خانہ کعبہ مسلمانوں کی مقدس ترین عبادت گاہ ہے، موسم گرما میں جب سورج آگ برسا رہا ہوتا ہے تو مسجد حرام کا فرش ہوتا ہے ٹھنڈا ٹھنڈا کول کول ۔ سخت گرمی میں بھی زائرین کو ٹھنڈک کا احساس دلاتا ہے۔ اس پر تیز دھوپ اور گرم ہوا کا کوئی اثر نہیں ہوتا ہے۔سفید سنگ مرمر کا فرش گرم ترین دنوں میں بھی زائرین کے پیروں کے نیچے ٹھنڈا رہتا ہے اور سکون کا باعث بنتا ہے۔ دراصل ہر دور میں حرم شریف کے بیرونی فرش کو دن کے اوقات میں ٹھنڈا رکھنے کے لیے مختلف تکنیک استعمال کی جاتی رہی ہیں۔اس کے لیے اہم خصوصیات کے حامل سنگ مرمر کو تلاش کیا گیا جو سخت گرمی میں بھی کم سے کم گرم ہونے کی خصوصیت کا حامل ہو۔
اس دریافت کا نام تھاسوس سنگ مرمر شدید گرمی میں بھی انتہائی ٹھنڈا رہتا ہے یہاں تک کہ موسم گرما میں درجہ حرارت 50 سے 55 درجے سیلسیئس تک پہنچ جائے۔ یونانی جزیرے تھاسوس کا سنگ مرمر کوئی عام پتھر نہیں اور پتھروں میں پائی جانے والی اب تک کی منفرد ترین خصوصیات میں سے ایک کا حامل ہے۔خالص سفید شکل اور روشنی کی اعلیٰ عکاسی کی بدولت یہ ’سنو وائٹ‘ ماربل کسی بھی سنگ مرمر کے مقابلے سب سے کم گرمی جذب کرتا ہے۔
تھاسوس کے جزیرے سے قدیم زمانے سے ہی اس پتھر کو نکالا جاتا رہا ہے اور آج بھی پورے یونان میں استعمال ہوتا ہے۔ اس کے پتھر سے تاریخ کے سب سے بڑے مقامات کی دیواریں، فرش اور مجسمے بنائے گئے ہیں جن میں مقدونیہ کا قدیم مقبرہ ایمفی پولِس اور استنبول میں واقع مسجد آیا صوفیہ بھی شامل ہیں۔
ایک اور تحقیق جو سعودی و مصری مشترکہ ٹیم نے کی اور 2018 میں عربین جرنل آف جیو سائنسز میں شائع ہوئی اس میں ماربل کو ’گرمی کو کم کرنے والا سمارٹ ماربل‘ کہا گیا۔
ماہرین تعمیرات سنگ مرمر کی سیلوں کی جائے نماز کی شکل میں تراش خراش کے بعد نہایت خوبصورتی سے اسے خانہ کعبہ کی سمت میں نماز کی صف کی شکل میں نصب کرتے جاتے ہیں۔ ایک سل کی لمبائی 120 سینٹی میٹر، چوڑائی 60 سینٹی میٹر رکھی جاتی ہے جب کہ سنگ مرمر کی ایک سل کی موٹائی پانچ سینٹی میٹر ہوتی ہے۔
تھاسوس ۔۔۔ سنگ مرمر کی سیلوں سے حرم شریف کی زمین کو ڈھانپنے سے زمین کے اندر کی ٹھنڈک اور رطوبت باہر کی طرف نکلتی ہے۔ اس پتھر کی سطح کو ٹھنڈا کرنے میں مدد دیتی ہے۔ دوسری قسم کا سنگ مرمر’جرنی’ کہلاتا ہے جو روشنی اور گرمی دونوں کو جذب کرتا ہے۔ حرم شریف میں زیادہ تر’تھاسوس’ کا استعمال کیا گیا ہے۔
عمر ابن الخطاب مسجد کے فرش میں پتھر کا استعمال کرنے والے پہلے شخص تھے۔ 119 ہجری (737-738 عیسوی) میں الولید بن عبدالملک کے دور میں مطاف کو توسیع کے بعد سنگ مرمر سے ڈھانپ دیا گیا تھا۔ شاہ عبدالعزیز نے جامع مسجد اور مسجد نبوی میں توسیع کی جو 1970 اور 1980 کی دہائیوں میں شاہ خالد کے دور حکومت تک جاری رہی۔ شاہ خالد نے مسجد الحرام کو اس کی موجودہ شکل میں وسعت دینے اور اس کے فرش کو 1978 میں یونان سے درآمد کیے گئے گرمی سے بچانے والے ماربل سے ٹائل کرنے کا حکم دیا تھا۔
گرینڈ مسجد کی دوسری توسیع 1985 اور 1986 کے درمیان شاہ فہد کے دور میں ہوئی، جنہوں نے کعبہ کے ارد گرد صحن اور گرینڈ مسجد کے اطراف میں دائرے کی صورت اور قطار میں ٹھنڈے سفید سنگ مرمر کا استعمال کرتے ہوئے ٹائل لگانے کا بھی حکم دیا، جس سے وہ نمازی کے لیے آسانی کا باعث بنا۔ قابل غور بات یہ ہے کہ اس سنگ مرمر کی یہ قسم قدرتی ہے۔۔ نہ ہی سعودی عرب میں اور نہ یونان سے کوئی اضافی چیز ڈالی جاتی ہے۔