تحریر:جی ایم بٹ
کچھ عرصہ پہلے یہ خبر سامنے آئی کہ جنوبی کشمیر کے ایک جوڑے نے منشیات کے استعمال پر ایک کروڑ روپے خرچ کئے ۔ اس دوران انہوں نے اپنے اثاثے فروخت کئے ۔ اپنی ملکیتی اراضی کے علاوہ انہوں نے اپنے زیورات اور گھر کا سارا ساز و سامان بیچ ڈالا ۔ اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے دونوں میاں بیوی نے ساری کہانی سامنے لائی ۔ تمباکو نوشی سے شروع کرکے مذکورہ میاں بیوی نے ڈرگس کا استعمال کرنا شروع کیا ۔ یہاں تک کہ اپنا نشہ کم کرنے کے لئے انہیں اپنا سب کچھ فروخت کرنا پڑا ۔ لٹے پٹے خاندان نے کئی خیر خواہوں کی کوشش سے ڈرگس سے چھٹکارا حاصل کرنے کی حامی بھرلی ۔ اب ڈی ایڈکشن سنٹر کی سہولیات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ڈرگس کے استعمال سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ لیکن اس دوران سب کچھ لٹ چکا ہے اور میاں بیوی دانے دانے کے محتاج ہیں ۔ سب سے افسوس کی بات یہ ہے کہ اس لرزادینے والی خبر سے عوامی حلقوں میں کوئی ہلچل پیدا نہ ہوئی ۔ سماج کے اندر کسی قسم کی تشویش نہیں پائی جاتی ہے نہ اس پر کہیں کوئی واویلا کیا جاتا ہے ۔ بہ ظاہر یہ ایک حیران کن خبر ہے کہ کسی جوڑے نے منشیات کے استعمال پر ایک لاکھ روپے اڑا دئے ۔ لیکن ہمارا سماج اس قدر بے حس ہے کہ اس خبر سے کسی قسم کا ارتعاش پیدا نہ ہوا ۔ اس کی بڑی وجہ شاید ہے کہ ایسی خبروں کے ہم عادی بن چکے ہیں ۔ یہاں تو ہر بستی بلکہ ہر محلے میں اس طرح کی کہانیاں سنی جاتی ہیں ۔ ایسے کئی کردار پائے جاتے ہیں جنہوں نے منشیات کے استعمال کی لت سے مجبور ہوکر اپنی ساری دولت ضایع کردی ۔ ہمارے سامنے ایسی مثالیں بھی ہیں کہ منشیات کے عادی افراد نے اپنی معصوم اولاد کو اسکولوں سے اٹھاکر ان کے عوض قرضہ حاصل کیا ۔ کئی ایک نے اپنے بیٹے بیٹیوں کو گھریلو ملازم رکھ کر وہاں سے معاوضہ حاصل کرکے ڈرگس پر خرچ کیا ۔ اس طرح سے ایسے لوگوں نے اپنی زندگی کے ساتھ ساتھ پورے خاندان کی زندگی تباہ کردی ۔ کشمیر سے باہر بہت سے لوگوں کو اس دلدل میں ڈوبتے دیکھا گیا ۔ اب کشمیر میں ایسی کہانیاں تواتر کے ساتھ سامنے آرہی ہیں ۔ لوگ چوری کرکے اور ڈاکے ڈال کر ڈرگس خریدنے کے لئے پیسے حاصل کرتے ہیں ۔ اپنے گھروں سے مال اٹھاکر فروخت کرتے ہیں تاکہ اپنے نشے پر کچھ قابو حاصل کرسکیں ۔ ابھی تو یہ چیز چوری چکاری اور لڑائی جھگڑے تک محدود ہے ۔ حالات ایسے رہے تو قتل وغارت غیر متوقع نہیں ۔
منشیات کے استعمال پر ایک کروڑ روپے خرچ کرنے کی یہ کہانی کسی مغربی ملک میں پیش آتی تو ہمارے مبلغ اور وعظ خوان اس کہانی کو لے کر نہ جانے کتنے گیت گاتے اور کیا کیا ترانے پڑھتے ۔ انہیں کوئی یہ بتانے کی جرات نہیں کرسکتا کہ ایسی کہانی تمہاری وعظ خوانی کی ناکامی اور خود غرضی کا منہ بولتا ثبوت ہیں ۔ پچھلے تیس سالوں سے ہمارے وعظ خوان لوگوں کو یہ لوریاں سنارہے ہیں کہ مذہب سے ماورا معاشرے تباہی کے دہانے پر کھڑے ہیں ۔ لیکن انہیں یہ پتہ ہی نہیں کہ خود ہم تباہی کے اس دریا میں کب سے غوطے کھارہے ہیں ۔ اسلام نے واقعی منشیات سے دور رہنے کی ترغیب دی ہے ۔ شراب کو تمام برائیوں کی جڑ قرار دیا ہے ۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ ایسے سماج جہاں نشے لوگوں میں سرایت کرتے ہیں تمام برائیاں وہاں موجود نظر آتی ہیں ۔ اس دوران یہ بات کتنی مضحکہ خیز ہے کہ ایک اسلامی سماج میں یہ سب برائیاں بصورت اتم موجود ہیں ۔ اس میں شک نہیں کہ اپنی ظاہری صورت کے اعتبار سے ہمارا سماج بگڑا ہوا سماج نظر نہیں آتا ہے ۔ یہاں اسلامی اقدار کی بہت حد تک پاسداری کی جاتی ہے ۔ صلواۃ اور روزوں کا نظام موجود ہے ۔ بڑی تعداد میں لوگ عمرہ اور حج کو جاتے ہیں ۔ اسلام کے نام پر تشدد سے بھی کام لیا جاتا ہے ۔ اسلام کے کسی شعار کے خلاف معمولی لفظ بولا جائے تو اس کے خلاف احتجاج بھی ہوتا ۔ اس کے باوجود اندر کی کہانی کچھ اور ہے ۔ اندر وہ تمام برائیاں پائی جاتی ہیں جو کسی بھی بگڑے سماج میں پائی جاسکتی ہیں ۔ کھلم کھلا گناہ نہیں کئے جاتے ہیں ۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ گناہ نہیں ہوتے ۔ بلکہ گناہوں کا پلڑا یقینی طور بھاری ہے ۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ مذہب داروں نے سماج کو جس راہ پر ڈال دیا ہے وہ قران اور حدیث سے کوسوں دور ہے ۔ نوجوانوں کو راہ راست پر لانے کے لئے کھوکھلے وعظ کسی صورت فائدہ مند ثابت نہیں ہوسکتے ہیں ۔ مذہبی کو ہائی جیک کرکے نامی گرامی ملائوں نے پچھلے تیس چالیس سالوں کے دوران جھوٹ اور افترا پر مبنی کہانیاں تیار کیں ۔ اس بات کو بڑی تشہیر دی گئی کہ نوجوانوں کا ایک بڑا طبقہ عیسائی مشنریوں کے جھانسے آگیا ہے ۔ اس بات کو اتنا پھیلایا اور ایکسپورٹ کیا گیا کہ اسے ایک تحریک کانام دیا گیا ۔ اس تحریک کو روکنے کے لئے خود کو مجاہد کے روپ میں پیش کیا گیا ۔ بے بنیاد آڑیو اور ویڈیوز تیار کرکے خلیجی ممالک میں پھیلادئے گئے ۔ اس خیالی سیلاب کو روکنے کے نام پر اچھا خاصہ سرمایہ جمع کیا گیا ۔ بلکہ آج تک اس کاروبار کی ترویج کی جارہی ہے ۔ کبھی قادیانیوں کے غلبے اور کہیں شرک وبدعت کے افسانے تراشے جاتے ہیں ۔ یہ ایسا کاروبار ہے جو ملائوں کے لئے کافی سود مند ثابت ہورہاہے ۔ اس کاروبار کے ماہر ملا نئے افسانے تراشنے میں ویسے ہی ماہر بن گئے ہیں جیسے ایک زمانے لڑی شاہ ہوا کرتے تھے ۔ لڑی شاہوں نے کسی طرح سے اپنا کام چھوڑ دیا لیکن ملا حضرات کی کتنی بھی ملامت اور مزمت کیجئے یہ اپنا دفتر بند کرنے پر آمادہ نہیں ۔ ان کے اس کاروبار نے اسلام اور مسلمانوں کو ایسے خسارے سے دوچار کیا کہ جلد یہ باب بند نہ ہوجائے تو ایمان کی حفاظت ممکن ہے نہ اسلام کا تحفظ کیا جاسکتا ہے ۔ ان کے ہاتھوں اسلام اور مسلمان دونوں تباہ و برباد ہوجائیں گے ۔ پھر پورا سماج کروڑوں کا ہی نہیں بلکہ عربوں کھربوں کا نقصان اٹھائے گا ۔