از:رئیس احمد کمار
محلے کے تمام باشندے عید کی تیاریوں میں مصروف تھے۔ کوئی بیکری کی دوکان کی طرف جارہا تھا تو کوئی اپنے اہل و عیال کے لیے مختلف پکوان بنانے کے لیے گوشت کا انتظام کر رہا تھا۔ گاؤں کے اکثر لوگ اپنے پیارے ننھے منھے بچوں کے لیے کھلونے وغیرہ بازار سے خرید کے لاتے تھے۔ صاحب ثروت لوگ اپنے عمر رسیدہ والدین کے لیے بھی نۓ اور دیدہ زیب کپڑے بازار سے لانے میں کئ دنوں سے مصروف نظر آتے تھے۔۔۔۔
عید کے دن محلے کی پبلک پارک میں عجیب قسم کی گہماگمی تھی۔ بچے اپنے ہاتھوں میں مختلف قسم کے کھلونے لیے چھلانگیں مار رہے تھے اور ان کے والدین اپنے موبائل فونوں سے اس گہماگمی کو عکس بند کر رہے تھے۔ ہر آنکھ خوش اور ہر لب پر مسکراہٹ سجھی ہوئی تھی۔ عام دنوں میں اس پارک کا رخ شاید ہی کوئی بشر کرتا تھا لیکن عید والے دن اس میں الگ قسم کی چہل پہل ہر طرف نظر آتی تھی۔۔۔۔
اتنے میں معروفہ اپنی چھوٹی لخت جگر کو گزشتہ دو عیدوں کی طرح اس بار بھی اپنے کچے مکان کے ایک کمرے کے کونے میں اس طرح بند کیے ہوئی تھی جیسے ایک بند پرندہ پنجرے میں رہتا ہے اور اس کی ہر وقت یہی آرزو رہتی ہے کہ کب آزاد ہوجاوں اور باہر کی دنیا کا نظاروں کردوں۔ دو سال قبل اس کا خاوند کار حادثے کا شکار ہوا تھا اور تین دن تک ہسپتال میں بھرتی رہ کر وہ زندگی کا جنگ ہمیشہ کے لیے ہار گیا تھا۔ اس کی ایک ہی بیٹی تھی اور تب سے آج تک وہ دونوں ماں بیٹی اسی کے بنائے ہوئے کچے مکان میں زندگی کے کٹھن لمحات بڑی مشکل کے ساتھ گزار رہے ہیں۔ عید ہو یا کوئی عام دن اس کی زندگی بے رنگ، بے لطف اور بے مزہ گویا اس کی قسمت میں ہی دکھ اور غم لکھ دیے گئے ہیں۔ عید کے دن نہ وہ اپنی پیاری بیٹی کے لیے نۓ کپڑے خرید سکتی ہے اور نہ کھلونے بازار سے لاسکتی ہے۔ نہ وہ مختلف پکوان بنا سکتی ہے نہ اپنی بیٹی کو عید کے دن محلے کے دیگر بچوں کے ساتھ ملنے اور کھیلنے دے سکتی ہے کیونکہ وہ سب بچے نۓ قیمتی ملبوسات میں پھول جیسے دکھتے ہیں۔ ان کے ہاتھوں میں مختلف کھلونے ہوتے ہیں، ان کے دل خوش اور لبوں پہ ہمیشہ سدا بہار مسکراہٹ سجھی رہتی ہے۔ اس کے مقابلے میں معروفہ اپنی بیٹی کو عید کے دن کمرے میں ایک پرندے کی طرح بند کرنے کے لیے مجبور ہے۔