تحریر:ڈاکٹر خواجہ افتخار احمد
ایسا کیا ہے کہ ہم کسی کے لئے بھی اب قابل قبول نہیں رہے؟ کچھ تو کہیں ایسا ہوگا ،ہم سے ہو گیا ہوگا یا کروالیا گیا ہوگا کہ ہماری ہوا ہی اکھڑ گئی ،اور جب ہوا اکھڑجاتی ہے تو پھر تصحیح بڑے یو ٹرن کروا لیتی ہے۔ ہاں کسی اور نے اگر کیا تو وہ کیوں کر پایا اور ہم غفلت میں کیوں رہے یا رہ گئے ؟ ایک سوال یہ بھی ہے۔ اس حقیقت سے انکار کیسے ہو کہ حالات نے آپ کو ہر سو تنہا کر دیا ہے۔ وطن عزیز میں بھی ماحول ایک سوال بنتا جا رہا ہے خود احتسابی کی طرف تو بڑھنا ہی ہوگا!
اسلام کا رب، رب المسلمین نہیں رب العالمین اور رحمان و رحیم ہے ۔وہ تمام انسانیت کو ایک کنبہ قرار دیتا ہے، انسان اور انسانیت کی عظمت کا داعی اورقائل ہے۔ اتنا ہی نہیں اس دین متین میں جارحیت کی کوئی زمین نہیں ، صبر و تحمل اور طہارت آدھاایمان، بطور عقیدہ اسلام درمیانی راستہ، مسلمانان عالم امت وسط، اعتدال اور اسلام ایک ہی سکے کے دو پہلو،امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا ہم کوداعی اوراقامت دین کا ذمہ دار قرار دیا گیا۔ کسی ایک جسم پر چوٹ لگے توسارا جسم کرب محسوس کرے وحدت کا یہ عالم! اللہ اکبر!
ان سب کے باوجود یہ ذلت ورسوائی، بے وقاری اور بےوقعتی جسکا جہاں دل چاہے وہ وہاں آپ کو آپکی اوقات دکھادیگا۔ دو ارب کی آبادی،۵۷ ممالک، تمام جغرافیائی اہمیت کے بری، بحری اورفضائی راستوں کے آپ مالک، قدرتی معدنیات و وسائل سے مالا مال، پیٹرول جیسی دولت پر اجارہ داری پھر یہ حشر نشر معاذاللہ!
بے عقل سازش کا سہارا لیتے ہیں، دشمنی کامفروضہ قائم کرتے ہیں اور ٹھیکرا کسی تیسرے کے سر پھوڑکر خود کوبری الذمہ کر لیتے ہیں۔ عیش و عشرت پر پورا دھیان، تعلیم وتحقیق سے نابلد، فکر ونظریے سے عاری، تنظیمی نظم سے محروم، موروثیت کے قائل اکابرین، دقیانوس معاشرہ و معاشرت، نسبتوں میں اعلیٰ اور ارفع تلاش کرنے پر بڑی محنت، فضول خرچی میں صف اول، محلوں کو ہیرے جواہرات سے سجانے والے، کہنے کو حاکم و حکمران مگر عملاً غلامان ِغلام، اقتدار اعلیٰ آپکا فیصلے کسی اور کے، جدیدترین اسلحہ مگر دفاع کا عالم حالات بار بار قلعی کھولنے کے لئے کافی! یہ قابل غور نکات ہیں۔
ایک دین، ایک کتاب، ایک رسولؐ، ایک راستہ، ایک منزل، ایک خدائے وحدہٗ لا شریک پھر اتنی تقسیم، اتنی آپسی رسہ کشی، ایک دوسرے پر حاوی ہونے کی جنگ، ایک دوسرے سے دست و گریباں، ساری بہادری آپس میں، اس دور کی ہر جنگ میں شکست خوردگی اور زمانے بھرکی رسوائی! اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے، اس میں ہر مسئلے کا حل موجود ہے، یہ راہ مستقیم ہے، جنت کی کنجی اور راہ نجات ہے، کس کو ان سب سے انکار ہے کسی کو بھی تو نہیں، مگر عمل تو قول تک پر صادق نہیں آ رہا، آگے کی بات تو کیا کروں؟ دنیا کے ہر ملک، تہذیب، تمدن اور نظام میں آپ آج معتوب ہیں، بے قدر ہیں، قد کے بونے ہونے کا اندازہ کرناہو تو ائیر پورٹ پر جس طرح آپ کو بے لباس کیا جاتا ہے، جس انسانی رویے کاسامناہوتا ہے مسلم نام دیکھتے ہی چہرے کارنگ بدل جاتا ہے، کہیں بھی جائیے کسی بھی محکمے، دفتر، بازار، سنیما ہال، تفریح گاہ، تعلیمی اداروں، ایوانوں اور بین الا قوامی اداروں میں، کہاں آپکو عزت سے دیکھا جا رہا ہے کوئی بتائے تو صحیح؟
دنیا بھر میں مسجدیں منہدم ہو رہی ہیں، اسلامی تعلیم اور اداروں پر قد غنیں لگ چکی ہیں، اسلامو فوبیا تمام دنیا میں گھر گھر میں داخل ہو چکا ہے، انتہا پسندی اپنے عروج پر ہے، دشمن پر فتح کی بات اور اس کے احمقانہ اہداف! جواب میں تباہی، بربادی، معیشت و معاشرت تباہ، تمام دنیا پر فتح کا ذوق وشوق اور ایک گھر میں سب یک آواز نہیں، عالمی اداروں کے حوالے سے کسی بھی شعبۂ زندگی میں کہیں علم وعقل میں کوئی مقام ہو تو دکھائیے ؟جو نام سامنے آتے ہیں وہ سب امریکہ، برطانیہ اور مغربی ممالک میں بسے مسلمانوں کے ہوتے ہیں ۔آپ کے اپنے ہاں کوئی نکل آتا ہے تو تمام نوبل انعام یافتگان زیر عتاب اور ملک بدر! تمام بڑے دانشوروں، مذہبی اسکالروں اور مخالف آوازوں کی پناہ گاہ آپ کے ہاں نہیں کسی مغربی ملک میں تھی اب آپ وہاں بھی زمین تنگ کر بیٹھے ہیں۔اسلام اور مسلمان آج کہاں کھڑے ہیں حکومتوں اورحکمرانوں کا حال آپ کے سامنے، ادارے اور ان کے چلانے والوں کا حال تقابلی تناظر میں آپکے سامنے، اتحاد کاعالم یہ کہ مسجد حرام، مسجد نبوی، مسجد الاقصی اور مسجد کربلا کے ائمہ کو شامل کرتے ہوئے دو ارب کی مسلم آبادی میں ایک ایسا مسلمان دکھائیے جوتمام مسالک کے ماننے والوں کے نزدیک مسلمان ہو؟
وطن عزیز میں آئیے! کیا حشر ہے ۲۵ کروڑ کی آبادی اتنی بے دست و پا! بر سر اقتدار جماعت آپ کےبغیر ملک چلا رہی ہے، جن پر تکیہ ہے وہ آہستہ آہستہ آپ کوحاشیہ پر لے ہی آئے ہیں، ووٹ بنک کی قلعی آپ نےخود ہی کھول دی ہے، جس معیار کے لوگ ایوانوں میں جا رہے ہیں ان میں سے بیشتر کرسی بھر رہے ہیں۔ قانون سازی ، معیشت، خارجہ پالیسی، امورمالیات جیسے معاملات کے مکالموں اور فیصلہ سازی میں وہ کہاں ہیں اور وہاں آپ کی کیا خدمت ہے؟افسر شاہی، سرکاری ملازمت، اعلیٰ تعلیمی اداروں، ریسرچ، سرکاری و غیر سرکاری محکموں، کاروبار، تجارتی تعلقات، رہائشی سہولیات گویا کوئی شعبۂ زندگی اب ایسا نہیں بچا ہےجہاں آپ کے تعلق سے سوالات، احتیاط یا تعصب اپنی جگہ نہیں بنائے ہوئےہیں آپسی ذاتی تعلقات و دوستیاں بھی مصلحتوں کی نظر ہو چکیں۔جمہوری نظام ، سیکولر سیاست، آئین میں سب کی مساوی حیثیت میں آج آپ کہاں کھڑے ہیں؟ آج تک استعمال ہی ہوتے آئے ہیں چاہےوطن عزیز کی بات کروں یا مسلم دنیا کی۔کسی بھی سطح پر کوئی نظر ثانی دکھائی نہیں دیتی، وہی غلطیاں پوری مستعدی سے دوہرائی جارہی ہیں، کہیں کوئی سبق لیا جاتا دکھائی نہیں دے رہا ہے! جلن اور حسد، لعب و لالچ، ایمان وعمل اور اخلاق و ظرف چھوڑکر آگے بڑھنے کے لئے ہر صاحب نظر جو گفتگو بہت اچھی کر رہے ہیں مگر عمل میں ماشاءاللہ! یونیورسٹی کے وائس چانسلر بننے یا کسی دیگر سرکاری عہدہ حاصل کرنے کے لئے کون کون اور کیا کیا کرنے کو تیار ہے اور کیا کیا کر رہا ہے بس جو جانتے ہیں ذرا ان سے دریافت کیجیے۔ عروج و زوال کے مراحل سے اس دنیائے فا نی میں کون نہیں گزرا، ہر تہذیب اور نظریے کو نشیب و فراز سے گزرنا پڑا ہے جہاں یہ تاریخ ہےوہیں کس طرح زوال میں عزت نفس کا دفاع، ملی وقار و اثاث کا تحفظ، اکثریت سےتعلقات اور اسکی باریکیوں ونزاکتوں کی سمجھ، تصادم و راست مخاصمت سے بچکر مفاہمت اور اشتراک عمل کو شعار بناتے ہوئے معاملہ فہمی، اپنے لئے گنجائش، زمین و شراکت کو یقینی بنانا ہم کب سیکھیں گے ۔
میں جب تجزیہ کرتاہوں کہ آزادی کے بعد ایک نئی حکمت عملی پر کام ہونا تھا جونہیں ہوا، ہم کسی کے بھی حلیف بنتے اوررہتے مگر فریق نہ بنتے، مخالفت کرتے مگر دشمنی کا پٹہ اپنے گلے میں نہ ڈالتے، مگر ہمارا طرزعمل ایسا بودا رہا کہ ہم آج اس ملک کی اکثریت کی نظر میں اپنے آپ کو کیابنا بیٹھے؟ آپ کہیں گے اس بارے میںتو کچھ نہیں کہا۔ سیاست میں جس راستے سے کامیابی ملتی ہے اس پر جماعتیں چل پڑتی ہیں ہمیں یہ دیکھناتھا کہ وہ زمین ہموارنہ ہوتی جس پر قدم رکھ کر پوری عمارت ہی کھڑی ہو گئی مواقع خوب رہے، لوگوں نے چاہا بھی بہت مگر ہم وہاں چوک گئے۔ آج لنچنگ، مساجد کاانہدام، دنگا یا فساد، ہجومی تشدد، اذان، نماز، تہوار، جانوروں کاآنا جانا، ذبح کرنا، کھانا پینا، پہننا کیا کچھ نرغے میں نہیں؟ سب کچھ میں مسائل کھڑے ہو گئے۔ مسجدوں کو کپڑوں سے ڈھکنا پڑ رہا ہے، ڈاڑھی جرم ہورہی ہے، خوف نے نفسیات میں گھر کر لیا ہے، محرومی کا احساس عام ہورہاہے، مسائل کی زمین میں اضافہ ہو رہا ہے ۔ حالات کی ستم ظریفی من حیث القوم ایک نئی حکمت عملی کی طرف بڑھنے، جس میں درمیانی راستے اور مفاہمت کی زمین تلاش کرنے پر اب کام کرنا ہوگا۔ ذہنی ونفسیاتی طور پر یہ سمجھناہوگاکہ آ خر ہماری صفوں اور مزاج میں ایسا کیا ہے کہ ہم ہر طرف اور ہر جگہ کے لئے ایک مسئلہ بن چکےہیں۔ آج کی دنیا میں کچھ ایساماحول بن گیاہے کہ اسلام اور مسلمان ایک طرف ہیں اور باقی تمام دنیا دوسری طرف!
آخر میں اتنا ہی کہنا چاہتاہوں کہ سازش، تعصب، فرقہ واریت، شدت پسندی، اسلام یا مسلم مخالف فضا کو ذمہ دار ٹھہراکر اپنا دامن نہ بچائیے بلکہ حالات کیسے بہتر ہوسکتے ہیں اس پر سنجیدگی سے غور کرکے بیانات نہیں بلکہ اقدامات اٹھانے ہونگے۔ آنےوالی نسل کو ایسے مسائل کا سامنا کرنے سے بچائیے جن کی آنچ اب اسکول میں پڑھنے والے معصوم بچوں تک پہنچ گئی ہے۔ ماحول میں تنگ دامنی و تنگ دستی نہ ملک کے لئے اچھی اور نہ ہی ملت کے لئے! اگلے ہفتے ایک دوسرا رخ انشاءاللہ!