تحریر:این اے مومن
حجر اسود کو جنت کا پتھر سمجھا جاتا ہے۔ خانہ کعبے میں نصب ہونے کی وجہ سے ہر سال لاکھوں مسلمان اس کو چومتے ہیں۔ لیکن بہت کم کو اس کی تاریخ کا علم ہے۔
آدم یا ابراہیم نے کعبہ تعمیر کیا اور جنت سے حجر اسود آیا، یہ سب مذہبی اساطیر ہیں۔ واحد قابل یقین بات یہ ملتی ہے کہ کعبے کی تعمیر کے وقت اسے سامنے کی پہاڑی جبل ابو قبیس سے اٹھاکر نصب کیا گیا۔
حجر اسود کس قسم کا پتھر ہے، مستشرقین کو اس میں کافی دلچسپی ہے۔ بعض کی رائے ہے کہ یہ بسالٹ ہے، کسی کے مطابق عقیق ہے، کوئی آتش فشاں کا پتھر سمجھتا ہے لیکن زیادہ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ کسی شہاب ثاقب کا ٹوٹا ہوا ٹکڑا ہے۔ چونکہ جدید دور میں اس کا تجزیہ نہیں کیا گیا اس لیے یقین سے کوئی بات نہیں کی جاسکتی۔
حجر اسود کی کئی بار بے حرمتی کی گئی ہے اور یہ کام ہر بار خود مسلمانوں نے کیا ہے۔
پہلی بار یہ کام یزید کی فوجوں نے کیا۔ سانحہ کربلا کے تین سال بعد یعنی 683ء میں مکہ میں عبداللہ بن زبیر محصور تھے تو یزیدی افواج نے کعبے پر پتھر برسائے۔ اس سے حجر اسود کئی ٹکڑوں میں تقسیم ہوگیا۔
دوسری بار 952ء میں قرامطی اسے اکھاڑ کے یمن لے گئے اور 23 سال تک اپنے پاس رکھا۔ ایک روایت یہ ہے کہ ابو طاہر قرامطی نے حجر اسود کو اپنے ٹوائلٹ کے مقام پر لگوایا۔ عباسیوں نے اسے واپس حاصل کرکے دوبارہ کعبے میں نصب کیا۔
گیارہویں صدی عیسوی میں غالبا ایک مصری باشندے نے اسے توڑنے کی کوشش کی لیکن معمولی نقصان ہی پہنچاسکا۔ اس شخص کو موقع پر مار دیا گیا تھا۔
آخری بار 1674 میں ایک شخص نے پھر یہ کوشش کی۔ خیال ہے کہ وہ کوئی ایرانی لڑکا تھا کیونکہ اس کے بعد عربوں نے ایرانیوں پر حملے کیے اور انھیں حج کرنے سے روکا۔
ان تمام واقعات کی وجہ سے حجر اسود کے متعدد ٹکڑے ہوچکے ہیں۔ 17ویں صدی عیسوی تک یہ ساڑھے چار فٹ لمبا اور چار فٹ چوڑا تھا۔ لیکن اب تمام ٹکڑے مل کر لمبائی میں 8 انچ اور چوڑائی میں سوا 6 انچ رہ گئے ہیں۔
حجر اسود سے متعلق ایک واقعے کا ذکر عام طور پر نہیں کیا جاتا کہ قرامطیوں کی طرح عثمانی ترک بھی حجر اسود کے چند ٹکڑے استنبول لے گئے تھے جو انھوں نے کبھی واپس نہیں کیے۔ یہ کام سلیمان عالیشان نے پانچ سو سال پہلے کیا۔ حجر اسود کے وہ ٹکڑے استنبول کی مختلف مساجد میں آج بھی موجود ہیں۔