اسلام میں صحت وتندرستی کو بہت اہمیت دی گئی ہے۔ ہمارا جسم اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک تحفہ ہے، اور اس کی حفاظت کرنا اسے تندرست رکھنا ہمارے لئے سب سے زیادہ ضروری ہے۔ اور ہم اپنے جسم کو ورزش کے ذریعہ سے تندرست رکھ سکتے ہیں، اسی ورزش کو ہندو دھرم میں یوگا کے نام سے جانا جاتا ہے۔یوگا ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان ایک مشترکہ بنیاد ہے۔
جب سے قرون وسطی کے صوفیاء نے ہندوستان کی قدیم یوگا کے بارے میں جانا،اس وقت سے ہی مسلم یوگا کرتے چلے آ رہے ہیں،آج ہم ملک کے تقریباً تمام شہروں میں سرگرم متعدد مسلم یوگیوں (یوگا پریکٹیشنرز) کو دیکھ سکتے ہیں۔ ان میں خواتین بھی شامل ہیں۔
شروعات میں جب یوگا کو بین الاقوامی سطح پر لے جانے کی کوشش ہوئی تو مسلم ممالک میں رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا،وہیں ہندوستانی مسلمانوں میں یوگا کی پذیرائی کو بھی قدامت پسند علماء کی طرف سے ردعمل کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن انہیں بتایا گیا کہ یوگا کا مذہب سے بہت مضبوط تعلق نہیں ہے بلکہ یہ ایک سائنس ہے، اور اس معاملہ میں مذہب غیر جانبدار ہے۔
یوگا کے تعلق سے اشرف ایف نظامی کی کتاب یوگا نماز کے مطاق میں انہوں نے لکھا ہے کہ اسلام کا یوگا سے کوئی ٹکرواؤ نہیں ہے، بلکہ یہ تکنیکوں کا ایک مجموعہ ہے جو کسی بھی مذہب کے عمل کو بڑھاتا ہے۔ نظامی صاحب لکھتے ہیں کہ نماز میں مختلف جزئیات جیسے سجدہ نصف شرشناسن ہے جبکہ قیام وجراسن اسی طرح ہے جس طرح رکوع پسچیموتھاسن ہے۔
دہرادون کی ایک سرکاری اکیڈمی کے یوگا انسٹرکٹر بدر الاسلام کے مطابق، اسلام اور یوگا کے درمیان سب سے واضح میل جول میں سے ایک نماز (دن میں پانچ وقت کی نماز) کا یوگا آسنوں کی جسمانی ورزش سے مشابہت ہے۔ لفظ صلاۃ کا اصل معنی ہے ‘پیٹھ کے نچلے حصے کو موڑنا’، جیسا کہ یوگا میں ہے۔ فارسیوں نے اس کا ترجمہ لفظ نماز سے کیا، جس کا مطلب ‘جھکنا’ ہے، جو کہ سنسکرت کے لفظ نمستے سے متعلق ہے۔
ہندوستان کے سرکردہ مدارس اور صوفی شخصیات نے یوگا کی ورزش کو مذہبی معاملات سے آزاد کرتے ہوئے اس کی حمایت کی ہے۔ دارالعلوم دیوبند، جو پہلے یوگا کے خلاف فتویٰ جاری کر چکا ہے، اب اس معاملہ میں معتدل ہو گیا ہے۔ اور وہاں سے بیان جاری ہوا ہے کہ یوگا آج تمام مذاہب کے پیروکاروں کے لیے زندگی کا ایک طریقہ ہے۔
یوگنیس، خواتین پریکٹیشنرز
جن لوگوں نے علاج کی قدیم تکنیکوں کو مقبول بنانے کے لیے پیش قدمی کی ہے ان میں عذرا قادری بھی شامل ہیں، جو ایک سرکردہ سیاسی جماعت سے وابستہ ہیں اور یوگا انسٹرکٹر کے طور پر جانی جاتی ہیں۔ انہوں نے ایک بار میڈیا کو بتایا کہ مسلمانوں کو سماجی رکاوٹوں کو توڑنا چاہیے اور ہندوستان میں رائج ہر مثبت عمل کو اپنانا چاہیے۔قادری تقریباً 32 خواتین کے لیے یوگا کلاس کا انعقاد کرتی ہیں۔
یوگا کو فروغ دینے میں خواتین کی شرکت نے بھرپور فائدہ اٹھایا ہے اور فٹ رہنے کے لیے جسمانی ورزش کرنے والی خواتین کی تعداد میں حالیہ دنوں میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ ملک کے شہروں کے تقریباً ہر پارک میں دن کے مختلف حصوں میں مرد اور خواتین یوگا کرتے ہیں۔
قادری کی طرح تسنیم کانچا والا یوگا کو عام آدمی کی اچھی صحت بنانے میں مصروف ہیں۔ وہ خود بھی باقاعدگی سے یوگا آسن کرنے کے بعد مختلف بیماریوں سے ٹھیک ہو چکی ہیں۔ انہوں نے یوگا کی مدد سے شدید تھائرائیڈ پر قابو پالیا اور انسان کو صحت مند بنانے میں اس کی طاقت کو تسلیم کیا۔
انہوں نے اپنی صحت یابی کے بعد معاشرے کی دوسری خواتین، خاص طور پر مسلم خواتین کی مدد کرنے کے لیے اپنے تجربے سے کام لینے کا فیصلہ کیا۔
انہوں نے TOI کو ایک انٹرویو میں بتایاکہ اگر آپ گھریلو خاتون ہیں،تو یوگا آپ کو فٹ رہنے اور بیماریوں سے بچنے میں مدد کرے گا۔ یوگا ہندوستانی ثقافت اور سائنس کا ایک اہم حصہ ہے، اور جب پوری دنیا یوگا کو اپنا رہی ہے تو ہمیں، بطور ہندوستانی، پیچھے نہیں رہنا چاہیے۔
یوگی، مرد پریکٹیشنرز
ممتاز ہندوستانی مسلمانوں میں سے ایک جو یوگا کی تربیت دیتے ہیں اور اس کے حق میں لکھ چکے ہیں کیف محمود ہیں، جو جامعہ ملیہ اسلامیہ میں تقابلی مذاہب کی تعلیم دیتے ہیں۔ وہ اس بات کی وکالت کرتے ہیں کہ یوگا کو مذہب تک محدود کرنا اس کے علاج کے فوائد کو کم کرنا ہے۔ تاہم وہ اس عمل کی جبری پیروی کے حق میں نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یوگا جدید جم کا قدیم ورژن نہیں ہے جہاں انسان جسم کو درست رکھنے کے لیے مختلف ورزشیں سیکھتا ہے۔
اتراکھنڈ مدرسہ بورڈ کے سربراہ اور بابا رام دیو کے دوست مفتی شمعون برسوں سے یوگا کو فروغ دے رہے ہیں۔ وہ یوگا کے فوائد کو نماز اور روزے (نماز اور روزہ) سے تشبیہ دیتے ہیں۔ نفس پر قابو، تقویٰ اور جسم کی رفتار اور دیگر روحانی فوائد ان مضامین کے میں دیکھنے کو ملتے ہیں۔
ہندوستان میں کچھ مسلمانوں نے یوگا کو اس قدر شوق سے کیا ہے کہ وہ تقریباً کمال حاصل کر چکے ہیں اور اپنی مہارت کی وجہ سے انہیں آچاریہ (استاد) کہا جاتا ہے۔ ایسے ہی ایک استاد آچاریہ رفیق خان ہیں، جو ایک 39 سالہ دیندار مسلمان ہیں، جنہوں نے اپنی ہی برادری کے شدید ردعمل اور دشمنی کو یوگا کے حصول پر اثر انداز ہونے نہیں دیا۔
سندر گڑھ ضلع کے ہیمگیری بلاک کے آچاریہ خان کی دور دراز قبائلی علاقوں کے ساتھ ساتھ ان کی برادری میں یوگا کو فروغ دینے کی انتھک کوششوں کے بتدریج نتائج سامنے آئے ہیں۔اور اب لوگ ان کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں اور بہت سے مسلمانوں نے مخالفت چھوڑ دی ہے اور یوگا کے پرجوش پریکٹیشنرز بن گئے ہیں۔ان کے شاگردوں میں ہر عمر کے لوگ، اسکول اور کالج کے طلباء، کام کرنے والے مرد اور بزرگ شہری شامل ہیں۔
انہوں نے نیو انڈین ایکسپریس کے ساتھ اپنے انٹرویو میں کہاکہ میرا واحد مشن یوگا کو مذہب اور ذات سے قطع نظر ہر گھر تک پہنچانا ہے۔ یوگا مذہبی نہیں ہے، اس کا واحد مقصد لوگوں میں جسمانی اور ذہنی تندرستی کو فروغ دینا ہے۔
مسلم معاشرہ کے مرد وخواتین تک یوگا کو لے جانے اور ہر ہندوستانی کے گھر کے اندر تک یوگا کو پہونچانے کی مندرہ بالا مثالوں کے علاوہ ہر سال اس فہرست میں ایک جماعت جڑتی ہوئی نظر آتی ہے۔ جو یوگا کو پاک اور جامع سمجھتی ہے۔