تحریر:سہیل بشیر کار
امت مسلمہ کی مجموعی صورتحال یہ ہے کہ قرآن کریم کی آیات پر غور و فکر سے غفلت برتی جاتی ہے.اب اگر کہیں قرآن پر تدبر کی نگاہ ڈالی بھی جاتی ہے تو وہ نظر بس فقہی معاملات کو سلجھانے اور احکامات کو اخذ کرنے تک ہی محدود ہے؛ حالانکہ ایسی بے شمار آیات ہیں جن پر تدبر و تفکر کرنے سے ہماری زندگی سنور سکتی ہے لیکن ہم ان آیات پر سرسری طور پر سے گزر جاتے ہیں؛ خاص کر جب حالات انتہائی نازک ہوں تو یہ آیات حوصلہ بخش ہوتے ہیں؛ استقامت کا راستہ دکھاتے ہیں.
ابھی چند روز قبل برادر ابوالاعلٰی سبحانی نے ایک ایسی ہی کتاب کو اردو کا قالب دیا ہے جو کہ فلسطین کے اس مشکل دور میں خوب پڑھی جا رہی ہے. کتاب کا نام ہے “رسائل من القرآن” اور اس کے مصنف ہیں ادھم شرقاوی.
کتاب کا مقدمہ مشہور قرآنی محقق ڈاکٹر عنایت اللہ سبحانی نے لکھا ہے،سبحانی صاحب لکھتے ہیں کہ یہ قران کریم سے فلسطینیوں کا تعلق ہی ہے جو انہیں مشکلات میں استقامت عطا کیے ہوئے ہیں، ڈاکٹر سبحانی صاحب ایک سوال اٹھاتے ہیں کہ وہ کیا چیز ہے جو اس قوم کے اندر یہ حوصلہ، یہ عزیمت، یہ ایثار و قربانی، یہ جان بازی و سرفروشی پیدا کرتی ہے. اس کا جواب وہ یوں دیتے ہیں کہ ” اس کا صاف اور سیدھا جواب یہ ہے کہ ان کے اندر یہ بلند صفات وہیں سے پیدا ہوئیں جہاں سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام کے اندر پیدا ہوئی تھیں۔ یہ قرآن پاک کا اعجاز تھا کہ اس نے صحابہ کرام کو مسِ خام سے کندن بنادیا تھا اور ان کی رگوں میں محبت الہی کی بجلیاں دوڑا دی تھیں. فلسطینی مجاہدین کی طاقت و عزیمت کا راز بھی یہی قرآن پاک ہے۔یہی قرآن پاک ہے جس نے ان کے جوانوں اور نوجوانوں کو، ان کے بوڑھوں، بچوں اور عورتوں کو ایمان ویقین کی لذت سے سرشار کر دیا۔ اس وقت جبکہ مسلمانوں نے کتاب الہی کو پس پشت ڈال رکھا ہے فلسطینی مجاہدین کی یہ خصوصیت ہے کہ انہوں نے اس کو حرز جاں بنایا، اور اس طرح ان کی رگوں میں ایمان ویقین کی بجلیاں دوڑ نے لگیں۔ قابل ستائش ہیں ان کے علماء و مفکرین، کہ انہوں نے قوم کو قرآن پاک سے جوڑنے کی بھر پور کوشش کی ۔اس کے لیے حفظ قرآن ، تعلیم قرآن اور فہم قرآن کے پروگرام چلائے۔ اس کے لیے قرآنی نصاب تیار کیے۔ ہر سطح کے لوگوں کے لیے ایسی دل نشیں کتابیں تیار کیں، جو اُن کے اندر قرآن پاک سے عشق پیدا کر سکیں۔ اور اُن کے دل و دماغ کو قرآن پاک کے سانچے میں ڈھال سکیں۔
اسی طرح کی کتابوں میں سے ایک مشہور کتاب ہے. اس کے لکھنے والے ڈاکٹر ادہم شرقاوی ہیں، جو علمی اور دینی حلقوں میں اپنی اچھی پہچان
رکھتے ہیں۔” (صفحہ 6)
اس کتاب کی خصوصیت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: “اس کتاب کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ بہت ہی عام فہم ہے۔ قرآن پاک کے چھوٹے چھوٹے جملوں کی مدد سے یہ ان حقائق کو نہایت موثر انداز میں ذہن نشین کرادیتی ہے، جن حقائق کو ذہن نشین کرانے میں بڑی بڑی کتابیں ناکام رہتی ہیں۔ اس کتاب کو پڑھتے ہوئے ذہن تھکتا نہیں۔ بلکہ بسا اوقات تھکا ہوا ذہن بھی اس کتاب کے چند جملے پڑھ کر تازہ دم ہو جاتا ہے۔ اور دینی غیرت وحمیت سے سرشار ہو جاتا ہے. ” (صفحہ 7)
مصنف نے کتاب دل سے لکھی ہے لہذا دل پر اثر کرتی ہے چھوٹے چھوٹے جملوں میں مصنف بڑی بات کرتے ہیں اور اسلوب بھی ایسا دلنشین کہ قاری متاثر ہوئے بنا نہیں رہ سکتا، ان آیات؛ جن سے ہم سرسری طور پر گزر جاتے ہیں ان کے سایہ میں کیا کیا حکمت پوشیدہ ہیں؛ مصنف نہایت ہی آسان اسلوب میں بیان کر دیتے ہیں. سورۃ القیامہ آیت 14 “بلکہ انسان خود ہی اپنے آپ کو خوب جانتا ہے” کے حوالے سے لکھتے ہیں: “انسان جتنا بھی اچھا بن جائے، ہر حال میں کچھ لوگ اس کو ناپسند کرنے والے موجود ہوتے ہیں، حتی کہ انبیائے کرام کو بھی تمام لوگوں نے پسند نہیں کیا! اسی طرح انسان جتنا بھی فسق و فجور میں مبتلا ہو جائے، ہر حال میں کچھ لوگ اس کے چاہنے والے موجود ہوتے ہیں، حتی کہ فرعون اور نمرود کو بھی چاہنے والے موجود تھے!
مطرف بن عبداللہ فرماتے ہیں، مجھ سے امام مالک علیہ الرحمہ نے دریافت کیا : لوگ میرے بارے میں کیا کہتے ہیں؟میں نے جواب دیا: دوست تعریف کرتے ہیں اور دشمن برائی کرتے ہیں! یہ سن کر امام مالک علیہ الرحمہ نے فرمایا: ابھی تک لوگ ایسا ہی کرتے ہیں، خیر ، ہم پناہ
مانگتے ہیں اللہ کی کہ یہ تمام زبانیں ایک جیسی ہوجائیں! انہوں نے اس بات سے بھی پناہ مانگی کہ تمام لوگ تعریف کرنے لگ جائیں، اور اس سے وہ دھوکہ کھاجائیں، اور اس بات سے بھی پناہ مانگی کہ تمام لوگ برائیاں کرنے لگ جائیں،
اور پھر لوگ جو باتیں بنائیں ان میں سے کچھ باتیں اپنا اثر دکھا دیں!” (صفحہ 14)
کتاب میں جگہ جگہ ایسے واقعات بھی درج ہیں جن سے اسلاف کا اخلاص معلوم ہوتا ہے. ایک جگہ لکھتے ہیں:” بارون رشید کے لشکر میں بیس ہزار مجاہد ایسے تھے جنہوں نے رجسٹر پر اپنا نام درج نہیں کرایا تھا.
وہ اپنی تنخواہیں بھی نہیں لیتے تھے، صرف اس لیے کہ اللہ کے سوا کوئی ان کو جان نہ جائے! سائب بن اقرع نے حضرت عمر بن خطاب کی خدمت میں معرکہ نہاوند میں شہید ہونے والوں کی خبر پہنچائی، انہوں نے کچھ بڑے اور معروف افراد کے نام گنائے اور پھر کہا: اور بھی بہت سے لوگ ہیں ، عام لوگ، جن کو امیر المومنین نہیں جانتے، یہ سن کر حضرت عمرؓ رو پڑے، اور فرمایا: ان کو اس بات سے ذرا بھی نقصان نہیں پہنچنے والا کہ عمر انہیں نہیں جانتا، اللہ رب العزت انہیں اچھی طرح جانتا ہے !”(صفحہ 12)
یہ کتاب مایوسی سے نکالتی ہے. مصنف سورہ القلم آیت 32 “بعید نہیں کہ ہمارا رب ہمیں بدلہ میں اس سے بہتر باغ عطا فرمائے” کے تحت لکھتے ہیں:”جب جب تمہارے ہاتھ سے کوئی موقع نکل جائے یا کوئی جاب چلی جائے یا کسی عزیز اور محبوب انسان کا ساتھ چھوٹ جائے یا کسی قریبی دوست کے ظاہر سے تم دھو کہ کھا جاؤ اور بعد میں معلوم ہو کہ وہ تو ایک خوشخوار بھیڑیا نما انسان ہے تو اس آیت سے اپنی حسرت کی آگ بجھانے کی کوشش کیا کرو۔ اللہ جو کچھ بھی تم سے واپس لے لیتا ہے وہ کسی حکمت کے تحت لیتا ہے۔ “(صفحہ 17)
کتاب میں جگہ جگہ ایسے جملے ہیں جیسے موتی پروئے گئے ہوں. ایک جگہ لکھتے ہیں: “جس کا دل اسباب میں لٹکا رہتا ہے، اللہ اسے اسباب کے حوالے کردیتا ہے! اور جس کا دل اللہ سے وابستہ رہتا ہے، اللہ اس کے لیے اسباب کو مسخر کر دیتا ہے!” (صفحہ 23)
ایک اور جگہ رقمطراز ہیں: “اپنے آپ کو لوگوں کے حوالے نہ کردو
کہ تمہارا کوئی راز لوگوں سے پوشیدہ نہ رہ جائے!”(صفحہ 196)
یہ کتاب باطل کے وقتی فتح سے مرعوب مسلمانوں کو مرعوبیت و یاسیت سے نکالتی ہے. سورہ طہ آیت 68: ” ہم نے کہا، مت ڈر، تو غالب رہے گا” کے تحت لکھتے ہیں:”باطل ایک معرکہ سر کرتا ہے اور حق پوری جنگ جیت جاتا ہے ! نمرود نے ایک معرکہ سر کیا تھا، لیکن حضرت ابراہیم نے پوری جنگ جیت لی تھی ! فرعون نے ایک معرکہ سر کیا تھا، لیکن حضرت موسی نے پوری جنگ جیت لی تھی ! حضرت محمد مکے سے رات کی تاریکی میں چپکے سے نکلے تھے لیکن مکہ میں دن کی روشنی میں واپس آئے تھے اور مکہ کے چاروں دروازوں سے داخل ہوئے تھے! باطل کوئی ایک معرکہ سر کر کے تمہیں آزمائش میں نہ ڈال دے کہ تم حق سے اپنا اعتماد کھو بیٹھو کہ اس نے ابھی تک جنگ نہیں جیتی ! اللہ باطل کو مہلت دیتا ہے، کیونکہ وہ اسے بے نقاب کر دینا چاہتا ہے اور حق کی جیت کو مؤخر کرتا ہے، تاکہ اسے پختہ تر کر دے! جب باطل اپنی انتہا کو پہنچ جائے تو سمجھ لو کہ حق کی جیت کا وقت قریب آلگا ہے!”(صفحہ 175)
بندہ انسانوں کے درمیان رہتا ہے ایسے میں اسے کبھی کسی سے تکلیف پہنچتی ہے. یہ تکلیف ایک انسان کیسے برداشت کرے؛ ایک جگہ سورہ یس آیت 76: “جو باتیں یہ بنا رہے ہیں وہ تمہیں رنجیدہ نہ کریں “کے تحت سے لکھتے ہیں:”لوگ تمہارے بارے میں وہ باتیں بنائیں گے جو تمہارے اندر نہیں ہیں، لہذا تم ان کیطرف توجہ نہ دو! گزرے ہوئے لوگوں پر فخر کرو، وہ تم سے بہتر لوگ تھے!
نبی کے تعلق سے کہا گیا کہ وہ جادوگر ہیں، مجنون ہیں، کذاب ہیں!حضرت یوسف پر چوری کا الزام لگایا گیا! حضرت مریم پر زنا کاری کا الزام لگایا گیا ! اس حقیقت کو ہمیشہ پیش نظر رکھو کہ : تم کتنے ہی نیک بن جاؤ تم لوگوں کی زبانوں سے محفوظ نہیں رہ سکو گے!”(صفحہ 90)
کتاب میں ان آیات پر بھی گفتگو کی گئی ہے جو آپس کے معاملات کو صحیح رخ دینے کی ہدایت کرتے ہیں. یہ کتاب انسانی معاملات کو درست کرتے ہیں: “رشتے ختم ہو جانے پر مجھے افسوس نہیں ہوتا یہ زندگی ہی ایک نہ ایک دن ختم ہوجائے گی ! مجھے افسوس صرف اور صرف رشتے ختم کرنے کے طریقے اور انداز پر ہوتا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ ہم آپس میں گلے ملتے ہوئے اچھے ماحول میں رشتے ختم کریں. جس طرح اپنے کسی عزیز کو ائیر پورٹ پر الوداع کہنے جاتے ہیں! ایسا نہ ہو کہ رشتے ختم کرنے کے بعد اتنا برا حال ہو جائے کہ جیسے کسی معرکہ سے نکل کر آرہے ہوں. ” (صفحہ 120)
کتاب میں جگہ جگہ ترک رذایل پر زور دیا گیا ہے. سورہ لقمان آیت 18″ اور لوگوں سے منھ پھیر کر بات نہ کر “کے تحت سمجھاتے ہیں :”ہمیشہ تواضع اور خاکساری کا رویہ اختیار کرو: وہ مال جو تمہیں متکبر اور مغرور بنادے، وہ فقر و افلاس ہے۔ وہ علم کی ڈگری جو تمہارے اندر غرور پیدا کر دے، وہ جہالت ہے۔ وہ منصب جو تمہیں ڈکٹیٹر بنادے، وہ گراوٹ ہے۔ وہ قوت جو تمہیں ظالم بنادے، وہ کمزوری ہے۔ “(صفحہ 38)
معاشرے کی دین اسلام میں کافی اہمیت ہے، اس کتاب میں معاشرتی احکامات پر بھی خوبصورت باتیں ملتی ہیں. سورہ النساء آیت 19 کے تحت لکھتے ہیں:”معروف ایک ایسا وسیع لفظ ہے جس کے اندر تمام اچھی چیزیں شامل ہو جاتی ہیں !
بیوی کے سامنے مسکرانا بھی معروف ہے. میٹھی باتیں کرنا بھی معروف ہے
سینے سے لگا لینا بھی معروف ہے.
کسی خاص موقع پر یا یونہی ہدیہ تحفہ دینا بھی معروف ہے اُس کے شکوے شکایات سننا بھی معروف ہے.
اُس کی صحت کا خیال رکھنا بھی معروف ہے. اُس کو اس کے گھر جانے سے نہ روکنا بھی معروف ہے. اُس کی رائے کا احترام کرنا بھی معروف ہے.
اُس کی خواہشات کا احترام کرنا بھی معروف ہے.
گھر اور بچوں کے کام میں ہاتھ بٹانا بھی معروف ہے. دینی کاموں میں اُس کا تعاون کرنا بھی معروف ہے.
اُس کی غلطیوں کو نظر انداز کرنا بھی معروف ہے. اُس کے ساتھ نرمی اور محبت سے پیش آنا بھی معروف ہے. بیماری میں اُس کا خیال رکھنا بھی معروف ہے. اس کی مزاجی کیفیت کو سمجھنا اور اُس کا خیال رکھنا بھی معروف ہے.
قرآن مجید کی اس آیت پر غور کرو: وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ ۔”(صفحہ 215)
کتاب اگرچہ عام فہم زبان میں لکھی گئی ہے لیکن اس میں بہت سارے علمی نکات بھی موجود ہیں:
“ھم کے لغوی معنی ، جیسا کہ لسان العرب میں آیا ہے، دل میں کسی بات کا خیال لانے کے ہوتے ہیں، یعنی عملاً کوئی کام کرنے سے پہلے کا مرحلہ، اور اہل عرب کے نزدیک ھم کا یہی معنی معروف ہے، حدیث پاک میں اس لفظ کو تلاش کرتے ہیں تو وہاں بھی اس کے یہی معنی ملتے ہیں. “(صفحہ 182)
کتاب میں جگہ جگہ سیرت پاک صلعم کے بہترین نمونے بھی ملتی ہیں. سیرت طیبہ کے” البم” سے ایک تصویر وہ یوں کھینچتے ہیں :
“صحابہ کرام کے ساتھ کہیں سفر پر نکلے، راستے میں طے ہوا کہ ایک بکری ذبح کریں گے. ایک کہتا ہے : میں ذبح کروں گا دوسرا کہتا ہے: میں کھال اتاروں گا تیسرا کہتا ہے : میں بوٹیاں بناؤں گا اور آپ بڑھ کر اپنی ذمہ داری خود لیتے ہیں: میں صلعم لکڑیاں جمع کرکے لاؤں گا ! بڑوں کا یہی کردار ہوتا ہے، وہ خود کو دوسروں سے الگ نہیں سمجھتے ہیں! “(صفحہ 220)
الغرض یہ قرانیات کے حوالے سے اہم کتاب ہے؛ جس کا مقصد لوگوں کا دل مثبت سوچ کی اور بدلنا ہے. ابوالاعلٰی نے کتاب کا خوبصورت انداز میں ترجمہ کیا ہے کہ قاری کو کہیں محسوس ہی نہیں ہوتا کہ یہ کتاب کسی اور زبان سے ترجمہ کی گئی ہے. 288 صفحات کی کتاب کی قیمت 300 روپے نہایت ہی مناسب ہے. کتاب اعلیٰ طباعت پر ہدایت پبلشرز اینڈ ڈسٹری بیوٹرس دہلی نے شائع کی ہے. یہ کتاب واٹس ایپ نمبر 09891051676سے حاصل کی جاسکتی ہے.