اننت ناگ: وادی کشمیر میں دستکاری کی صنعت صدیوں سے چلی آرہی ہے۔ تاریخی اعتبار سے محسن کشمیر امیر کبیر میر سید علی ہمدانی (رح) ایرانی سے اسلام کی تبلیغ و اشاعت کی غرض سے کشمیر وارد ہوئے تھے تو صوفی بزرگ نے اسلامی تعلیمات کے ساتھ ساتھ نو مسلم آبادی کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کی غرض سے انہیں دستکاری صنعت کی جانب راغب کیا، جس کے بعد وادی کشمیر میں باقاعدہ طور اس صنعت کا آغاز ہوا اور بیشتر آبادی اسی صنعت کے ساتھ جڑ گئی۔
ماضی قریب تک دستکاری صنعت سے وابستہ افراد کافی حد تک خوشحال زندگی بسر کر رہے تھے، تاہم ترقی یافتہ دور میں روایتی صنعت زوال کی شکار ہوئی ہے جس کی وجہ سے دستکاری صنعت سے جڑے افراد کی آمدن پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ اس صنعت سے جڑے افراد کا کہنا ہے کہ ماضی میں یہاں کی بیشتر آبادی کا حصہ اسی کام کے ساتھ وابستہ تھا، جو اسی صنعت سے اپنا روزگار حاصل کرتے تھے۔تاہم دستکار پہلے ہی کم اجرت اور درمیانہ داروں کے استحصال کا شکار ہوتے آرہے ہیں اور اب جدید ٹیکنالوجی کے متعارف ہونے کی وجہ سے ان کے کام کی زیادہ طلب نہیں اور کاریگروں کے مطابق ’’برسوں سے قلیل یومیہ اجرت پر کام کرتے ہوئے مہنگائی کے اس دور میں گھر کا گزارا بہت مشکل سے ہوتا ہے۔‘‘
کاریگروں کا کہنا ہے کہ انہیں محنت کے حساب سے پہلے ہی بہت کم اجرت ملتی ہے اور اب جدید ٹیکنالوجی نے ہاتھ سے بنائی ہوئی اشیاء کی مانگ میں کمی کر دی ہے جس سے یہ صنعت آخری سانسیں لے رہی ہیں۔ دستکار کا کہنا ہے کہ نئی نسل دستکاری صنعت کی جانب مائل نہیں ہو رہی اور حکومتی سطح پر بھی اسے تحفظ اور فروغ دینے کی غرض سے خاطر خواہ اقدامات نہیں اٹھائے جا رہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ کشمیر کی اس دیرینہ صنعت، جو یہاں کی تاریخ اور ثقافت کا بھی ایک اہم جزء ہے، کو زندہ رکھنے کے لئے حکومتی سطح پر ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھانے کی ضروت ہے وادی کی دستکاری کو زوال پذیر ہونے سے بچایا جائے۔