تحریر:شاہد صدیقی
کہتے ہیں پشاور ایک شہر‘ ایک تہذیب اور ایک ثقافت کا نام ہے۔ کیسے کیسے لعل و جواہر یہاں کی مٹی سے اُٹھے اور زندگی کے مختلف شعبوں میں شہرت کی بلندیوں پر پہنچے۔ انہی میں سے ایک پرتھوی راج کپور بھی تھا جس نے تھیٹر اور فلم کی دنیا میں نام پیدا کیا اور جس کا شمار بالی وُڈ کے معماروں میں ہوتا ہے۔ پرتھوی راج کپور کی حویلی پشاور کے تاریخی علاقے قصہ خوانی بازار میں واقع تھی۔ کچھ ہی فاصلے پر ایک مسلمان فیملی آغا جی کی حویلی بھی تھی۔ پرتھوی راج کپور اور آغا جی کے درمیان دوستی کا رشتہ تھا۔ پرتھوی راج کپور کے بیٹوں میں راج کپور‘ ششی کپور اور شمی کپور نے ادا کاری کے میدان میں شہرت کمائی۔ پرتھوی راج کپور کے دوست اور قصہ خوانی بازارکے رہائشی آغا جی کے بیٹے دلیپ کمار نے بھی بالی وُڈ کی دنیا پر راج کیا۔
یہ 1930ء کی بات ہے جب راج کپور کا والد پرتھوی راج کپور نئے امکانات کی تلاش میں بمبئی چلا گیا۔ پرتھوی راج کو اداکاری سے محبت تھی۔ تھیٹر اس کا جنون تھا۔ یہ جنون اسے ہندوستان کے شہر در شہر لے کر جا رہا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ راج کپور نے بھی متعدد شہروں کے سکولوں میں تعلیم حاصل کی‘ ان میں دہرہ دون‘ بمبئی اور کلکتہ شامل تھے۔ راج کپور نے آنکھ کھولی تو گھر میں فلم اور تھیٹر کے قصے سنے تھے‘ اس کا والد پرتھوی راج کپور اس کا استاد اور مینٹور تھا۔ اس کا بھی جی چاہتا تھا کہ وہ اپنے والد کی طرح فلموں میں کام کرے۔ اس وقت کسے معلوم تھا کہ یہ بچہ بڑا ہوکر ہندوستان کا سب سے بڑا شو مین کہلوائے گا اور اس کی فنی عظمت کے اعتراف میں اسے سب لوگ ہندوستان کا چارلی چیپلن کہیں گے۔ راج کی عمر 10سال کے لگ بھگ ہو گی جب اس کی فلموں میں کام کرنے کی آرزو بَر آئی اور اسے اپنی زندگی کی پہلی فلم ”انقلاب‘‘ میں کام کرنے کا موقع ملا۔ 1947ء میں راج کپور نے کئی فلموں میں اداکاری کی جن میں نیل کمل‘ جیل یاترا اور دلی کی رانی شامل ہیں۔ اداکاری کے میدان میں قدم جمانے کے بعد اب وہ فلم پروڈکشن اور ڈائریکشن کے میدان میں آگیا اور 1948ء میں فلم ”آگ‘‘ بنائی جس کا پروڈیوسر اور ڈائریکٹر وہ خود ہی تھا‘ اور جس میں اس نے اداکاری کے جوہر بھی دکھائے۔ 1949ء راج کپور کی زندگی کا خوش قسمت سال ثابت ہوا‘ اس سال راج کپور کی فلم ”برسات‘‘ ریلیز ہوئی۔ راج اس فلم کا پروڈیوسر اور ڈائریکٹر بھی تھا اور اس میں اداکاری کے جوہر بھی دکھائے تھے۔ فلم میں راج کپور کے علاوہ نرگس نے مرکزی کردار ادا کیا۔ اس فلم سے اداکارہ نمی نے اپنے فنی سفر کا آغاز کیا۔ برسات میں موسیقی شنکر جے جشن کی تھی جو ان کے کیریئر کی بہترین فلموں میں سے ایک تھی۔ ”آگ‘‘ کے بعد یہ راج کپور کی دوسری فلم تھی جس کی ڈائریکشن راج کپور نے دی۔ اس فلم نے باکس آفس پر ماضی کے تمام ریکارڈ توڑ دیے۔ حتیٰ کہ وہ محبوب خان کی مقبول فلم ”انداز‘‘ پہ بھی بازی لے گئی۔ اس شاندار کامیابی نے راج کپور کا حوصلہ بڑھایا اور اس نے اپنی فلم کمپنی ”آر کے‘‘ کی بنیاد رکھی۔ یہ راج کپور کی فلمی زندگی کا مصروف سال تھا جس میں اس نے چھ فلموں میں کام کیا۔
پھر 1951ء کا سال آیا جب راج کپور نے اپنی فنی زندگی میں ایک اور اہم سنگِ میل عبور کیا۔ یہ اس کی شاہکار فلم ”آوارہ‘‘ تھی جس میں وہ بطور پروڈیوسر‘ ڈائریکٹر اور ایکٹر شامل تھا۔ اس فلم کی کہانی اردو کے معروف افسانہ نگار خواجہ احمد عباس نے لکھی تھی اور اس میں راج کپور اور نرگس نے مرکزی کردار ادا کیے۔ اس فلم کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں راج کپورکے علاوہ اس کے دادا بشیشورناتھ‘ والد پرتھوی راج کپور اور چھوٹے بھائی ششی کپور بھی بطور اداکار شامل تھے۔ ”برسات‘‘ کی طرح ”آوارہ‘‘ میں بھی شنکر جے کشن کی مدھر دھنوں نے سدا بہار گیت تخلیق کیے۔ آوارہ فلم نہ صرف راج کپور کی زندگی میں ایک خوش قسمت موڑ ثابت ہوئی بلکہ بالی وُڈ کی تاریخ میں بھی ایک سنگِ میل کے طور پر جانی جاتی ہے۔ بھارت اور پاکستان کے علاوہ سوویت یونین‘ مشرقی ایشیا‘ افریقہ‘ مشرقِ وسطیٰ اور مشرقی یورپ میں بھی اس فلم نے کامیابیاں سمیٹیں۔ اس فلم کا ایک گیت ”آوارہ ہوں‘‘ جسے شلندر نے تحریر کیا اور مکیش نے گایا تھا‘ بھارت کے علاوہ دنیا کے دیگر کئی ممالک میں بھی مقبول ہوا۔ اس فلم کو کانز فلم فیسٹیول میں گرینڈ پرائز دیا گیا۔ ٹائم میگزین نے اپنے ایک شمارے میں ‘آوارہ‘ کو دنیا کی 100بہترین فلموں میں شمار کیا۔
آوارہ کی کامیابی کے بعد راج کپور کا فلمی سفر تیزی سے آگے بڑھتا گیا۔ اداکاری کے ساتھ ساتھ اس نے پروڈکشن اور ڈائریکشن کے میدان میں بھی کامیابیاں سمیٹیں۔ اس کی فلموں کی طویل فہرست میں بوٹ پالش‘ 420‘ چوری چوری‘ جاگتے رہو‘ جس دیش میں گنگا بہتی ہے‘ سنگم‘ تیسری قسم‘ میرا نام جوکر‘ کل آج اور کل‘ بوبی‘ ستیم شِوم سندرم اور رام تیری گنگا میلی شامل ہیں۔ انداز اور برسات کی شاندار کامیابی سے اس کا شمار معروف اداکاروں دیو آنند اور راج کمار کے ساتھ ہونے لگا۔ فلم ”کل آج اور کل‘‘ میں کپور خاندان کی تین نسلوں کے نمائندوں نے ایک ساتھ کام کیا جن میں پرتھوی راج کپور‘ راج کپور اور رندھیر کپور شامل ہیں۔ راج کپور نے فلمی دنیا میں نئے نئے تجربے کیے۔ اس نے سنجیدہ فلموں کے علاوہ کامیڈی فلمیں کیں۔ ان میں ”دو جاسوس‘‘ اور ”گوپی چند جاسوس‘‘ شامل ہیں۔ اب راج کپور کے فلمی سفر کا جھٹپٹا تھا۔ فن کے اس سفر میں اس نے کتنے ہی اعزاز اپنے نام کیے۔ ان میں تین فلم فیئر بیسٹ ایکٹر ایوارڈ بھی شامل تھے۔ماسکو انٹرنیشنل فیسٹیول میں اسے جیوری کا ممبر منتخب کیا گیا۔ اس کی آخری فلم وکیل بابو 1982ء میں ریلیز ہوئی۔ ”چور منڈی‘‘ فلم اشوک کمار کے ساتھ قانونی وجوہات کی وجہ سے ریلیز نہ ہو سکی۔ اس کا آخری نامکمل پروجیکٹ فلم ”حنا‘‘ تھی جس میں رشی کپور اور پاکستانی اداکارہ زیبا بختیار نے کام کیا۔ راج کپور کی وفات کے بعد اس کے بیٹے رندھیر کپور نے فلم کو ڈائریکٹ اور ریلیز کیا۔ راج کپور کی شادی کرشنا ملہوترا سے ہوئی تھی۔ اس شادی سے اس کے پانچ بچے تھے۔ رندھیر کپور‘ رشی کپور‘ راجیو کپور‘ رتو کپور اور ریما کپور۔ یوں فلم کی روشن روایت مسلسل آگے بڑھتی رہی۔
آخری عمر میں ر اج کپور کو دمہ کی بیماری ہو گئی۔ یہ 1988ء کا سال تھا۔ اس دن دہلی میں دادا صاحب پھالکے ایوارڈ کی تقریب تھی جس میں راج کپور کو یہ اعزاز ملنے والا تھا۔ اسی تقریب میں اس کی طبیعت خراب ہو گئی۔ اسے فوری طور پر ہسپتال لے جایا گیا۔ ڈاکٹروں نے اس کی جان بچانے کی بہت کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہو سکے اور فلمی دنیا کا یہ روشن ستارہ 63 برس کی عمر میں ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا۔ ہندوستان کے راج باغ میں راج کپورکی سمادھی بنائی گئی ہے‘ یہاں ایک میوزیم بھی بنایا گیا ہے جہاں راج کپور کی فلموں اور اس کے خاندان کی تصاویر ہیں۔ دنیا بھر سے سیاح یہاں آتے ہیں اور راج باغ میں راج کپورکی سمادھی پر حاضری دیتے ہیں۔ وہی راج کپور جو کبھی پشاور کے قصہ خوانی بازار کی ایک حویلی کا مقیم تھا‘ جس نے اپنی زندگی میں شہرت کے آسمانوں میں پرواز کے خواب دیکھے تھے اور جس نے بمبئی کی فلمی دنیا کو فن کی نئی بلندیوں سے روشناس کیا