سری نگر(یو این آئی)جموں وکشمیر،لداخ ہائی کورٹ نے توہین عدالت کیس میں جموں وکشمیر کے چیف سیکریٹری اور دیگر سینئر آفیسران کو 8اگست کی سماعت کے دوران ذاتی طورپر حاضر ونے کا حکم دیا ہے۔
اطلاعات کے مطابق منگل کے روز جموں وکشمیر ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ جسٹس اتل سری دھرن اور جسٹس جاوید اقبال وانی نے جموں وکشمیر کے چیف سیکریٹری ، فائنانس سیکریٹری، جنرل ایڈمنسٹریشن ڈپارٹمنٹ کے سیکریٹری اور پی ڈبیلو ڈی محکمہ کے سیکریٹری کو 8اگست کو سماعت کے دوران عدالت میں ذاتی طورپر حاضر ہونے کے احکامات صادر کئے ہیں۔
جموں وکشمیر انتظامیہ کے چار سینئر آفیسران کو ہدایت دی گئی کہ وہ اگلی سماعت پر ڈویژن بینچ کے سامنے ذاتی طورپر حاضر رہیں کیونکہ آج چیف سیکریٹری کی غیر موجودگی میں سماعت نہیں ہو سکی۔
عدالت نے کہاکہ اگر ان میں سے کوئی کورٹ کے حکم کی تعمیل کرنے سے قاصر رہا تو یہ عدالت مذکورہ آفیسرکی موجودگی کو یقینی بنانے کی خاطر زبردستی اقدامات کا سہارا لے گی۔
توہین عدالت کا یہ کیس سپر انٹنڈنٹ انجینئرز کے مقابلے میں چیف انجینئرز کے تنخواہوں کی سکیل پر تنازع سے متعلق ہے۔
جموں وکشمیر ہائی کورٹ نے 10اگست 2023کو جموں وکشمیر کی حکومت کو ہدایت دی تھی کہ چیف انجینئرز اور دیگر اعلیٰ رینکنگ کے انجینئرز کے تنخواہوں کے تفاوت کو دور کرنے کی خاطر معاملے کو تین ماہ کے اندر اندر سلجھایا جائے ۔
توہین عدالت کی سماعت کے دوران ڈویژن بینچ نے پیر کی صبح چیف سیکریٹری اور دیگر تین سینئر آفیسران کو جواب دینے کی خاطر ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے کارروائی میں شامل ہونے کی ہدایت دی تھی۔
پرنسپل سیکریٹری فائنانس، سیکریٹری پی ڈبیلو ڈی ویڈیو کانفرنس کے ذریعے سماعت میں شامل ہوئے جبکہ سیکریٹری جنرل ایڈمنسٹریشن ڈپارٹمنٹ چھٹی پر ہونے کی وجہ سے اس میں شامل نہیں ہوئے۔
ایڈوکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ چیف سیکریٹری ویڈیو کانفرنسنگ میں شامل ہونے کے خواہشمند ہیں تاہم تاخیر صرف رابطے کے مسائل کی وجہ سے ہوئی ہے۔
ایڈوکیٹ جنرل کے اس بیان پر عدالت نے کہاکہ سیکریٹری قانون اچھل سیٹھی ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے پیش ہوئے اور عدالت کو بتایا کہ چیف سیکریٹری میٹنگ میں مصروف ہے لہذا وہ ویڈیو کانفرنسنگ میں شامل ہونے سے قاصر ہیں۔
ڈویژن بینچ نے سخت ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا:’یہ عدالت اس بات کا پتہ لگانے سے قاصر ہے کہ جھوٹ کون بول رہا ہے۔ایڈوکیٹ جنرل اور سیکریٹری قانون کے بیانات میں تضاد عیاں ہیں۔ ‘
سماعت کے دوران فریقین کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ پرنسپل آرڈر کے خلاف جون 2024 میں سپریم کورٹ میں خصوصی رخصت کی درخواست (ایس ایل پی) دائر کی گئی ہے۔
ڈویژن بنچ نے سپریم کورٹ میں ایس ایل پی داخل کرنے میں تاخیر پربھی سوال اٹھایا۔
بینچ نے کہا کہ مرکزی زیرانتظام علاقے کی حکومت نے اس معاملے کو جس طرح سے لیا ہے اس سے واضح ہوتا ہے کہ عدالتی حکم کی تعمیل کرنے میں انہیں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
انہوں نے کہاکہ اس معاملے کو جس طرح سے لیا گیا اس سے یہ عیاں ہوتا ہے کہ جموں وکشمیر میں عدالتی کارروائی اور عدالتی احکامات کے حوالے سے حکومت کا رویہ افسوسناک حالت کی عکاسی کرتا ہے۔
عدالت نے کہا کہ آج تک ہائی کورٹ میں زیر التوا توہین عدالت کی درخواستوں کی تعداد زائد از چھ ہزار ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ دوسرے لفظوں میں جموں وکشمیر یونین ٹریٹری میں کم از کم چھ ہزار توہین عدالت کے کیس زیر التوا ہیں یعنی احکامات صادر کرنے کے باوجود بھی ان پر عملدرآمد نہیں کیا گیا ۔ ان میں سے کچھ توہین عدالت کے معاملات دس سے 15سال کے درمیان زیر التوا ہیں اور اس سے یوٹی میں انصاف کی فراہمی کے نظام کو مذاق بنا دیا ہے۔
عدالت نے کہا کہ توہین عدالت کے مقدمات کوتین سے پانچ سماعتوں میں ختم کیا جانا چاہئے ۔
یہ ایک چونکا دینے والے منظر نامے کی عکاسی کرتا ہے جہاں ایگزیکٹو اس عدالت کی طرف سے دیے گئے احکامات کو مسلسل حقارت کے ساتھ نظر انداز کر رہا ہے۔
ڈویژن بینچ نے کہا کہ اگر توہین عدالت کے مقدمات بغیر تعمیل کے التوا میں پڑے رہیں تو اس عدالت کا وجود ہی بے معنی ہو کر رہ جائے گا۔
حکم کی تعمیل نہ کرنے کے رویہ سے عدالت کو یہ تاثر مل رہا ہے کہ اب ٹھوس اقدامات اٹھانا ناگزیر بن گیا ہے ۔ انہوں نے کہاکہ عدالتی احکامات پر من وعن عملدرآمد کرانے کی خاطر اب سخت اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہیں۔
انہوں نے کہاکہ عدالت کا تقدس بحال رکھنے کی خاطر اب فوری اقدامات کرنے ہوں گے اور ایسا کرنے میں اب کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کریں گے۔
ڈویژن بینچ نے کہاکہ عدالت عالیہ کے حکم نامے کے ساتھ آج تک جو بھی ہو رہا ہے اب اس سے مزید برادشت نہیں کیا جائے گا،ایک بار عدالت کی جانب سے جو حکم دیا جاتا ہے اس پر عملدرآمد کو یقینی بنانا ہوتا ہے ۔ انہوں نے کہاکہ حکم عدولی پر توہین عدالت کے نتائج کا سامنا کرنے کے لئے آپ کو تیار رہنا پڑے گا۔
جموں وکشمیر ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ کی جانب سے سخت الفاظ استعمال کرنے کے بعد اس اہم مقدمے کی اگلی شنوائی کی تاریخ جمعرات کو مقرر کی گئی ہے۔