٹوں سے زائد کٹوتی کی جاتی ہے اور مزید بارہ گھنٹوں میں ہر دو دو گھٹنے بجلی کٹوتی کی جاتی ہے۔ میٹر والے علاقوں میں بھی کٹوتی کے مطابق بجلی دستیاب رہتی ہے۔ جب کہ ان علاقوں میں دن و رات بجلی مہیا رہنی چاہیے۔ جہاں لوگوں کو کم بجلی دستیاب رہتی ہے۔ وہیں محکمہ نے گزشتہ چھ مہینوں میں چار مرتبہ بجلی فیس میں اضافہ کیا ہے۔ جس سے لوگوں پر فیس کا بوجھ بڑھ گیا ہے۔ غیر میٹر والے علاقوں میں بجلی فیس میں سو گنا اضافہ ہوا ہے۔ ایک ہزار روپیے سے دو ہزار روپیے بجلی فیس میں اضافہ ہوا ہے جس سے لوگوں کو پریشانی ہوئی ہے۔
صارفین کا کہنا ہے کہ اگر بجلی فیس میں اضافہ کیا گیا ہے۔ حکام کو بجلی سپلائی میں بھی اضافہ کرنا تھا۔ وہی محکمہ نے صارفین کو بجلی فراہم کرنے کے بجائے ان کو ہدایت دی ہے کہ وہ بجلی محدود و جائز طریقہ سے استعمال کریں۔ ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے ایک مقامی صارف شبیر حیدر نے بتایا کہ بجلی محکمہ کو بجلی دستیاب رکھنا چاہیے تاکہ لوگ زراعت کی آبپاشی کر سکیں۔ مشتاق احمد نے بتایا کہ اگرچہ اس برس برفباری اور بارش بھی بجلی کی پیداوار کے موافق رہی سرکار کو بھی صارفین کو بجلی دستیاب رکھنی چاہیے اور بجلی فیس میں رعایت یا کمی کرنی چاہیے۔