از:غلام غوث صدیقی
موجودہ دور میں بحیثیت قوم اگر ہم اپنے اخلاق کا جائزہ لیں تو بہت کمیاں نظر آئیں گی۔ لیکن بحیثیت دین ہمارا اسلام بہترین اخلاق کا نہ صرف نظریاتی بلکہ عملی ماڈل اور بہترین نمونہ ہمارے سامنے پیش کرتا ہے ۔ اس کے باوجود ہمارے اخلاق انتہائی پستی کا شکار ہیں اور اس کی وجہ ہماری بے راہ روی ، سیرت نبی علیہ السلام سے دوری ، اتباع قرآن و سنت کی بجائے ہوائے نفس کی پیروی وغیرہ ہے ۔ کسی قوم کی اصل کامیابی عمدہ اخلاق سے ہی ممکن ہے ورنہ وہ ذلت و رسوائی اور پستی کے دلدل میں پھنس جاتی ہے ۔ آج ہمیں بحیثیت مسلمان اس پہلو پر یعنی عظیم اخلاق اور عمدہ کردار و اقدار پر خاص توجہ دینے اور اپنی تربیت کرنے کی سخت ضرورت ہے ۔
’’اَخلاق‘‘ جمع ہے ’’خلق‘‘ کی جس کے معنی’’رویہ، برتاؤ، عادت‘‘ کے ہیں اور خلق عظیم کا مطلب ہے کہ لوگوں کے ساتھ بہترین رویہ ، بہترین برتاو یا بہترین عادت کا معاملہ کیا جائے ۔ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں بہترین اخلاق کو خلق عظیم سے تعبیر کیا ہے اور اپنے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو خلق عظیم سے مختص و متصف قرار دیا ہے ۔ ارشاد باری تعالی ہے:
(وَاِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِیْم) (سورہ القلم: ۴)ترجمۂ: ’’اور بیشک تم اخلاق کے بڑے مرتبے پر ہو‘‘۔
اخلاق کے سب سے اعلی درجہ کو خلق عظیم کہا جاتا ہے ۔ بعض حضرات نے خلق کی تین قسمیں کی ہیں جن سے خلق عظیم کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔ خلق کی تین قسمیں ہیں: (۱) خلق حسن (۲) خلق کریم (۳) اور خلق عظیم ۔
خلق حسن یہ ہے کہ برائی کا بدلہ برائی سے دیا جائے ۔
خلق کریم یہ ہے کہ برائی کا بدلہ نہ لیا جائے بلکہ برا سلوک کرنے والے کو معاف کر دیا جائے
خلق عظیم یہ ہے کہ برائی کرنے والے کو معاف کرکے اس پر احسان بھی کیا جائے ۔
مثلا کسی نے آپ کے ساتھ برا سلوک کیا تو اگر آپ اس کے ساتھ بھی برا سلوک کریں تو یہ خلق حسن ہے ، لیکن اگر اسے معاف کردیا تو یہ خلق کریم ہے اور اگر آپ نے اسے معاف کرکے اس پر احسان بھی کیا تو یہ خلق عظیم ہے ۔ خلق کی ان تینوں قسموں کی طرف قرآن کریم میں واضح طور پر اشارہ ملتا ہے ۔
خلق حسن کی مثال
آیت کریمہ (وَجَزَٰٓؤُاْ سَيِّئَةٍۢ سَيِّئَةٌ مِّثْلُهَا ) (الشورى – 40) ترجمہ: برائی کا بدلہ ویسی ہی برائی ہے‘‘اور آیت کریمہ (فمن اعتدى عليكم فاعتدوا عليه بمثل ما اعتدى عليكم ۚ) ترجمہ: لہٰذا جس نے تم پر زیادتی کی تم اس پر زیادتی کرو جیسی اس نے تم پر زیادتی کی ‘‘، دونوں میں خلق حسن کا جواز ملتا ہے ۔ خیال رہے کہ اسلامی فقہ کے مطابق اگر کسی ملک میں کوئی شہری کسی شخص پر زیادتی کرے تو زیادتی کرنے والے کو سزا دلانے کے لیے قانون کو ہاتھ میں لینا جائز نہیں بلکہ قانون کا سہارا لیا جائے تاکہ انصاف قائم ہو سکے ۔
خلق کریم کی مثال
ارشاد باری تعالی ہے: (ۖ فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُهُۥ عَلَى ٱللَّهِ ۚ إِنَّهُۥ لَا يُحِبُّ ٱلظَّٰلِمِينَ) یعنی جس نے معاف کیا اور اصلاح کیا تو اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے اللہ ظالموں کو پسند نہیں فرماتا‘‘ اور ’’﴿ وَلَمَن صَبَرَ وَغَفَرَ إِنَّ ذَٰلِكَ لَمِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ﴾ [ الشورى: 43] ترجمہ: البتہ جو شخص صبر سے کام لے اور درگزر کرے، تو یہ بڑی اولوالعزمی کے کاموں میں سے ہے‘‘۔ ان دونوں آیتوں میں خلق کریم کی تعلیم دی گئی ہے ۔
خلق عظیم کی مثال
ارشاد باری تعالی ہے : (والكاظمين الغيظ والعافين عن الناس ۗ والله يحب المحسنين) ترجمہ: جو غصے کو پی جاتے ہیں اور دوسروں کے قصور معاف کر دیتے ہیں اور اللہ احسان کرنے والوں کو بہت پسند فرماتا ہے ‘‘ (سورہ آل عمران آیت ۱۳۴) ۔اس آیت سے یہ مفہوم نکلتا ہے کہ جس نے آپ کے ساتھ زیادتی کی ، پھر آپ نے اسے معاف کرکے اس پر احسان کیا تو یہ اللہ تعالی کو بہت پسند ہے ۔اسی عادت کو خلق عظیم سے تعبیر کیا جا سکتا ہے ۔
اللہ تعالی نے حضرت موسی علیہ السلام کو خلق حسن سے متصف کیا ، حضرت عیسی علیہ السلام کو خلق کریم سے متصف کیا اور آخری نبی اور اپنے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کو خلق عظیم سے مختص کیا ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ سے متعدد واقعا ت کو بطور دلائل پیش کیے جا سکتے ہیں کہ آپ نے نہ صرف اپنے دشمنوں کو معاف کیا بلکہ ان پر عظیم احسان بھی کیا ۔ خلق عظیم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایسا امتیازی وصف ہے جس میں کوئی دوسرا شریک نہیں ۔
مفسرین اللہ تعالی کے اس ارشاد: (وَاِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِیْم) (سورہ القلم: ۴) کے تحت لکھتے ہیں کہ حضرت ام المومنین سے سوال پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا خلق قرآن ہے یعنی قرآن پر عمل کرنا ، اس کے احکام پر عمل کرنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خلق ہے ۔
قرآن کریم کی آیات سے خلق حسن ، خلق کریم اور خلق عظیم تینوں کے جواز کا ثبوت ملتا ہے لیکن خلق عظیم زیادہ پسندیدہ ہے ۔ان مثالوں کو ذہن میں رکھ کر درج ذیل آیت پر خوب غور کریں :
ارشاد باری تعالی ہے (واتبعوا احسن ما انزل الیکم من ربکم من قبل ان یاتیکم العذاب بغتۃ وانتم لا تشعرون ) یعنی : ‘‘اور تمہارے رب کی طرف سے جو بہترین چیز تمہاری طرف نازل کی گئی ہے اس کی پیروی کرو اس سے پہلے کہ تم پر اچانک عذاب آ جائے اور تمہیں خبر بھی نہ ہو‘‘ (۳۹:۵۵)
مذکورہ آیت میں ’’احسن ‘‘ مضاف اور ’’ما انزل الیکم من ربکم ‘‘ مضاف الیہ ہے ۔ترکیب اضافی کی صورت میں ترجمہ یوں بنتا ہے کہ جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اس میں سب سے بہتر (احسن ) کی پیروی کرو ۔احسن (سب سے بہتر ) کے مقابلے حسن (بہتر ) ہوتا ہے ۔لہذا ، ایک مفہوم یہ نکلتا ہے کہ قرآن کریم نے حسن کا بھی ذکر کیا ہے اور احسن کا بھی ذکر کیا ہے ، لیکن بندوں کو احسن (سب سے بہترین )کی پیروی کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ معلوم ہوا کہ خلق حسن اور خلق کریم بھی جائز ہے مگر خلق عظیم جو کہ احسن درجہ رکھتا ہے اس کی پیروی کی جائے ۔دوسرے لفظوں میں خلق مصطفی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی کی جائے ۔
بہترین چیز کی پیروی کرنے کا مطلب یہ بھی ہے کہ انسان اوامر کی تعمیل کرے اور نواہی سے بچتا رہے ۔بعض حضرات نے مذکورہ آیت کا ترجمہ صفت و موصوف کے معنی میں لیا ہے اور آیت کا ترجمہ یوں کیا ہے کہ : ’’پیروی کرو اس بہترین کلام کی جو تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے ‘‘ اور پھر بہترین کلام سے مراد قرآن مجید لیا ہے ۔
آج ہمارے مسلم معاشرے کے لیے ضروری ہے کہ ہم خلق عظیم کا پہلو اپنائیں ۔اگر کوئی ہم پر زیادتی کرتا ہے تونہ صرف اسے معاف کردیا جائے بلکہ بدلے میں اس پر احسان بھی کیا جائے ۔کوئی ہم سے بد کلامی کرے تو بدلے میں ہمیں صبر و تحمل اور عمدہ کلام کے ساتھ پیش آنا چاہیے ۔ مثال کے طور پر سوشل میڈیا یا عوامی گفتگو کے دوران بعض لوگوں کا لہجہ بہت سخت اور انسانی طبیعت کے لیے انداز ناپسندیدہ ہوتا ہے ۔بعض لوگوں میں نفرت اس قدر سرایت کر چکی ہے کہ ایک مسلمان کو دیکھتے ہی گالی گلوج اور بد کلامی کرنا شروع کر دیتے ہیں۔لیکن ان سب کے باوجود ہمارے لیے ضروری ہے کہ گالی کا جواب گالی سے نہیں بلکہ معافی ، صبر اور عمدہ کلام کے ذریعے دیں ۔اگر کوئی شخص آپ کے ساتھ گالی گلوج پر مبنی کلام کرے اور معاملہ ناقابل برداشت ہوجائے تو اس کی گالی کا جواب گالی سے دینے سے بہتر یہ ہے کہ اس سے دوری بنالیا جائے ، کیونکہ فساد کا خاتمہ اسی طرح ممکن ہے ۔خلاصہ کلام یہ کہ نفرت کا جواب نفرت سے نہیں بلکہ عمدہ اخلاق ، اعلی سیرت اور خلق عظیم سے دیا جائے ۔